معیشت کسی ملک کے داخلی‘ سماجی اور سیاسی استحکام کا ایک اہم محرک ہوتی ہے اور یہی عالمی سطح پر اُس کے کردار کو بھی تشکیل دیتی ہے۔ کسی ملک کی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو اور عوامی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کافی مستحکم ہو تو وہ ملک داخلی اور خارجی پالیسی سازی میں زیادہ خودمختاری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ تاہم معیشت کا سیاست سے بھی گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ہر دو حقیقتیں ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ اگر ایک میدان میں خامیاں یا مسائل ہوں تو یہ دوسرے شعبے میں بھی تنازعات اور بدامنی کا باعث بنتے ہیں۔
معیشت کے بیرونی اور داخلی پہلو بھی اہم ہیں۔ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ معاشی تعاون اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ کثیر جہتی معاشی تعلقات ناگزیر ہیں۔ بیشتر ترقی پذیر ممالک بین الاقوامی مالیاتی اداروں‘ بینکوں اور متمول ممالک سے معاشی امداد اور قرضوں کے خواہاں ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی معاشی تعامل کی نوعیت اور سمت کو متعین کرنے والے دیگر عوامل میں تجارتی تعلقات‘ ادائیگیوں کا توازن‘ غیر ملکی امداد اور قرضوں پر انحصار‘ بیرونِ ملک مقیم شہریوں کی ترسیلاتِ زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری قابلِ ذکر ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کسی ملک کی معیشت غیر ملکی وسائل پر زیادہ انحصار کرتی ہے یا داخلی پر۔ داخلی وسائل میں زراعت‘ صنعتی پیداوار‘ برآمدات کے لیے ویلیو ایڈڈ مصنوعات‘ ٹیکنالوجی کی ترقی اور تعلیم یافتہ‘ ہنر مند اور صحت مند آبادی شامل ہیں۔ بین الاقوامی تجارت‘ صنعتی ترقی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سازگار سیاسی ماحول اور بہتر حکمرانی بھی ضروری ہیں۔ بدعنوانی اور امن وامان کی خراب صورتحال معاشی امکانات کو متاثر کرتی ہے۔
معیشت کا ایک اور پہلو سماجی ہم آہنگی اور استحکام سے وابستہ ہے۔ معیشت کو عام آدمی کو محفوظ معاشی مستقبل فراہم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے تجربے سے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ ملک میں اُن کا اور اُن کے بچوں کا سماجی واقتصادی مستقبل محفوظ ہے۔ معیشت کو عوامی طبقات کے لیے معاشی ترقی کے ثمرات کی منصفانہ تقسیم یقینی بنانی چاہیے۔ ترقی صرف اعلیٰ طبقات تک محدود ہو تو یہ استحکام نہیں لا سکتی‘ اس طرح یہ صرف معاشرے کے اعلیٰ طبقے کی خدمت کرتی ہے۔ اہم مسئلہ لوگوں کے لیے روزگار تلاش کرنے کے مواقع پیدا کرنا ہے جو لوگوں کو باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنائیں۔ مصارفِ زندگی کم ہونے چاہئیں‘ ان میں خوراک اور دیگر اجناس‘ پینے کے پانی‘ بجلی‘ گیس‘ ایندھن اور نقل وحمل جیسی سہولتوں کے مصارف شامل ہیں۔ تاہم یہ بھی اہم ہے کہ ریاست تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال‘ شہری سہولتوں اور ماحولیات پر کتنا خرچ کرتی ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ معیشت عام لوگوں کی کس قدر خدمت کر رہی ہے۔
عالمی اور داخلی تناظر میں معیشت کی مینجمنٹ پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ 2008ء کے بعد سے تمام سویلین حکومتوں کو معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں مشکلات پیش آئی ہیں‘ اور وقت کے ساتھ اس مسئلے کی نوعیت تبدیل ہوتی گئی ہے۔ یہ مسئلہ 2019-20ء کے بعد شدت اختیار کر گیا کیونکہ 2019ء کے بعد سے مختلف حکومتوں کی معاشی کارکردگی دگرگوں رہی۔ فی الحال مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے معیشت کو معقول حد تک منظم کر لیا ہے اور پاکستان کو بین الاقوامی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کے فوری خطرے کا سامنا نہیں ہے‘ جس نے معیشت کو ایک بڑی پریشانی سے بچا لیا ہے‘ تاہم اس سے ایک اور قسم کی مشکل پیدا ہو گئی ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان کی معیشت ملکی اور داخلی ذرائع کے بجائے بیرونی ذرائع پر زیادہ انحصار کرنے لگی ہے۔ اس نے پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے حاصل کر کے‘ کچھ قرضوں کی تجدید کر کے اور آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک پر فیصلہ کن حد تک انحصار کر کے خود کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے۔ اس بندوبست نے پاکستان کے معاشی معاملات میں آئی ایم ایف کے اثر ورسوخ کو بڑھا دیا ہے۔ آئی ایم ایف ہی اب معاشی پالیسیاں طے کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا ایک وفد کچھ روز پہلے پاکستان کا دورہ کر چکا‘ اس سے قبل بھی ایک وفد آیا تھا جبکہ ایک وفد آئندہ چند روز میں اور ایک وفد مارچ کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کا ایک وفد بھی 14 فروری کو پاکستان پہنچا تھا۔ یہ وفود پاکستان کی معاشی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان سات بلین ڈالر کا تازہ ترین قرض حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں پر کس حد تک عمل کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے وفود معیشت کی تنظیم نو کے لیے نئی ہدایات دیں گے۔ معیشت کے دیگر بیرونی ذرائع میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں ان کے جمع کرائے گئے فنڈز شامل ہیں۔
اقتصادی خودمختاری حاصل کرنے کے لیے حکومت معیشت کے ملکی وسائل جیسا کہ زراعت‘ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں اور برآمدات کے لیے ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی تیاری کی صلاحیت کو مکمل طور پر استعمال نہیں کر رہی۔ پاکستان نے 2024-25ء میں گندم اور کپاس درآمد کی ہے اور زراعت اور صنعتی شعبوں میں پیداوار کی لاگت اور دیگر مسائل سے متعلق شکایات کا ایک سلسلہ ہے جس نے ان شعبوں کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالا ہے۔ حکومت ملک میں افراطِ زر کی شرح کو کم کرنے کی بات بھی کرتی ہے لیکن روز مرہ کے استعمال اور خوراک کی اشیا‘ ادویات وغیرہ کی قیمتیں پاکستانی آبادی کی اکثریت کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد‘ خاص طور پر نوجوان آبادی بیرونِ ملک بہتر زندگی گزارنے کے لیے قانونی یا غیر قانونی ذرائع سے ملک چھوڑنا چاہتی ہے۔
حکومت نے مختلف سکیموں کے تحت سبسڈی‘ محدود طبی امداد‘ نقد رقوم کی تقسیم یا سود سے پاک قرض دے کر غربت اور پسماندگی کو دور کرنے کا عارضی حل نکالا ہے۔ اس سے غریبوں کو فوری طور پر تو راحت ملتی ہے اور ریاستی وسائل کی اس کھلی بانٹ سے حکمران اشرافیہ کے لیے عارضی سیاسی فوائد تو حاصل ہو سکتے ہیں لیکن یہ اُن لوگوں کی عزتِ نفس کو کم کرتا ہے جو حکومت سے ریاستی سرپرستی اور خیرات یا عطیات حاصل کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں۔ اس کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ معاشی فروغ کے لیے ریاستی وسائل کو اس طرح سے خرچ کرے کہ عام لوگوں کو باقاعدہ روزگار ملے جس سے وہ قابلِ احترام اور مستقل آمدنی کا ذریعہ حاصل کر سکیں۔ ریاستی سرپرستی میں امدادی سکیمیں اکثر عارضی ہوتی ہیں اور معیشت‘ جو پہلے ہی غیر ملکی قرضوں اور معاشی امداد سے زیرِ بار ہے‘ کے لیے مزید خسارے کا سبب بنتی ہیں۔ حکومت کو بے روزگاری‘ غربت اور پسماندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مستقل معاشی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ریاستی سرپرستی پر انحصار کرنے کے بجائے لوگوں کو اچھی ملازمت تلاش کرنے کے قابل بنانے کے لیے پائیدار اقدامات اپنانے کی ضرورت ہے۔ تاہم حکومت ملکی سیاست میں تنازعات اور تعصب کو کم کیے بغیر عام لوگوں کی خدمت کرنے والی معیشت تشکیل نہیں دے سکتی‘ اور یہ معاشی ترقی کے لیے بھی سازگار نہیں ہے۔