بھارت میں تازہ ترین عام انتخابات‘جو کہ آزادی کے بعد سے 18ویں عام انتخابات تھے‘ 19 اپریل سے یکم جون تک 44 روز کے دوران سات مراحل میں منعقد ہوئے اور ووٹوں کی گنتی 4 جون کو کی گئی۔ اس طرح کے طویل انتخابی شیڈول اور انتخابی عمل کے اختتام پر ووٹوں کی گنتی ‘ پاکستان کیلئے سبق آموز ہے جہاں پولنگ کے بعد نتائج کے اعلان میں تھوڑی تاخیر انتخابی ہیرا پھیری کی شکایات کو جنم دیتی ہے۔ بھارت میں پہلے عام انتخابات 1951-52ء میں ہوئے‘ اس کے بعد 1957ء‘ 1962ء‘ 1967ء‘ 1971ء‘ 1977ء‘ 1980ء‘ 1984ء‘ 1989ء‘ 1991ء‘ 1996ء‘ 1998ء‘ 1999ء‘ 2004ء‘ 2009ء‘ 2014ء‘ 2019ء اور اب 2024ء میں انتخابات ہوئے۔بی جے پی کے لوگ خوش ہیں کہ نریندر مودی نے مسلسل تیسری مدت کیلئے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ ماضی میں صرف جواہر لال نہرو اس امتیاز کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بی جے پی اور اس کا اتحاد‘ جسے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کہا جاتا ہے‘ نریندر مودی کی انتخابی کامیابی کوگہنانے والے عوامل سے توجہ ہٹانے کیلئے مودی کی تیسری مدت کو اجاگر کیے جا رہا ہے۔ بی جے پی کی اقتدار میں واپسی کے باوجودانتخابی نتائج نے بی جے پی کی سیاست کے بارے اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔ انتخابی نتائج ظاہر کر رہے ہیں کہ ووٹرز نے حکمران جماعت کے ہندو قوم پرست سیاسی ایجنڈے پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ 2019ء کے انتخابات میں 352 نشستوں کے مقابلے میں ان انتخابات میں این ڈی اے کو 293 نشستیں ملی ہیں‘ جبکہ صرف بی جے پی کی بات کی جائے تو اسے 2014ء اور 2019ء کے مقابلے میں اس بار سب سے کم نشستیں ملی ہیں۔ اس نے ان انتخابات میں 240 نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ 2019ء میں اسے 303 اور 2014ء میں 282 نشستیں ملی تھیں۔ موجودہ انتخابات میں بی جے پی کے ووٹ تقریباً 36.7 فیصد تھے۔
اگرچہ 2014 ء اور پھر 2019ء میں بھی بی جے پی کے پاس سادہ اکثریت تھی لیکن اس نے این ڈی اے کی اتحادی حکومت تشکیل دی‘ تاہم اکثریت میں ہونے کی وجہ سے بی جے پی کو حکومت پر غلبہ حاصل تھا۔ اس بار بی جے پی کے پاس نشستوں کی واضح اکثریت نہیں؛ چنانچہ اتحادی حکومت بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس سے چھوٹی سیاسی جماعتوں کی سودے بازی کی قوت میں اضافہ ہوگا اور مودی کو سیاست اور حکمرانی میں فیصلہ کن آزادی حاصل نہیں ہوگی۔
اگر ہم حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی کارکردگی کو دیکھیں تو یہ کانگریس کی قیادت میں اتحاد‘ جسے ''انڈیا نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسیو الائنس‘‘ (انڈیا) کہا جاتا ہے‘ نے 2019 ء اور 2014ء کے پہلے دو انتخابات کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے حالیہ انتخابات میں 232 نشستیں حاصل کی ہیں۔ 2019ء کے انتخابات میں کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن کے اتحاد نے صرف 91نشستیں حاصل کی تھیں۔ 2019ء کی 52 نشستوں کے مقابلے میں اس بار اکیلی کانگریس نے تقریباً 99 نشستیں حاصل کر لی ہیں؛چنانچہ اپوزیشن ماضی کے مقابلے میں اس بار زیادہ پُراعتماد دکھائی دیتی ہے اور اس بار یہ مودی کی اُن پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی بہتر پوزیشن میں بھی ہے جن کا مقصد بھارت کو ایک ہندو مذہبی اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ مودی کی یہ پالیسی گاندھی‘ جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر امبیڈ کر کے تصورات کے منافی ہے کیونکہ ان لوگوں نے بھارت کو ایک متنوع اور سیکولر سیاسی نظام کے طور پر پیش کیا تھا اور وہ سرکاری سطح پر نسلی اور مذہبی تنوع کا احترام کرتے تھے۔نریندر مودی اور بی جے پی کے قائدین نے بزعم خود انتخابات میں جھاڑو پھیر دینے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا اور بی جے پی کی پروپیگنڈا مشینری‘ جس میں نجی میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی شامل ہے‘ بی جے پی کے 400 سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی باتیں کر رہی تھی۔ مودی حکومت نے اپوزیشن رہنماؤں کو ہراساں کرنے کیلئے بھی ریاستی مشینری کا خوب استعمال کیا۔ اس نے کانگریس کی قیادت کو ریاستی دباؤ میں رکھا اور طویل عرصے سے بدعنوانی کی تحقیقات کے سلسلے میں بی جے پی کی مخالفت کرنے والے دو وزرائے اعلیٰ کو گرفتار کرایا۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو اس سال مارچ میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے انتخابی مہم کیلئے ضمانت حاصل کی اور بدعنوانی کی کارروائی کا سامنا کرنے کیلئے دو جون کو دوبارہ جیل چلے گئے۔ جھاڑکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہرمنت سورن کو امسال فروری میں منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ‘جس کے بعد انہوں نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔
موجودہ انتخابات میں بی جے پی نے '' مودی کا جادو‘‘ کے بیانیے کو خوب برتا۔بی جے پی کے بیانیے میں مقبوضہ کشمیر (2019ء) کی حیثیت کی تبدیلی‘ شہریت ایکٹ (2019ء)‘ مذہبی اقلیتوں پر دباؤ اور جنوری میں ایودھیا میں نئے تعمیر شدہ رام مندر کا افتتاح شامل تھا۔ شہریت کے قانون کے تحت گزشتہ ماہ چودہ افراد کو بھارتی شہریت بھی دی گئی۔ مودی اور ان کے قریبی ساتھی مسلمانوں پر تنقید میں بھی سرگرم رہے اور انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں پاکستان کو بھی نشانہ بنائے رکھا۔ بھارتی حکومت نے اس بات کا بھی خوب پرچار کیا کہ کس طرح مودی نے عالمی سطح پر بھارت کی حیثیت کو بڑھایا‘ خاص طور پر ایشیا اور بحر الکاہل کی علاقائی سیاست کے تناظر میں امریکہ‘ آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی بات چیت کے حوالے دیے گئے۔
بھارتی تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا اور دوسرے میڈیا کے ساتھ ہیرا پھیری کرنے سے ایک خاص قسم کی مثبت تصویر تشکیل دی جا سکتی ہے لیکن اگر یہ جھوٹ اور خود ساختہ تخیلات پر مبنی ہے تو یہ امر گمراہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ مزید یہ کہ آبادی کے کچھ حصوں میں خوف پیدا کرنے کیلئے ریاستی مشینری کا استعمال اپوزیشن کی مخالفت کو کم کر سکتا ہے ‘ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ووٹرز میڈیا کے ذریعے پیش کی جانے والی قیادت اور پالیسیوں کے حق میں اپنا ووٹ ڈالیں۔ ووٹر خاموشی سے اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ یہ مذہبی اقلیتوں‘ بیروزگار نوجوانوں اور ان لوگوں کی طرف سے پُرسکون ووٹنگ ہی تھی جس کی وجہ سے بی جے پی؍ این ڈی اے کو یہ دھچکا لگا۔ اس سال فروری کے انتخابات میں پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب نوجوان اور پی ٹی آئی کے حامی ووٹرز خاموشی سے پولنگ سٹیشنوں پر گئے اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو ووٹ دیا۔ یہ ووٹرز کی جانب سے سمجھداری سے ووٹوں کے استعمال کو ظاہر کرتا ہے‘ خاص طور پر نوجوانوں کی جانب سے‘ جنہوں نے اپنی آزاد سوچ کا مظاہرہ کیا۔
بی جے پی کی واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی سے چھوٹی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے ‘جو نئی دہلی میں اتحادی حکومت کی حمایت کے بدلے مودی حکومت سے فوائد حاصل کریں گی۔ اس طرح بھارت کے 1977ء‘ 1980ء اور 1989ء تا 1999ء کی اتحادی سیاست کی جانب واپسی کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ مرکزی حکومت کا وجود اور علاقائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اس کے تعلقات نئی دہلی میں کسی بھی حکومت کیلئے چیلنجنگ ہوں گے۔
خارجہ پالیسی کے دائرے میں‘ امریکہ کے ساتھ صف بندی کی موجودہ پالیسی اور ایشیا‘ بحر الکاہل کے خطے کی ریاستوں کے ساتھ شراکت داری‘ چین کے کردار کو کم کرنے کیلئے جاری رہے گی۔ توقع کی جاتی ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان کے بارے میں اپنے بے اعتنا نقطہ نظر کو بھی جاری رکھے گی۔ یہ کشمیر کے بارے میں سخت پالیسی اپنائے گی اور دہشت گردی کے مسائل اور اندرونی اختلافِ رائے سے متعلق جنگجویانہ لہجے میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرے گی۔