آج مٹی (Soil) کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ مٹی کے ساتھ انسان کا ناتا ابتدائے آفرینش سے اگر نہیں تو زمین پر پہلا قدم رکھنے سے آج تک ضرور ہے۔ پروردگارِ عالم نے اپنی مخلوقات کو مختلف اجزائے عناصر سے بنایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی تخلیق مٹی سے کی گئی۔ انسان خاک سے بنتا ہے‘ خاک نشین رہتا ہے‘ پھر رزقِ خاک ہو جاتا ہے۔ زمین پر انسانوں سمیت ہر طرح کی حیات کی بقا کا تعلق مٹی سے ہے۔ روئے ارض پر جتنی بھی خوراک پیدا ہوتی ہے‘ اس کا 95 فیصد مٹی سے اُگتا ہے۔ اس طرح ہماری بقا کا انحصار مٹی کے ساتھ قیمتی ربط پر ہے۔ پودے اور درخت زمین سے ملنے والے پانی اور نامیاتی و کیمیائی مادوں کے ذریعے ہی اپنے اور دوسری مخلوقات کے لیے خوراک پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں‘ لیکن شدید موسمیاتی عوامل اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہماری زمین اور اس کی مٹی‘ دونوں تنزلی کا شکار ہو رہی ہیں۔ انسانی آبادی بڑھ رہی ہے اور اس کے لیے وافر خوراک پیدا کرنا اس مٹی کے لیے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ جنگلات تیزی سے کٹ رہے ہیں‘ زمین برہنہ ہو رہی ہے اور یہ کٹاؤ قدرتی توازن میں خلل کا باعث بن رہا ہے۔ دنیا بھر میں‘ خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں پٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ کرۂ ارض میں ایسی گیسوں کے مقدار میں اضافے کا باعث بن رہا ہے جو موسموں کی شدت بڑھا رہی ہیں‘ جن کی وجہ سے کہیں خشک سالی کا دورانیہ بڑھ رہا ہے تو کہیں بارشوں کی مقدار معمول سے اتنی بڑھ جاتی ہے کہ سیلاب آ جاتے ہیں۔ ان سیلابوں میں لوگوں کی املاک ہی تباہ نہیں ہوتیں‘ مستقبل کی امیدیں بھی غرق ہو جاتی ہیں۔ دنیا سے جنگلات کا خاتمہ کس تیزی سے ہو رہا ہے‘ اس کا اندازہ یونیورسٹی آف میری لینڈ اور ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کی گلوبل فاریسٹ واچ کی اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں اوسطاً ہر ایک منٹ میں فٹ بال کے 10 میدانوں کے برابر ٹروپیکل جنگلات کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ سال 2023ء کے دوران دنیا بھر میں 37لاکھ ہیکٹر پر پھیلے جنگلات کو تباہ کیا گیا۔ یہ رقبہ کم و بیش بھوٹان کے برابر ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگلات کا یہ کٹاؤ قدرتی توازن کو غیرمتوازن بناتا ہے۔ اس کی وجہ سے پانی کا مٹی میں انجذاب کم ہو جاتا ہے۔ یوں پانی کی زندگی کی تمام اقسام کے لیے دستیابی کم ہو جاتی ہے اور بعض مواقع پر بالکل ہی معدوم ہو جاتی ہے۔ یہی کٹاؤ خوراک میں وٹامنز اور غذائی اجزا کی سطح کو کم کرنے کا بھی باعث ہے۔ مٹی کی بہتر انتظام کاری جیسے کم کاشت کاری (زمین کو وقفہ دینے کے لیے)‘ بدل بدل کر فصل کاشت کرنا‘ مٹی میں نامیاتی مادے شامل کرنا اور مٹی کی حفاظت اور افزودگی کے لیے اُگائی جانے والی فصل کی کاشت‘ جسے کور کراپ (Cover Crop) کا نام دیا جاتا ہے‘ مٹی کے معیار کو بہتر بناتی ہے‘ کٹاؤ اور آلودگی کو کم کرتی ہے اور پانی کے انجذاب اور ذخیرے کو بڑھاتی ہے۔ یہ طریقے مٹی کے حیاتیاتی تنوع کو محفوظ رکھتے ہیں‘ زرخیزی کو بہتر بناتے ہیں اور کاربن کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں‘ اسی طرح موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ایسا ہو نہیں رہا‘ جس کا نتیجہ مٹی کی زرخیزی میں کمی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ اب تو یہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ زمین پر پھیلائی جانے والی آلودگی کی آخری حد کیا ہے؟ اور یہ کہ موجودہ نسل آنے والی نسلوں کے لیے کس طرح کی زمین چھوڑ کر جانے والی ہے؟ ہم جو آلودگی پھیلا رہے ہیں اور اس کے زمین اور مٹی پر جو منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ کیا ہماری آنے والی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی؟
آج منائے جانے والے مٹی کے عالمی دن کا تھیم ہے Caring for Soils: Measure, Monitor, Manage۔ اس تھیم کے تحت چلائی جانے والی مہم مٹی کی پائیدار انتظام کاری کے حوالے سے باخبر فیصلہ سازی میں معاونت کے لیے اور مٹی کی خصوصیات کو سمجھنے کے سلسلے میں مٹی کے درست ڈیٹا یعنی اعداد و شمار اور معلومات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
مٹی کا عالمی دن ہر سال پانچ دسمبر کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد صحت مند اور صحت بخش مٹی کی اہمیت پر توجہ مرکوز کرنا اور مٹی کے وسائل کی پائیدار انتظام کاری کی وکالت کرنا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد مٹی کے تحفظ‘ غذائی تحفظ‘ حیاتیاتی تنوع اور موسمیاتی تبدیلی پر پائیدار انتظام کاری کے اثرات کے بارے میں آگہی پیدا کرنا ہے۔ مٹی کی زرخیزی اور پائیدار زراعت کے طریقوں پر توجہ مرکوز کرنے والی ورکشاپس‘ سیمینارز یا کانفرنسوں کا اہتمام کرنا ہے تاکہ لوگوں میں اس زمین‘ اس کی مٹی کی اہمیت و افادیت کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جا سکے۔ یہ شعور بڑھانا ہے کہ مٹی کے معیار کو بہتر بنانے اور اس کے کٹاؤ کو روکنے کا بہترین طریقہ جنگلات کے کاٹے جانے کے عمل کو روکنا اور زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرنا ہے۔ ایسی پالیسیوں اور طریقوں کی حمایت کرنا ہے جن سے پائیدار کاشت کاری کو فروغ ملے اور مٹی کی زرخیزی میں کمی کے عمل کو روکا جا سکے۔ مثلاً اگر آپ شہر میں رہتے ہیں تو اپنے گھروں میں پودے اُگا کر اور اپنی گلی میں یا اپنے گھر کے باہر موجود گرین بیلٹ کو ہرا بھرا رکھ کر موسم کو معتدل اور مٹی کو زرخیز رکھنے میں اپنے حصے کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مٹی کا یہ عالمی دن زمین پر زندگی کے لیے ایک اہم وسیلے کے طور پر مٹی کی ناگزیریت پر روشنی ڈالتا ہے۔ مٹی کا حیاتیاتی تنوع بہت دلکش ہے۔ جاندار‘ جیسے کیچوے اور دوسرے زیرِ زمین رہنے والے جانور اور حشرات ہوا اور پانی تک اپنی رسائی یقینی بنانے کے لیے مٹی کو الٹ پلٹ کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ مٹی کی ساخت کو تبدیل کرتے اور نئی ساخت تشکیل دیتے ہیں۔ اسی طرح بیکٹیریا اور فنگس اور کچھ دوسرے یک خلوی جاندار مردہ پودوں اور جانوروں کے گلانے سڑانے کا اہتمام کر کے غذائی اجزا کو ری سائیکل کرنے اور ان اجزا کو پودوں کی نئی نشوونما کے لیے دستیاب کرنے میں حصہ ڈالتے ہیں۔
میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم انسان اور دوسرے جاندار اپنی زندگی کے پہلے لمحے سے آخری سانس تک اس مٹی کی ہر طرح کی پیداوار کے مرہونِ منت ہیں۔ یہ مٹی اگر اناج پیدا نہ کرے تو سب بھوکوں مر جائیں۔ مٹی میں ایستادہ پودے‘ درخت اور دوسری نباتات اور یک خلوی جاندار اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب نہ کریں اور ضیائی تالیف کے دوران آکسیجن پیدا نہ کریں تو ہمارا زندہ رہنا ناممکن ہو جائے۔ لیکن اس خدمت کا صلہ حضرتِ انسان زمین اور مٹی کو جنگلات سے محروم کرکے دے رہا ہے‘ اس کی زرخیزی کو تباہ کرکے دے رہا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو خدانخواستہ ہماری آنے والی نسلوں کی زندگیاں ہم سے زیادہ عذاب ناک ہو جائیں گی۔ مٹی کا یہ قرض ہمِیں کو اُتارنا ہے‘ اس کی زرخیزی کو بحال کرکے۔ مٹی کی نبض بحال ہو گی تو ہی ہماری سانسیں چل سکیں گی۔