اگر یہ بات میں نے سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما اسحاق خاکوانی سے خود نہ سنی ہوتی تو میں یقین نہ کرتا۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ 2018ء کے الیکشن سے پہلے عمران خان کی اُس وقت کے ڈی جی سی آئی ایس آئی جنرل (ر)فیض حمید سے کم از کم چالیس خفیہ ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ اسحاق خاکوانی کا کہنا تھا کہ ویسے تو عمران خان نے فیض حمید سے کم از کم پچاس خفیہ ملاقاتیں کی ہوں گی لیکن میں جان بوجھ کر چالیس ملاقاتیں کہہ رہا ہوں تاکہ یہ نہ لگے کہ میں بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہوں۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ملاقاتیں کیسے ہو رہی تھیں تو انہوں نے حیران کن جواب دیا کہ اس کیلئے ایک خفیہ نظام بنایا گیا تھا تاکہ عمران خان اور جنرل (ر)فیض حمید کی ملاقاتوں کا کسی کو علم نہ ہو۔ نواز شریف حکومت کو تو بالکل پتہ نہ چلے کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ اس کام کیلئے جہانگیر ترین نے اسلام آباد میں ایک گھر کرائے پر لیا ہوا تھا۔ اسی گھر کی بالائی منزل پر یہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ دونوں وہاں بیٹھ کر اکثر اکٹھے لنچ کرتے تھے۔ لنچ کا موڈ نہ ہوتا تو ملازمین چائے پانی اوپر پہنچا دیتے تھے۔ اس کو خفیہ گھر کہیں یا پھر سیف ہاؤس‘ بہرحال وہاں جنرل (ر)فیض حمید اور عمران خان ایک عرصہ تک ملتے رہے اور اہم امور پر مشاورت اور فیصلے کیے۔ ان ملاقاتوں اور فیصلوں کے نتیجے میں نواز شریف وزیراعظم ہاؤس سے جیل گئے اور عمران خان کا ستارہ عروج پر گیا اور وہ وزیراعظم بن گئے۔
وزیراعظم بننے کے کچھ عرصہ بعد ہم نے دیکھا کہ عمران خان نے جنرل (ر)فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی لگا دیا۔ یہ عہدہ خالی کرانے کیلئے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو اس عہدے سے ہٹایا گیا۔ جنرل عاصم منیر کو ہٹانے کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ شنید ہے کہ جنرل عاصم منیر صاحب کو سب نے منع کیا تھا کہ آپ وزیراعظم عمران خان کو ان کی بیگم بشریٰ صاحبہ کے ایک پراپرٹی ٹائیکون سے لین دین‘ ہیرے جواہرات کی انگوٹھیوں اور دیگر ماڑ دھاڑ کی رپورٹ نہ دیں لیکن جنرل عاصم منیر صاحب کے قریب رہنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ تب ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ یہ رپورٹ وزیراعظم کو نہیں دیں گے تو یہ ان کے حلف کی خلاف ورزی ہو گی اور کل کلاں وزیراعظم کو ان کی بیگم صاحبہ کی حرکات کی وجہ سے مسائل اور سکینڈلز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈی جی آئی ایس آئی ہونے کے ناتے ان کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ سب وزیر اعظم کے علم میں لائیں۔ جنرل صاحب کے ذہن میں اس وقت شاید یہ ہو کہ وزیراعظم خوش ہوں گے کہ انہیں وقت پر خبردار کر دیا گیا اور ان کے سیاسی مخالفین اس کمزوری کو استعمال نہیں کر سکیں گے لیکن وہی ہوا جس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان اپنی بیگم صاحبہ کے خلاف ثبوت دیکھ کر چھت کو جا لگے۔ شاید لوگوں نے عمران خان کی بشریٰ بیگم کیلئے عقیدت کو ٹھیک طرح نہیں سمجھا تھا۔ عمران خان کی وہ مرشد تھیں اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے بلکہ اپنے اس مرشد کی ہدایت پر وہ پاکپتن میں بابا فرید گنج شکرؒ کے مزار کی چوکھٹ پر سجدہ بھی کر آئے تھے۔ آپ نوٹ کریں کہ وہ ہمیشہ بشریٰ صاحبہ کا نام عقیدت سے لیتے ہیں۔ جہاں تعلق عقیدت اور پیری مریدی کا ہو وہاں ایسی رپورٹس کیا بگاڑ سکتی تھیں۔ جہانگیر ترین کا پتا بھی اس طرح کٹا تھا کہ انہوں نے شاید بشریٰ بیگم کے حوالے سے کچھ شکوک کا اظہار کیا تھا۔ بشریٰ صاحبہ نے تو منہ پر جہانگیر ترین کو کہا تھا اور جو لوگ وہاں موجود تھے انہوں نے فوراً اندازہ لگا لیا تھا کہ اب ترین صاحب کی چھٹی پکی ہے۔ اس طرح جنرل عاصم منیر کو بھی عہدے سے ہٹایا گیا کیونکہ انہوں نے بیگم صاحبہ کی رپورٹس دی تھیں۔
