"IYC" (space) message & send to 7575

ایک اور نیا سال

نئے سال کے آغاز پر جب ہم سب ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے اور مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے نئے نئے منصوبے باندھتے ہیں اور پھر پیچھے مڑ کر دیکھتے ہی جھینپ سے جاتے ہیں کہ ایسی منصوبہ بندی تو ہم نے سالِ گزشتہ کے آغاز پر بھی کی تھی‘ تو مجھے بے طرح سرفراز سید کی یہ نظم یاد آ جاتی ہے:
آس نگر میں رہنے والے سادہ سچے لوگو
نیند کا موسم بیت گیا ہے اپنی آنکھیں کھولو
جانے والے کل میں ہم نے دُکھ کے صحرا دیکھے
آش‘ نراش میں گھلتی دیکھی غم کے دریا دیکھے
سوکھے جسموں والے دیکھے بھوکے ننگے سائے
لمحہ لمحہ رینگ رہے تھے سب کشکول اٹھائے
جانے والے کل میں ہم نے دکھ کی فصل کو کاٹا
بستی بستی بھوک افلاس کی اڑتی خاک کو چاٹا
خالی ہاتھ اور ویراں آنکھیں پاؤں زنجیر پڑی
چاروں جانب زہر سمندر سر پہ دھوپ کڑی
دھرتی پر بارود اُگایا امن کے گانے گائے
ایک دوجے کے خون سے ہم نے کیسے جشن منائے
آنے والا کل کیا ہو گا آؤ کھوج لگائیں
دیواروں پہ زائچے کھینچیں نامعلوم کو پائیں
آنے والے کل میں شاید خوابوں کی تعبیر ملے
بھوکی خلقت رزق کو دیکھے انساں کو توقیر ملے
بچوں کی تعلیم کے نام پہ ماں نہ زیور بیچے
اس دھرتی پر اب نہ کوئی زہر سمندر سینچے
آس نگر میں رہنے والے سادہ اچھے لوگو
ممکن ہو تو کل کا سوچو اپنی آنکھیں کھولو
یہ ساری اپنی ہی کہانی محسوس ہوتی ہے۔ وہ جو حفیظ جالندھری نے کہا تھا:
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
لیکن یہ دراصل محض میری کہانی نہیں‘ یہ ہم سب کی کہانی ہے‘ اور اگر مزید وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ہر ملک اور ہر قوم کی کہانی ہے۔ اور اس سے بھی آگے کے بارے میں سوچا جائے تو یہ روئے ارض پر بسنے والے آٹھ ارب 20کروڑ کے لگ بھگ انسانوں کی مجموعی کہانی بھی ہے کہ چاہا کچھ جاتا ہے‘ نتیجہ کچھ اور نکلتا ہے۔ یقین نہ آئے تو میرے کالم کے قارئین میں سے ہر ایک ذرا یہ سوچ لے اور اندازہ لگا لے کہ 2024ء کے آغاز پر اس نے کیا ارادے باندھے تھے اور ان ارادوں‘ خواہشوں یا کوششوں میں سے کتنی پوری ہو سکیں‘ اور کتنی حسرتوں میں بدل گئیں۔ میں اپنا بتاؤں تو 2024ء کے آغاز پر جو منصوبہ بندی کی تھی کہ نئے سال میں یہ کروں گا‘ وہ کروں گا‘ تو ان میں سے صرف آدھے خواب ہی پورے ہو سکے۔
میری بات کی اب بھی سمجھ نہیں آئی تو آئیے اپنے ملک پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کیا سب نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ملک میں نئے عام انتخابات ہو جائیں گے تو سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو جائے گا اور ریاست‘ حکومت اور قوم کو آگے بڑھنے کے لیے ایک سمت مل جائے گی۔ کیا یہ نہیں سوچا تھا کہ نئی حکومت مہنگائی میں کمی لائے گی‘ روزگار کے مواقع پیدا کرے گی‘ دہشت گردی کو کنٹرول کرے گی‘ رشوت اور سفارش کے رواج کے آگے بند باندھے گی‘ درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کرنے کا اہتمام کرے گی تاکہ عالمی تجارت میں ہمارے ملک کی ادائیگیوں میں کچھ توازن پیدا ہو اور زرِ مبادلہ کے ذخائر کو اطمینان بخش حد تک بڑھایا جا سکے؟ کیا نو منتخب حکومت سے یہ توقعات نہیں تھیں کہ یہ کرپشن کا خاتمہ کرے گی تاکہ قومی وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ تھم جائے اور عوام کی خدمت کیلئے بنائے گئے اداروں کا قبلہ درست کرے گی تاکہ حکومت عوام کی بہبود کے لیے جو فیصلے یا اقدامات کرتی ہے‘ اس کے سو فیصد اثرات عوام تک منتقل ہو سکیں؟ کیا یہ نہیں سوچا تھا کہ بجلی‘ گیس اور پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں کمی لائی جائے گی‘ مافیاز پر ہاتھ ڈالا جائے گا اور سٹریٹ کرائمز کا گراف نیچے لایا جائے گا؟ کیا یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ نئی حکومت ملک کو خوراک کے لحاظ سے خود کفیل بنانے کیلئے اقدامات کرے گی‘ اس طرح وہ بھاری زرِ مبادلہ بچایا جا سکے گا جو ہر سال فوڈ آئٹمز باہر سے منگوانے پر خرچ ہوتا ہے۔ آپ بھی عوام ہیں‘ میں بھی عوام ہوں‘ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ درج بالا توقعات میں سے کتنی پوری ہو سکیں اور کتنی یاسیت میں بدل گئیں۔
چلیں اس سے بھی وسیع تر تناظر میں بات کرتے ہیں۔ عالمی معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔ کیا ہم سب نے یہ نہیں سوچا تھا کہ 2024ء کے دوران اسرائیل حماس چپقلش کا خاتمہ ہو جائے گا‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور اسرائیل کا ہاتھ طاقت سے روکا جائے گا‘ اس طرح مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن قائم ہو جائے گا؟ کیا یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ یوکرین کی جنگ بند ہو جائے گی اور دنیا اس جنگ سے ریکوری کے فیز میں داخل ہو جائے گی؟ کیا یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ عالمی سطح پر جاری کساد بازاری کا خاتمہ ہو جائے گا اور ملکوں اور ان کے عوام کے مالی معاملات میں کچھ سہولت‘ کچھ آسودگی در آئے گی؟ کیا یہ خواب نہیں دیکھا گیا تھا کہ افغانستان کی عبوری طالبان حکومت ایسے اقدامات کرے گی جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر اس کی Recognition یقینی ہو جائے گی۔ اب آپ خود ہی دیکھ لیجیے کہ ان میں سے کتنے خواب‘ کتنی خواہشات پوری ہو سکی ہیں؟
سال گزر جائے تو نئے سال کے آغاز پر جشن منانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ انتہائی مصروف زندگی میں چند لمحے انجوائے منٹ کے مل جائیں تو ان کو غنیمت جاننا چاہیے لیکن جشن منانے والی کوئی بات بھی ہو؟ معاملہ اگر سرفراز سید کی نظم جیسا ہو تو پھر کیا نیا سال؟ اور کیسا جشن؟
پھر بھی وقت تو نہیں رکتا‘ سرمایۂ زیست میں سے 365دن کم ہو جاتے ہیں لیکن یہ خزانہ مکمل طور پر تو ہاتھ سے نہیں نکل جاتا۔ زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ جان ہے تو جہان ہے۔ اس لیے جتنی بھی مایوسیاں سہی‘ جتنی بھی ناکامیاں سہی‘ زندگی کو رکنا نہیں چاہیے۔ اس لیے آئیے نئے سال کی منصوبہ بندی کرتے ہیں‘ آئیے نئے خواب بُنتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں