ایک بھولی بسری تصویر نے مجھے ایک بار پھر اُس سفر پر بھیج دیا جو 12 سال قبل جل پری کے دیس ڈنمارک کا کیا تھا۔ میں تصویر میں لندن میں ایک خزاں رسیدہ گلابی درخت کے پاس ایک بنچ پر بیٹھا ہوں اور ہوا زرد پتے اڑا رہی ہے۔ میں سجے ہوئے ایک درخت تلے‘ ایک بنچ پر بیٹھا ہوں۔ وہ اکتوبر 2012ء کے دن تھے اور میں کوونٹری‘ انگلینڈ میں حیرانی کے عالم میں بیٹھا تھا۔ لیپ ٹاپ پر وزارتِ داخلہ ڈنمارک کی ای میل کھلی ہوئی تھی جس میں لکھا تھا کہ آپ ایک‘ دو دن میں ڈنمارک کی لندن ایمبیسی میں چلے جائیں‘ انہیں ای میل بھیج دی گئی ہے۔ وہاں سے آپ کو ویزا مل جائے گا۔
اس حیرانی کے عقب میں ایک روداد تھی۔ ہماری ایک تخلیق کار دوست صدف مرزا کوپن ہیگن‘ ڈنمارک کی رہائش اور شہریت رکھتی ہیں۔ جہلم کے علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک علمی گھرانے کی فرد صدف مرزا شاعرہ‘ مترجم اور محقق ہیں۔ دنیا بھر میں کانفرنسز‘ مشاعروں میں شریک ہوتی ہیں‘ بہت سفر کرتی ہیں اور فروغ ادب کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔ وہ ڈینش زبان پڑھتی اور لکھتی ہیں اور ان کا یہ کارنامہ کسی اور کے بس کا نہیں تھا کہ انہوں نے اردو ادب کی منتخب تخلیقات کا ڈینش زبان میں ترجمہ کر کے اُن ادیبوں‘ شاعروں تک پہنچایا جو اردو شناس نہیں تھے۔ صد ف مرزا کے اس تخلیقی کام کے پیچھے وہی اضطراب اور لگن تھی جو ادب کے کسی باذوق کے دل میں ہمیشہ رہنی چاہیے۔ اردو دان طبقے کو ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے یورپ کے اُس ملک اور زبان تک ہمیں رسائی دی‘ جہاں ہمارے لفظ نہیں پہنچتے تھے۔
صدف مرزا نے مجھے 2012ء میں ڈنمارک آنے کی دعوت دی اور ویزا کیلئے ضروری کاغذات بھی بھیج دیے۔ وہ خود سفر پر تھیں لیکن دورانِ سفر ہی انہوں نے کوشش کی کہ یہ کاغذات مجھ تک پہنچ جائیں تاکہ میں اکتوبر 2012ء میں انگلینڈ کے بعد کوپن ہیگن جا سکوں۔ میں نے اگست کے آخر میں ویزا درخواست اسلام آباد بھیج دی اور ساتھ یہ گزارش بھی کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں مجھے انگلینڈ کیلئے سفر کرنا ہے‘ براہِ کرم اس سے قبل میرا پاسپورٹ مجھے بھیج دیا جائے۔ اب میرے ذمے صرف انتظار تھا جو شبِ انتظار سے بھی زیادہ طویل نکلا۔ ستمبر کا آخر آنے لگا تو انتظار میں اضطراب بھی شامل ہو گیا۔ میں نے یاد دہانی کی ایک اور ای میل کی۔ جواب آیا کہ درخواست پراسیس میں ہے۔ میں سو چ میں پڑ گیا کہ یہ پُراسرار پراسیس اگر میری انگلینڈ کی فلائٹ کے دن سے بھی آگے نکل گیا تو اس دوڑ میں ہار صرف میری ہو گی۔ میں نے جوابی ای میل میں اپنی فلائٹ کی تاریخ بتائی اور لکھا کہ میں پاسپورٹ کے بغیر انگلینڈ کا سفر نہیں کر سکوں گا اس لیے ویزا ہو یا نہ ہو‘ مجھے پاسپورٹ واپس بھیج دیا جائے۔ اگلے دن جواب آیا کہ پاسپورٹ بغیر ویزا کے واپس بھیجا جا رہا ہے لیکن آپ کی ویزا درخواست نامنظور نہیں کی گئی‘ ڈنمارک کی وزارتِ داخلہ کو بھیج دی گئی ہے‘ اب وہی آپ سے رابطہ کریں گے‘ ان کے رابطے کی تفصیلات درج ذیل ہیں‘ وغیرہ۔ پاسپورٹ مجھے واپس ملا تو فلائٹ کا دن قریب تھا۔ انگلینڈ پہنچ کر سات آٹھ دن تقریبات میں گزرے۔ اتفاق سے خود صدف مرزا بھی ان دنوں ان تقریبات کیلئے کوونٹری آئی ہوئی تھیں۔ انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کیا۔ وہاں الکلی اور بریڈ فورڈ کے مشاعروں میں بھی شریک ہوئے۔ وہ دن مزے کے تھے۔ صدف مرزا ہنس مکھ اور جملے باز خاتون ہیں اور اتفاق سے ان سفروں میں کئی خوش مزاج ساتھی ایک ساتھ موجود تھے۔ دونوں سفر مزے کے رہے۔ میں ان کی کچھ روداد پہلے لکھ چکا ہوں۔
کوونٹری واپس پہنچنے پر مجھے ڈنمارک وزارتِ داخلہ کی وہ ای میل ملی جس کا ابتدا میں ذکر کیا ہے۔ حیرانی اس لیے زیادہ تھی کہ اسلام آباد کے علاوہ ڈنمارک کا ویزا پاکستانیوں کیلئے کہیں اور سے نہیں لگتا تھا۔ لندن سے تو ناممکن! خیر جو بھی تھا‘ یہ اچھی خبر تھی سو میں دو دن بعد کوونٹری سے روانہ ہوا اور سلون سٹریٹ (Sloane Street) لندن میں ڈینش سفارت خانے پہنچ گیا مگر مسئلہ یہ ہوا کہ میں ایمبیسی کا وقت ختم ہونے کے چند منٹ بعد وہاں پہنچا تھا‘ جب سب دروازے بند ہو چکے تھے۔ میں نے گارڈ کے سامنے اپنا مسئلہ رکھا۔ وہ دربانِ درِ یار سے بھی زیادہ بے مروت نکلا۔ لیکن تیسری بار میری التجا پر اس کا دل پسیج گیا اور وہ اندر سے ایک ویزا آفیسر کو بلا لایا۔ ویزا آفیسر نے پہلے تو ایسی کسی ای میل سے انکار کیا اور پھر میرے موبائل پر ای میل دکھانے پر مجھے اگلے دن آنے کو کہا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اگلے دن علی الصبح میری کوپن ہیگن کی فلائٹ تھی‘ سو دوبارہ آنا ممکن ہی نہیں تھا۔ مختصراً یہ کہ اس نے مجھے بلایا اور دس منٹ بعد ویزا سمیت پاسپورٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ یہ مرحلہ نمٹا تو میرے معدے نے فریاد کی کہ میں کتنی دیر سے بھوکا ہوں۔
اگر انگلینڈ جاکر آ پ نے فش اینڈ چپس نہیں کھائے تو کچھ نہیں کھایا۔ یہ گویا انگلینڈ کا قومی کھانا ہے اور کہتے ہیں کہ انیسویں صدی میں یہ انگلینڈ ہی سے شروع ہوا تھا۔ اب تو یہ ہر ملک میں موجود ہے اور ہم جیسے پردیسیوں کے معدے کا سہارا بھی۔ لیکن ایک زمانے تک یہ انگلینڈ ہی کی خصوصیت تھی۔ آلو کے چپس چھلکے والے بھی موجود ہیں اور کئی اور طرح کے بھی اور ہر ایک مزے دار۔ حق یہ ہے کہ انگریزوں جیسے کوئی اور نہیں بناتا۔ مچھلی کے دو تین لمبے ٹکڑے‘ ڈھیر سارے فنگر چپس‘ چٹنی اور لیموں۔ بھوک میں اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔ سو میں نے ایک قریبی ریسٹورنٹ سے یہ خریدے اور ایک قریبی پارک میں جا بیٹھا۔
اگر اکتوبر کی خزاں میں آپ نے لندن نہیں دیکھا تو کچھ نہیں دیکھا۔ اس دن بھی ایک زرد رنگ کا طلسم مجھے چاروں طرف سے لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔ تیز ٹھنڈی ہوا مسلسل درختوں سے پتے گرا رہی تھی اور درخت اپنے اپنے پتاور میں پنڈلیاں ڈالے کھڑے تھے۔ گرم کپڑوں کو چھیدتی ہوا بدن میں چھری کی طرح اتر رہی تھی۔ مجھے کل صبح تک کا وقت گزارنا تھا اور اگلے دن صبح پانچ بجے سٹین سٹیڈ ایئر پورٹ سے کوپن ہیگن کی فلائٹ لینا تھی‘ یعنی تین ساڑھے تین بجے تک ایئر پورٹ پہنچنا تھا۔ مسئلے کئی تھے لیکن بڑا مسئلہ یہ تھا کہ میں جتنا تھکا ہوا تھا‘ اگر میں کسی ہوٹل میں سوتا رہ گیا تو میری فلائٹ کا کیا ہوگا؟ دل نے یہی مشورہ دیا کہ پیارے! بہتر ہے کچھ گھنٹے گزار کر رات ہی میں سٹین سٹیڈ ایئر پورٹ پہنچ جائو۔ دل کے مشورے اکثر غلط ہوتے ہیں لیکن اس دن یہی مشورہ صائب تھا۔
لندن کا یہ مرکزی علاقہ کیسنگٹن اور چیلسی کا تھا۔ قریب میں نائٹ برج بھی ہے اور مشہور زمانہ ہائیڈ پارک اس کے شمال میں ہے۔ یہ مہنگا ترین علاقہ ہے اور بہت پُررونق۔ نہایت مہنگے شاپنگ مالز اور برانڈز کے درمیان اپنا سفری بیگ لیے گھومتے گھومتے رات اترنے لگی۔ پھر جب پیروں اور پنڈلیوں میں موٹی موٹی گرہیں پڑنے لگیں اور یخ ہوا میں ناک اورکان اپنی نوک تک برف ہو چکے تو میں اس ٹرین میں بیٹھ گیا جو سٹین سٹیڈ ایئر پورٹ جاتی تھی۔ یہ غلط فہمی جلد ہی دور ہو گئی کہ سٹین سٹیڈ ایئر پورٹ چند کلومیٹر دور ہے۔ یہ 42 کلومیٹر دور تھا‘ گویا ایک لحاظ سے الگ شہر۔ لندن کا مضافات ہی کہنا چاہیے۔ پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ میں نے خود کو شاباش دی کہ میں نے رات ہی میں ایئرپورٹ پہنچنے کا درست فیصلہ کیا تھا ورنہ صبح آنے کا فیصلہ بہت مہنگا پڑ جاتا۔ سٹین سٹیڈ انٹر نیشنل ایئر پورٹ‘ یو کے کا چوتھا مصروف ترین ایئر پورٹ ہے۔ یورپ کی زیادہ تر فلائٹس اور وہ ایئر لائنز جو یورپ کے مختلف شہروں کیلئے نسبتاً سستے ٹکٹ دیتی ہیں‘ یہیں سے آتی جاتی ہیں۔ 1943ء کا یہ ایئر پورٹ ایک زمانے میں جنگی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ میں لائونج میں داخل ہوا تو میری فلائٹ کا کائونٹر ابھی نہیں کھلا تھا۔ اس لیے ابھی انتظارِ ساغر کھینچنا تھا۔ لیکن مختلف فلائٹس کے جتنے مسافر یہ انتظار کھینچ رہے تھے‘ سب سیٹوں پر براجمان تھے۔ میرے حصے میں صرف فرش تھا۔ سو میں نے ایک فرشی ستون سے ٹیک لگائی‘ سفری بیگ پر پیر ٹکائے اور تیز روشنیوں میں اونچی چھت کی طرف دیکھنے لگا کہ شاید نیند کا نزول ادھر سے ہوتا ہو۔ (جاری)