"HAC" (space) message & send to 7575

جنوبی ایشیا اور امریکی عالمی ایجنڈا

تاریخی پیچیدگیوں اور جغرافیائی سیاسی اہمیت سے مالا مال خطے کے طور پر جنوبی ایشیا نے مسلسل عالمی طاقتوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ اس علاقے میں سفارتکاری اور حکمت عملی کا پیچیدہ کھیل نو آبادیاتی دور سے لے کر بڑی طاقتوں کی جدید دور کی پالیسی کے تقاضوں تک کے عوامل سے متاثر ہے۔ یہ خطہ سات ریاستوں پر مشتمل ہے: پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ نیپال‘ بھوٹان اور مالدیپ۔ جب افغانستان کو اس خطے کی علاقائی تنظیم (SAARC) کی رکنیت کی پیشکش کی گئی تو اس کا شمار آٹھویں ریاست کے طور پر ہونا شروع ہوا‘ تاہم خطے کی توجہ مذکورہ بالا سات ریاستوں ہی پر مرکوز ہے۔
جنوبی ایشیا کے ورثے کی جڑیں وادیٔ سندھ کی تہذیب‘ مہرگڑھ کے آثارِ قدیمہ (بلوچستان کے علاقے) اور شمالی پاکستان میں گندھارا بدھ یادگاروں کے قدیم دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس خطے میں زبانوں‘ قومیت‘ مذاہب اور علاقائی تغیرات اور عدم مساوات کا تنوع بھی پایا جاتا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں جنوبی ایشیا کی علاقائی حدود کو برطانوی سلطنت کی حدود کے طور پر دیکھا جاتا تھا لیکن آزادی کے بعد کے دور میں اس کا جغرافیائی مقام اسے ایک اہم خطہ بناتا ہے۔ یہ ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جو چین‘ روس‘ افغانستان اور وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کا سنگم ہے۔ جنوبی ایشیا کے اس جغرافیائی محل وقوع کو سرد جنگ کے دور میں بہت دلچسپی کے ساتھ دیکھا گیا جب امریکہ اور سوویت یونین نے ایک دوسرے کے اثر ورسوخ کو روکنے اور اپنے اثر ورسوخ کو بڑھانے کی کوشش کی۔ اسی دشمنی نے جنوبی ایشیا کی ریاستوں کے بارے میں سوویت یونین اور امریکہ کی پالیسیوں کو تشکیل دیا۔
1950ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستان میں امریکہ کی دلچسپی اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے تھی جسے امریکہ اُس وقت کے سوویت یونین کے مقابلے میں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان نے امریکہ کے زیر اہتمام علاقائی دفاعی معاہدوں SEATO‘ CENTO اور امریکہ کے ساتھ دوطرفہ سلامتی کے معاہدوں میں شمولیت اختیار کی‘ جس سے پاکستان کو معاشی امداد‘ فوجی ہتھیار‘ ہوائی جہاز‘ بحری وسائل‘ مواصلاتی ساز وسامان‘ فوجی تربیتی سہولتیں اور ٹرانسپورٹ کے وسائل حاصل کرنے میں مدد ملی۔ اس سے بھارت کے خلاف پاکستان کے دفاع کو تقویت ملی۔ بھارت نے امریکہ کے زیر اہتمام علاقائی معاہدوں میں شامل ہونے سے گریز کیا لیکن سوویت یونین کے ساتھ قریبی تعامل قائم رکھا۔ تاہم اکتوبر 1962ء کی چین بھارت سرحدی جنگ میں شکست کے بعد بھارت نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے فوجی ساز وسامان حاصل کیا اور ان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ اس نے چین بھارت سرحد پر امریکی فوج کو انٹیلی جنس جمع کرنے کی بھی اجازت دی۔
پاکستان اور امریکہ کے مابین فعال سکیورٹی تعاون کا دوسرا دور 1980ء کی دہائی کے اوائل میں سوویت فوج کی افغانستان آمد اور وہاں اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے کے بعد تشکیل پایا۔ پاکستان اور امریکہ نے افغانستان پر سوویت فوج کے قبضے کو چیلنج کرنے کے لیے اسلامی‘ افغان مزاحمتی فورس بنانے کے لیے کام کیا۔ تاہم فروری 1989ء میں افغانستان سے سوویت فوج کے انخلا کے ساتھ پاکستان میں امریکی دلچسپی بھی کم ہو گئی اور اس نے اکتوبر 1990ء میں یہ کہتے ہوئے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں کہ پاکستان خفیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر کام کر رہا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹرٹیجک شراکت داری کا تیسرا دور 11 ستمبر 2001ء کو امریکہ میں دہشت گرد حملوں کے بعد شروع ہوا۔ پاکستان بین الاقوامی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکہ کے زیر قیادت عالمی اقدامات میں شامل ہوا۔ حسبِ سابق امریکہ نے پاکستان کو مالی امداد‘ اسلحہ اور ساز وسامان فراہم کیا اور پاکستان نے کابل میں طالبان حکومت کے خاتمے کے لیے اکتوبر 2001ء میں امریکی فضائی حملوں کے لیے سہولت فراہم کی۔ تاہم امریکہ نے چار سال بعد آہستہ آہستہ ان تعلقات کو کم کرنا شروع کیا‘ اگرچہ اس نے اس حد تک تعلقات ضرور برقرار رکھے کہ کراچی بندرگاہ سے افغانستان تک زمینی راستے سے اپنی فوجوں کے لیے سپلائی جاری رکھ سکے۔ پاکستان نے اس شراکت داری کی بھاری قیمت ادا کی کیونکہ طالبان اور ان کے اتحادیوں نے 2003-04 ء میں پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیاں شروع کر دیں جو 2007ء کے بعد سے زیادہ شدت اختیار کر گئیں۔
امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ سکیورٹی اور معاشی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں تاہم اس نے چین کے خلاف اپنے عالمی ایجنڈے کے لیے 2005ء سے بھارت کو اہمیت دینا شروع کر دی۔ 21ویں صدی کی دوسری دہائی میں امریکی خارجہ پالیسی میں اس کی اہمیت میں اُس وقت اضافہ ہونا شروع ہوا جب چین نے معاشی روابط کی اپنی عالمی پالیسی کا آغاز کیا۔ اس کی وجہ سے ایشیا بحر الکاہل کے خطے اور دنیا کے دیگر حصوں میں چینی کردار پر قابو پانے کے لیے امریکہ اور بھارت کے درمیان مضبوط سٹرٹیجک شراکت داری قائم ہوئی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ امریکی سٹرٹیجک شراکت داری جنوبی ایشیا کے اندر کسی خاص امریکی مفاد کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ جنوبی ایشیا کے یہ ممالک جہاں امریکہ کے خصوصی مفادات تھے‘ امریکہ نے مختلف اوقات میں پاکستان اور بھارت کو استعمال کیا۔ اب امریکہ کو چینی سفارتی اور معاشی روابط کو محدود کرنے میں خصوصی دلچسپی ہے‘ چنانچہ وہ بھارت کو اپنا سٹرٹیجک پارٹنر سمجھتا ہے۔ چونکہ بھارت کے چین کے ساتھ کچھ تنازعات بھی ہیں‘ چنانچہ وہ باقی دنیا کے ساتھ چینی معاشی روابط کو محدود کرنے کے لیے امریکہ‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اور فلپائن کے ساتھ شراکت کرنے کے لیے تیار ہے۔
جنوبی ایشیا میں امریکہ کے محدود مفادات ہیں۔ امریکہ خطے کی ریاستوں کے ساتھ خیر سگالی اور دوستانہ تعامل برقرار رکھنا چاہتا ہے کیونکہ جنوبی ایشیا دنیا کی 22 فیصد آبادی پر مشتمل ہے تاہم جنوبی ایشیا کے ایک مخصوص ملک کے ساتھ امریکی تعلقات اس کے عالمی ایجنڈے سے تشکیل پاتے ہیں۔ یہ جنوبی ایشیائی ریاستوں کو اقتصادی اور تکنیکی تعاون فراہم کرتا ہے اور تمام ریاستوں بالخصوص بھارت‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھتا ہے۔ یہ ہر ملک میں اندرونی استحکام اور خطے میں امن کو برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ اسے کسی کی طرفداری نہ کرنا پڑے۔ مزید برآں‘ بھارت اور پاکستان کے جوہری ہتھیار بھی امریکی توجہ کا محور ہیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان اور بھارت روایتی جنگ کی طرف جائیں تاکہ روایتی جنگ سے جوہری تصادم کی صورتحال پیدا نہ ہو۔ یہ بھارت اور پاکستان کے تنازعات میں فریق بننے سے گریز کرتا ہے تاہم انہیں مشورہ دیتا ہے کہ اپنے مسائل پُرامن طریقے سے حل کریں۔
توقع ہے کہ نئی ٹرمپ انتظامیہ امریکی عالمی مفادات سے مطابقت کے باعث بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو ترجیح دے گی۔ پاکستان کو کم ترجیح ملے گی لیکن اسے مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ امریکی کانگریس کا ایک طبقہ ٹرمپ انتظامیہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حزبِ اختلاف کی جانب سے ریاستی مشینری اور قوانین کے بے جا استعمال کی شکایات پر حکومت پاکستان کو آڑے ہاتھوں لینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس مرحلے پر یہ کہنا مشکل ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس مطالبے پر عمل کرے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں