ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں نئی ریپبلکن حکومت توقع کے مطابق جنوری 2025ء میں امریکہ میں اقتدار سنبھالے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ چار سال کے وقفے کے بعد وائٹ ہاؤس واپس آ رہے ہیں۔ وہ امریکی تاریخ کے دوسرے صدر ہیں جنہوں نے انتخاب جیتا پھر اگلے انتخاب میں شکست کھائی اور تیسرے انتخاب میں دوبارہ کامیاب ہو ئے۔
ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت (2017ء تا 2021ء) میں یہ دیکھا کہ ان کے بارے متنوع آراقائم ہوئیں۔اگر ہم 5 نومبر کوووٹوں کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں ان کی کامیابی پر ردِعمل کو دیکھیں تو یہ بات ایک بار پھر درست معلوم ہوتی ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والے تجزیے یا امریکہ کے اندر اور باہر الیکٹرانک میڈیا پر کیے گئے تبصرے ان کے مندرجات کے فرق کی عکاسی کرتے ہیں۔ کچھ مبصرین کو یقین تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی ماضی کی عظمت کو بحال کریں گے اور عالمی سطح پر اپنے کردار پر زور دیں گے اور بہتر معاشی بندوبست اور تارکین وطن کی امریکہ آمد پر قابو پاکر درمیانی اور نچلی سطح کے امریکیوں کیلئے ملازمت کے مواقع اور معاشی امکانات کو بہتر بنائیں گے۔ دوسری جانب کچھ مبصرین کو ان کے مزاج اور شخصیت کی وجہ سے ان کی کارکردگی کے بارے تحفظات تھے۔جبکہ کچھ نے خیال ظاہر کیا کہ انہیں میڈیا کے ایک حصے کے علاوہ سینئر فوجی کمانڈ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ بھی مسائل ہو سکتے ہیں‘ جنہیں وہ اپنے مخالفین کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ کون صحیح ہے۔ ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ ٹرمپ اپنے وعدوں کو کیسے پورا کرتے ہیں۔
ادھر پاکستان میں فعال سیاسی حلقوں اور سیاسی مبصرین میں ایک زور دار بحث چل رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کی جیل سے رہائی میں مددگار ثابت ہوں گے۔اس معاملے پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے زیادہ بیانات مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی جانب سے جاری کیے جا رہے ہیں۔ عام طور پرہم توقع نہیں کرتے کہ ٹرمپ انتظامیہ عمران خان کے حق میں کوئی بیان جاری کرے گی کیونکہ اس کی ترجیح امریکہ کے داخلی حالات اور عالمی سطح پر اس کے کردار سے متعلق مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ عمران خان امریکہ کے عالمی کردار کو مضبوط بنانے یا اس کے داخلی مسائل کو حل کرنے میں مدد نہیں کرتے۔ عمران خان ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں‘ اگر امریکہ میں ان کے حامی ریپبلکن کانگریس کے ارکان اور سینیٹرز کے ساتھ روابط کے ذریعے ان کی حمایت حاصل کرنے کے قابل ہوں جن کی انہوں نے انتخابات میں حمایت کی تھی۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے براہِ راست ٹرمپ کی انتخابی مہم کی مالی اعانت اور حمایت کی تھی۔ ان روابط کے ذریعے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب عمران خان کی حمایت میں بیان حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات سے قبل تقریباً 60 کانگریس ارکان نے عمران خان کی رہائی کیلئے صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا تھا۔ یہ عمران کے حامی پاکستانی نژاد امریکیوں کی لابنگ اور حمایت کا نتیجہ تھا۔ وہ کانگریس کے اراکین کے ذریعے یا براہِ راست ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ٹیم کے ساتھ ایک اور کوشش کر سکتے ہیں۔ ایک اور عنصر جو پی ٹی آئی کے پاکستانی امریکی حامیوں کی مدد کر سکتا ہے وہ ہے ٹرمپ فیملی تک ان کی رسائی‘ خاص طور پر ان کے داماد تک‘ جو سابقہ ٹرمپ حکومت میں ایک اہم عہدہ رکھتے تھے۔ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اگلی حکومت میں بھی اہم ہوں گے۔ اگر ان کے اور پی ٹی آئی امریکہ کے درمیان کچھ روابط ہیںتو یہ پی ٹی آئی کے حامیوں کو ڈونلڈ ٹرمپ تک براہِ راست رسائی فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا عمران خان امریکی خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہیں بنتے تو ان کے حق میں ایک بیان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔مگربہت کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ امریکہ میں عمران خان کے پاکستانی حامی ان لوگوں کے ساتھ اپنے روابط اور اثر و رسوخ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں‘ جو نئی حکومت میں اہم ہوں گے۔ تاہم ٹرمپ کی ٹیم عمران خان کی حمایت میں کوئی بیان جاری کرتی بھی ہے تو وہ اس پر اصرار نہیں کریں گے‘ لہٰذا پاکستان کے حکمران حلقوں کو اس مسئلے پر اپنی توانائی ضائع نہیں کرنی چاہیے۔ اگر پاکستانی حکمران عالمی سطح پر معاملہ بہتر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ملک کے معاشی حالات کو سنوارنے‘ داخلی سیاسی صورتحال کو مستحکم کرنے اور قانون سازی کے ذریعے سیاسی طاقت کے تحفظ اور ریاستی مشینری کو اپنے سیاسی حریفوں کو زیر کرنے کیلئے استعمال کرنے کی موجودہ پالیسی پر نظر ثانی کی سخت ضرورت ہے۔
پاکستان کے ساتھ نئی امریکی انتظامیہ کے تعلقات کی بات کی جائے تو یہ بائیڈن کے دور کے تعلقات سے بہت مختلف نہیں ہو سکتے۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکہ کے انخلاکے ساتھ‘ امریکی سکیورٹی پالیسی میں پاکستان کی ساکھ میں کمی واقع ہوئی۔ امریکی دلچسپی اب ایشیا پیسفک کے خطے پر ہے اور اس خطے اور دوسری جگہوں پر چینی اثر و رسوخ پر قابو پانے پہ زیادہ مرکوز ہے۔ سیاسی تنازعات اور ایک لڑکھڑاتی معیشت کے ساتھ پاکستان اپنی طاقت کو اپنے قریبی پڑوس سے آگے نہیں بڑھا سکتا۔ پاکستان چین کے اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے امریکہ کی ایشیا پیسفک پالیسی سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ تاہم امریکہ پاکستان کے ساتھ ایک دوست ملک کے طور پر برتاؤ کرتا رہے گا‘ البتہ وہ اب امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر نہیں ہے۔ امریکہ پاکستان میں اس حد تک دلچسپی رکھتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان دہشت گردی کا مرکز نہ بن جائے۔ امریکہ کو افغانستان کی صورتحال کی نگرانی کے لیے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ بین الاقوامی دہشت گردی کی پناہ گاہ نہ بن جائے‘ پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے اور امریکہ پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ امریکہ پاکستان کے اندر سماجی و مذہبی عدم رواداری‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو روکنے میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ ایک مستحکم‘ محفوظ اور اعتدال پسند پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہے‘ لہٰذا وہ ان رجحانات پر قابو پانے اور رواداری‘ شہری اور سیاسی حقوق اور آئین پسندی کو فروغ دینے کیلئے حکومت پاکستان کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرنے کیلئے تیار ہے۔امریکہ پاکستان کے داخلی استحکام اور معاشی لچک کو پاکستان کے آس پاس کے خطے میں استحکام اور امن کیلئے ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھتا ہے‘جہاں امریکہ کے سٹرٹیجک مفادات ہیں۔ امریکہ اقتصادی امداد‘ صنعتکاری‘ زراعت‘ توانائی‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تعلیم کیلئے تکنیکی معاونت فراہم کرنا جاری رکھے گا۔ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور دونوں ممالک ان تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔ امریکہ پاکستان میں انسانی اور معاشرتی ترقی میں بھی حصہ ڈالتا ہے اور سیلاب‘ زلزلے اور وبائی امراض جیسی قدرتی آفات کی صورت میں انسانی امداد کی پیشکش کرتا ہے۔ ایک اور امریکی مفاد پاکستان کے جوہری پروگرام کی سلامتی اور حفاظت کیلئے پاکستان کی پالیسیاں ہیں اور یہ کہ بھارت اور پاکستان کے مابین کوئی روایتی جنگ نہیں ہونی چاہیے۔
تاہم امریکہ سی پیک اور چین کے ساتھ پاکستان کی قریبی صف بندی بارے تحفظات کا اظہار کرتا رہے گا۔ پاکستان اس دباؤ کے سامنے نہیں جھکتا اور چین کے ساتھ اپنے کثیر جہتی تعلقات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ حال ہی میں روس کے ساتھ بھی قربت پیدا کی گئی ہے۔ پاکستان کو امریکہ اور بھارت کے بڑھتے دفاعی تعلقات پر اعتراض ہے۔ امریکہ اور پاکستان کی بات چیت بیک وقت مثبت اور منفی رجحانات کا اظہار کرتی رہے گی‘ تاہم نہ تو پاکستان اور نہ ہی امریکہ ایک دوسرے کو مکمل طور پر ترک کریں گے۔