ڈیمز پر ہونے والی تفصیلی گفتگو کے بعد میں تو یہی کہوں گا کہ ایک بڑے ڈیم کا بنایا جانا ناگزیر ہے۔ یہ کام آج یا آنے والے کل میں ہمیں کرنا ہی پڑے گا۔ آج کر لیا جائے تو اس معاشی تباہی سے بچ جائیں گے جو نہ کرنے کی صورت میں ہمارے ملک اور ہم پر مسلط ہو سکتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ڈیم کی تعمیر دو چار مہینوں یا ایک دو برسوں کا کام نہیں ہے۔ کسی بھی ڈیم کی تکمیل کے لیے برسوں چاہیے ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک بڑے ڈیم کی تعمیر کو معیشت کی بحالی کے حوالے سے فوری اقدامات کی لسٹ میں نہیں رکھا جا سکتا۔
اب آگے بڑھتے ہیں اور توانائی کے ان ذرائع پر توجہ دیتے ہیں جو فوری تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم اور سب سے آگے سولر بجلی کا پیدا کرنا ہے۔ پچھلے کالم میں بھی کہا تھا کہ ملک میں سولر پینل بنانے کے کارخانے لگنے چاہئیں تاکہ لوگوں کو یہ سستے دستیاب ہو سکیں اور وہ اپنے نجی سولر پینل لگا کر سستی بجلی پیدا اور استعمال کر سکیں۔ لیکن اس کا فائدہ اسی صورت میں ہو گا جب بتدریج آئی پی پیز کے معاہدوں سے نجات حاصل کی جائے گی۔ اور آئی پی پیز کے معاہدوں سے نجات حاصل کرنے کا اس سے بہتر طریقہ اور نہیں ہو سکتا کہ ایک تو ان معاہدوں پر موجودہ حالات کے تناظر میں نظر ثانی کی اور کرائی جائے‘ دوسرے آئی پی پیز کے جو معاہدے ختم ہو رہے ہیں ان کی کسی بھی صورت میں ہرگز ہرگز تجدید نہ کی جائے۔
ملک میں گیس کے ذخائر سکڑ رہے ہیں اور اب ہمیں خاصی بڑی مقدار میں گیس درآمد کرکے اپنی ایندھن کی ضروریات پوری کرنا پڑتی ہیں۔ کیا گیس کے حوالے سے ایندھن کے معاملے کا رُخ بائیو گیس کی جانب موڑا جا سکتا ہے؟ اربابِ بست وکشاد سے گزارش ہے کہ اس کی فزیبلٹی کی طرف توجہ دیں۔ اگر ایسا ممکن ہے تو اس پر کام کیا جانا چاہیے۔ (امسال مئی میں سامنے آنے والی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں روزانہ 30لاکھ ٹن گوبر پیدا ہوتا ہے اور بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ گوبر میتھین بنانے کے لیے استعمال ہو۔ بائیو گیس پلانٹ میں 'اینوریبک ڈائی جیشن‘ (Anaerobic digestion) نامی عمل کے ذریعے میتھین تیار ہوتی ہے۔ جانوروں کا فضلہ ایسے ٹینک میں ڈالا جاتا ہے جہاں ہوا نہیں جا سکتی اور فضلے میں موجود بیکٹیریا قدرتی طور پر اس گوبر سے گیس تیار کر دیتے ہیں جس میں 60فیصد میتھین جبکہ کچھ کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہوتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت اپنی ضرورت کی نصف گیس درآمد کرتا ہے۔ بھارتی حکومت کی خواہش ہے کہ اس خرچ کو کم کرے۔ اسی لیے بائیو گیس شعبے کو ترقی دینے کے لیے بھارتی حکومت نے 2025ء سے گیس فراہم کرنے والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ قدرتی گیس میں ایک فیصد بائیو میتھین شامل کریں اور یہ مقدار 2028ء تک پانچ فیصد تک بڑھائی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کوئی خواہش ہمارے حکمرانوں کے دل اور دماغ میں کیوں نہیں آتی؟
ایک اور سوال یہ ہے کہ دنیا میں جب گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے ذخائر کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا کہ یہ استعمال میں اضافے کی وجہ سے معدوم ہوتے جا رہے ہیں تو اس کے بعد پاکستان میں متبادل ایندھن کی تیاری پر کوئی کام ہوا یا اس حوالے سے قائم کیے گئے ہمارے ادارے روایتی تساہل کا ہی شکار رہے؟ اور یہ کہ اگر ہمارے بالکل ساتھ لگنے والے ایران میں گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں تو پاکستان میں ایسے ذخائر کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے کس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا؟ اگر سوئی کے مقام سے گیس نکل سکتی ہے تو ایسے دوسرے مقامات سے بھی گیس برآمد ہو سکتی ہے۔ گیس کے نئے ذخائر تلاش اور دریافت کرنا ایک طویل المیعاد کام ہے اس لیے معیشت کی بحالی کے امکانات کی فہرست میں سے ہم اسے بھی نکال دیتے ہیں لیکن بائیو گیس والے معاملے کو نہیں نکالا جا سکتا۔ پاکستان میں بھارت کی طرح 30لاکھ ٹن گوبر پیدا نہیں ہوتا ہو گا‘ لیکن پاکستان میں دو کروڑ 33لاکھ 40ہزار بھینسوں‘ دو کروڑ 24لاکھ 20ہزار گدھوں‘ گھوڑوں اور خچروں‘ دو کروڑ 42لاکھ 40ہزار بھیڑوں‘ چار کروڑ 91لاکھ 40ہزار بکریوں اور سات لاکھ 70ہزار اونٹوں کے لائیو سٹاک کے ساتھ روزانہ گوبر کی اچھی خاصی مقدار پیدا ہوتی ہے۔ اس کو بروئے کار لایا جائے تو ہماری توانائی کی خاصی ضروریات پوری ہو سکتی اور اگر بائیو گیس کے منصوبے دیہات میں شروع کیے جائیں تو وہاں درخت کاٹنے کے عمل کو کم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر ہر سال اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ ملک کے ہر بڑے شہر کا ہر چوراہا ٹریفک بلاک کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں گاڑیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ سڑکیں کشادہ کرنے اور سڑکوں کو سگنل فری بنانے کا بھی کوئی واضح اثر سامنے نہیں آ رہا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں گاڑیوں کی تعداد میں اتنا اضافہ کیسے ہو گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کی جانب سے پبلک ٹرانسپورٹ پر مناسب توجہ نہ دینے کے نتیجے میں لوگوں میں نجی ٹرانسپورٹ رکھنے کا رواج اور رجحان فروغ پاتا گیا اور آج حالات یہ ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنے کو پسند نہیں کرتا کیونکہ ایک تو ڈھنگ کی پبلک ٹرانسپورٹ ملتی نہیں‘ اگر مل جائے تو اس میں جگہ میسر نہیں آتی اور اگر جگہ میسر آ جائے تو پبلک ٹرانسپورٹ کا تاخیر سے آنا اور تاخیر سے پہنچنا ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آبادی میں اضافے کے تناسب سے پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافہ کیا جاتا تاکہ لوگوں کے لیے شہروں کے اندر اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفر آسان ہو جاتا‘ لیکن ٹرانسپورٹ مافیا نے یہ سب کچھ ہونے نہیں دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ نجی ٹرانسپورٹ رکھنے کے رجحان کی وجہ سے آج سڑکوں پر ٹریفک کا رش نظر آتا۔ مجھے اگر میرے گھر سے دفتر تک مناسب پبلک ٹرانسپورٹ میسر آ جائے تو میرا نہیں خیال کہ کبھی اپنی گاڑی باہر نکالوں گا۔ میں نے پہلے بھی کسی کالم میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر بڑے شہروں کی بڑی سڑکوں پر Round the clock بڑی بسیں چلائی جائیں‘ ان سے اگلے یعنی چھوٹے روٹوں پر ویگنیں چلانے کا اہتمام کیا جائے‘ اور گلی محلوں کی سطح تک آٹو رکشہ یا چنگ چی کا استعمال کیا جائے تو بڑے چھوٹے شہروں میں ٹریفک کے رش‘ ٹریفک بلاک اور پٹرولیم مصنوعات کے بھاری درآمدی بلوں (جو زرِ مبادلہ کے ذخائر کو چاٹ جاتے ہیں) سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ بہتر پبلک ٹرانسپورٹ کا مطلب ہے نجی گاڑیوں کے رجحان کی حوصلہ شکنی۔ اس کے نتیجے میں وہ اربوں ڈالر بچائے جا سکیں گے جو پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر خرچ ہوتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے زیادہ استعمال کا ایک منفی نتیجہ یہ بھی ہے کہ اس سے فضائی آلودگی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں جو انسانی صحت کو براہِ راست کے ساتھ ساتھ بالواسطہ بھی متاثر کرتے ہیں۔ یہی آلودگی سموگ پیدا کرنے کا باعث بھی بنتی ہے اور سموگ انسانی صحت کے لیے کتنی نقصان دہ اور خطرناک ہو سکتی ہے‘ اس کے بارے میں آپ اب تک کافی کچھ جان چکے ہیں۔