میں یہ بات کہتا ہوں کہ اقتدار‘ بادشاہت یا طاقت کا حصول اتنا خوفناک جذبہ ہے کہ بندہ اس کیلئے اپنی جان بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اب اس کہانی کے مختلف کرداروں کو دیکھ لیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ہر کوئی پاور کے اس کھیل میں اس لیے حصہ لے رہا ہے کیونکہ اس کے اندر خواہشات تھیں۔ اس کے اندر انسانوں کا بھگوان بننے کا شوق تھا‘ جس کیلئے وہ سب کچھ داؤ پر لگا نا چاہتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کو جہانگیر ترین کے توسط سے کرائے کا گھر لے کر وہاں فیض حمید سے ملاقاتوں کی کیا ضرورت تھی؟ یا فیض حمیداتنے اہم عہدے پر ہوتے ہوئے کیوں ایک ایسے گھر میں عمران خان سے خفیہ ملاقاتیں کررہے تھے۔ یا پھر جہانگیر ترین کیونکر اپنی جیب سے پیسے لگا کر ایک گھر لے کر عمران خان اور فیض حمید کی خفیہ ملاقاتیں کرا رہے تھے؟ اگر آپ ان تینوں کرداروں کو ملا کر دیکھیں تو بات وہیں پہنچ جاتی ہے کہ اس کھیل میں ہر کسی کے اپنے اپنے مفادات تھے اور سب ذاتی تھے۔ کسی کو قوم کا درد نہیں تھا۔ فیض حمید یقینا اُس وقت کے آرمی چیف قمر باجوہ کی ہدایت پر یہ سارا کام کررہے تھے۔ جنرل (ر) قمر باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع درکار تھی تو جنرل (ر)فیض حمید نے قمر باجوہ کے بعد عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ میں 2022ء میں آرمی چیف بننا تھا۔ جبکہ جہانگیر ترین نے کنگ میکر بننا تھا‘ جو رول انہوں نے بعد میں ادا بھی کیا‘ جب عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کیلئے ارکان کم پڑ گئے تو وہ اپنے جہاز پر آزاد ارکان بٹھا کر لائے اور بنی گالا میں ان کے گلے میں خان صاحب نے پی ٹی آئی کا جھنڈا ڈالا۔
یہ تینوں‘ چاروں کردار بھی بعد میں ایک دوسرے سے لڑ پڑے۔ عمران خان نے سب سے پہلے جہانگیر ترین کا پتہ کاٹا بلکہ یوں کہہ لیں کہ کٹوا دیا۔ ترین کو بشریٰ بیگم کی پارٹی کے اندر بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر تشویش تھی جس کی خبریں اُن تک پہنچ گئیں اور انہوں نے بنی گالا میں جہانگیر ترین کے منہ پر کہہ بھی دیا۔ عمران خان کے ذہن میں پہلے دن سے یہ تھا کہ انہیں ترین کی قربانی دینی ہو گی لہٰذا میاں نواز شریف کی نااہلی کو بیلنس کرنے کیلئے جہانگیر ترین کو اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے نااہل کرایا گیا۔ یہ بات جہانگیر ترین نے قریبی لوگوں کو بتائی ہے کہ انہیں نااہل کرانے میں عمران خان کا ہاتھ تھا۔
اسلام آباد کے ' سیف ہاؤس‘ کے ان سب کرداروں میں سب سے زیادہ فائدے میں عمران خان اورقمر باجوہ رہے۔قمر باجوہ کا مقصد پورا ہوا اور انہوں نے تین سال مدتِ ملازمت میں توسیع کرا لی اور یہی ان کا عمران خان کو پاور میں لانے کا پہلا اور آخری مقصد تھا۔ عمران خان ان خفیہ ملاقاتوں اور انتظامات کے بعد وزیراعظم بن گئے لیکن اس پورے کھیل میں جہانگیر ترین اورفیض حمید نقصان میں رہے۔ جہانگیر ترین نے کافی پیسہ خان صاحب پر لگایا۔ ان کی حکومت بنانے میں مدد کی۔ جہاز استعمال کیا۔ بنی گالا کے اخراجات تک اٹھاتے رہے لیکن آخر پر جب اقتدار میں آنے کا وقت قریب آیا تو سب سے پہلے اس کا پتہ صاف کیا گیا۔ جس کا آج تک جہانگیر ترین کو یقین نہیں آیا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ؟ کیا کوئی آپ کے اتنا قریب ہو کر بھی اس دیدہ دلیری سے آنکھیں ماتھے پر رکھ سکتا ہے؟ فیض حمید بھی حیران ہوتے ہوں گے کہ جس قمر باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے انہوں نے اتنا اہم رول ادا کیا تھا‘ وہی بعد میں ان کے خلاف ہوگیا تھا۔
اس وقت قمر باجوہ توسیع سے مستفید ہونے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں اور جہانگیر ترین کب کے سیاست چھوڑ چکے ہیں۔ باقی دو کردار عمران خان اورفیض حمید سزائیں سننے کا انتظار کررہے ہیں۔ اسلام آباد کے اس سیف ہاؤس کے ان سبھی کرداروں میں سے جنرل باجوہ نے اچھا اور ستھرا کھیل کھیلا۔ مدتِ ملازمت میں توسیع بھی لے لی اور اب ریٹائرمنٹ کی آرام دہ لائف گزار رہے ہیں۔
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی