آئیے اب اُن سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں جو میں نے گزشتہ کالم میں اٹھائے تھے۔ یہ طے ہے کہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا راستہ نہ روکا گیا تو وہ غزہ اور لبنان کے بعد مزید ممالک کا رخ کرے گا تاکہ ایک تو خطے میں اپنے مخالفین کا مکمل خاتمہ کر سکے اور دوسرے اُن وسائل پر قابض ہو سکے جو کسی بھی ٹیکنالوجی کو متحرک رکھنے کے لیے ماضی کی طرح آج بھی ناگزیر ہیں‘ یعنی پٹرولیم اور گیس کے ذخائر۔ یہ بھی طے ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت اسرائیل کے سلسلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائے گی۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگرچہ یہ کہا ہے کہ وہ جنگوں کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جانبدارانہ امریکی پالیسیوں کا رخ وہ بھی نہیں موڑ سکیں گے‘ چنانچہ اسرائیل کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ امریکہ ایک طرف غزہ میں انسانیت سوز مظالم پر تاسف اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہے لیکن دوسری جانب عالمی برادری کی جانب سے جب بھی اسرائیل کے بڑھتے قدم روکنے کی کوشش ہوتی ہے توامریکہ اسے ویٹو کر دیتا ہے۔ اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کرنے کا سلسلہ ٹرمپ کے اگلے چار برسوں میں بھی جاری رہنے کا امکان یا اندیشہ ہے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ ٹرمپ پہلی بار صدر بنے تھے تو انہوں نے ایران کے ساتھ صدر اوباما کے دور میں کیے گئے جوہری معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔ دوسرے دور میں بھی اندیشہ ہے کہ ٹرمپ ایران کو دبا کر رکھنے کی پوری کوشش کریں گے۔ اس کا اظہار ان کی 28ستمبر کی اس گفتگو میں بھی ملتا ہے جو انہوں نے امریکی ری پبلکن صدارتی امیدوار کے طور پر نیویارک کے ٹرمپ ٹاور میں صحافیوں سے کی تھی۔ ٹرمپ نے تب کہا تھا کہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول سے لاحق خطرات کے باعث اس ملک (ایران) سے بات چیت ضروری ہو گئی ہے‘ اگر میں دوبارہ صدر بن گیا تو یقینی طور پر میں ایسا کروں گا کیونکہ دنیا کے حالات بدل رہے ہیں اور ہمیں ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا ہو گا‘ اگر ایسا نہ کیا تو معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے‘ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ایران کے ساتھ بات چیت کی جائے اور مسائل حل کیے جائیں۔ علاوہ ازیں امسال اکتوبر میں جب ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی اسرائیلی حملے میں شہادت کے بعد ایران نے اسرائیل پر کم از کم 181بیلسٹک میزائیل داغے تھے اور اس حملے کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی عروج پر تھی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسرائیل کو ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کر دینا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیا امریکی صدر اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گا‘ یوں ایران کو فرصت نہیں ملے گی کہ شام میں اپنے معاملات پر توجہ دے سکے۔ اس کا نتیجہ شام کے حالات میں مزید خرابی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
روس بھی اب شام کی اس طرح مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا جیسے دو چار سال پہلے تھا۔ افغانستان کی جنگوں (24 دسمبر 1979ء تا 15فروری 1989ء اور 2001ء تا 2021ء) نے سوویت یونین اور امریکہ جیسی سپر پاورز کی معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ روس اب بھی ایک طاقتور ملک ہے لیکن ظاہر ہے کہ ایک سپر پاور جیسا طاقتور نہیں‘ چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یوکرین کی جنگ نے روس پر اثرات مرتب نہیں کیے۔ باقی ساری دنیا پر اثرات مرتب ہوئے ہیں تو ظاہر ہے کہ روس بھی بچا نہیں ہو گا۔ یہی کمزوری روس کو شام میں مزید مداخلت سے روکے رکھے گی۔ یوں شام کے حالات ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورتحال کے پیدا ہونے کی پیشگوئی بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی معروف نابینا خاتون نجومی آنجہانی بابا وانگا (Baba Vanga, 1911-1996) نے بھی کر رکھی ہے۔ بابا وانگا نے مرنے سے پہلے شام میں جنگ اور مغرب کے تباہ ہونے کی پیشگوئی کی تھی۔ بابا وانگا نے شام کے حوالے سے کہا تھا: ''شام کی تباہی سے مغرب اور مشرق کے درمیان ایک عظیم جنگ ہو گی۔ موسمِ بہار میں مشرق میں جنگ شروع ہو گی جو تیسری عالمی جنگ ہو گی۔ مشرق میں شروع ہونے والی جنگ مغرب کو تباہ کر دے گی‘‘۔ بابا وانگا کی پیشگوئی کے مطابق 'شام فتح کے دہانے پر ہو گا لیکن فاتح ایک نہیں ہو گا‘۔ یہ پیشگوئیاں خاصی عجیب اور پریشان کن ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صورتحال ایسے ہی حالات پیدا ہونے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ شام کو خالی پا کر ماضی میں یہاں متحارب رہنے والی قوتیں جب اس ملک پر قبضے یا اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے یلغار کریں گی تو ظاہر ہے کوئی بھی آسانی سے دوسرے کی بالادستی قبول نہیں کرے گا اور یہ کشمکش ان قوتوں کو طاقت کے استعمال کی طرف لے جائے گی۔ جب شام میں جاری خانہ جنگی مکمل جنگ میں تبدیل ہو جائے گی تو یہاں طالع آزمائی کرنے والی قوتوں کی حامی یا پشت پناہ قوتیں بھی خاموش نہیں بیٹھ سکیں گی اور جب وہ اس یُدھ میں کودیں گی تو تیسری عالمی جنگ کا راستہ خود بخود ہموار ہو جائے گا۔
جنگ لڑنا آسان نہیں ہوتا۔ اس میں انسانی جانیں تو ضائع ہوتی ہی ہیں جنگ مالی وسائل کی بے پناہ کھپت کا باعث بھی بنتی ہے۔ جنگ وہی لڑ سکتا ہے جو مالی طور پر مستحکم ہو۔ اسرائیل اگر غزہ اور لبنان میں طاقت کے استعمال کو ترک کرنے پر رضا مند نظر نہیں آتا تو آپ کے خیال میں اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ یہی کہ اسرائیل لبنان اور فلسطین کے مقابلے میں مالی لحاظ سے مضبوط ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی جانب سے اسے جو امداد ملتی ہے‘ وہ اس پر مستزاد۔ یہ بھی طے ہے کہ اسرائیل سانس لینے کے لیے جنگ میں وقفہ ضرور کرے گا لیکن وہ حماس اور حزب اللہ کو مکمل طور پر ختم کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی دباؤ کے باوجود اسرائیل ابھی اپنا ہاتھ روکنے کے لیے تیار نہیں ہو گا‘ اور اگر شام پر قبضے کی کوششوں کے نتیجے میں عالمی جنگ کے آثار نمودار ہوئے تو اسرائیل اس جنگ کا حصہ بھی بنے گا۔ ان سارے حالات کے تناظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ لبنان اور غزہ کی تباہی نوشتۂ دیوار ہے جبکہ یہ تباہی پوری دنیا کے سامنے ہو رہی ہے اور ہو گی جس کو روکنے کے لیے زبانی جمع خرچ کے سوا عالمی برادری کی جانب سے کچھ نہ ہوا اور نہ ہو گا‘ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی گرفتاری کے آرڈر جاری ہوں اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔ یہ بھی واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے عرب بہار اور اسرائیلی جارحیت سے بچ جانے والے ممالک ہوش کے ناخن نہیں لیں گے۔ اپنے بچاؤ اور اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں سوچیں گے اور ظاہر ہے کہ اس کا خمیازہ انہیں جلد یا بدیر بھگتنا پڑے گا۔