خان صاحب کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد یہ تاثر قائم ہوا کہ وہ پہلے سے زیادہ مقبول ہو گئے ہیں۔ اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خان صاحب نے مزاحتمی بیانیہ اپنایا اور حکومت کو ٹف ٹائم دیا۔ یہ مزاحمتی بیانیہ دو وجوہ سے بے حد مقبول ہوا۔ ایک یہ کہ خان صاحب اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے تھے اور کچھ لوگ انہیں وقت سے پہلے اقتدار سے ہٹائے جانے کے حق میں نہیں تھے۔ دوسرے یہ کہ پی ڈی ایم کی حکومت آتے ہی معاشی بحران نے سر اٹھا لیا‘ جس پر عوام پی ڈی ایم کی حکومت کو موردالزام ٹھہرانے لگے۔ خان صاحب نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی مگر پے در پے ایسی غلطیاں کر بیٹھے کہ ان کی پوزیشن ہی تبدیل ہو گئی۔ کل تک جو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیٹھنے کو تیار نہ تھے‘ آج مذاکرات کی التجا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب خان صاحب حکمت اور بصیرت سے بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے‘ وہ سب کچھ ملیا میٹ کرنے پر تُلے ہوئے تھے‘ اب ان کی پوزیشن یہ ہے کہ اگر بہت کم بھی مل جائے تو انہیں قبول ہے۔ خان صاحب کی یہ پوزیشن اُس مزاحمتی بیانیے کا نتیجہ ہے جو ان کی شخصیت کا خاصا ہے۔
موجودہ حالات خان صاحب کو یہ سوچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ انہوں نے مزاحمتی بیانیہ اپنا کر کیا کھویا اور کیا پایا؟ اس ضمن میں سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے بانی کے اقتدار سے جیل جانے اور سیاسی ساکھ کھونے سمیت پی ٹی آئی کے سیاسی نقصان کی طویل فہرست ہے مگر بظاہر کوئی اہم کامیابی نہیں ہے جسے بطور مثال پیش کیا جا سکے کہ پارٹی نے مزاحمتی بیانیے سے یہ حاصل کیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک پی ٹی آئی کو زعم تھا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ان کا ووٹر پارٹی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے اس بات کا کہ ووٹر پی ٹی آئی کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو اس کا بھی پی ٹی آئی کو فائدہ نہیں ہے کیونکہ الیکشن میں ساڑھے چار سال کا عرصہ پڑا ہے جبکہ پی ٹی آئی کو فوری ریلیف چاہیے جو مزاحمتی بیانیہ ترک کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی صورت میں ہی مل سکتا ہے۔ حکومت کو بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ تصادم کی صورت میں نتائج اندازوں کے برعکس نکلنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں مگر پی ٹی آئی کی پوزیشن کمزور ہو چکی ہے‘اُس کے پاس کھیلنے کے لیے کوئی کارڈ نہیں بچا ‘اس لیے حکومت اس صورتحال کا فائدہ اٹھائے گی۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کے معاملے کو طول دیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعت میں شامل کئی رہنماؤں کو پی ٹی آئی کے طرزِ سیاست اور رویے پر اعتماد نہیں۔ خواجہ آصف جیسے رہنما بھی اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ رانا ثنا اللہ پی ٹی آئی قیادت کے ماضی کے یوٹرن کو مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی کس بات پر یقین کریں۔ انہی خدشات اور تحفظات کا اظہار پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں کر رہی ہیں۔
پی ٹی آئی نے مذاکرات کے لیے جو پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے اس میں عمر ایوب‘ اسدقیصر‘ علی امین گنڈاپور‘ سلمان اکرم راجہ اور صاحبزادہ حامد رضا شامل ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مذاکراتی کمیٹی کو بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ یہ کمیٹی کس قدر بااختیار ہے‘ یہ آنے والے دنوں میں ہی معلوم ہو سکے گا البتہ اس سے قبل جتنی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ان کی باگ ڈور خان صاحب کے ہاتھ میں رہی۔ اس کا فائدہ ہوا یا نقصان‘ یہ تو پی ٹی آئی ہی بہتر بتا سکتی ہے البتہ تمام تر اختیارات خان صاحب کے ہاتھ میں ہونے سے معاملات طوالت اختیار کر تے رہے اور بروقت فیصلے کی صورت سامنے نہ آسکی۔ 26ویں آئینی ترمیم پر بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جو مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کرتی پھر جیل میں خان صاحب سے ملاقات کرتی تھی۔ یہ آنیاں جانیاں اس قدر زیادہ ہوئیں کہ پی ٹی آئی 26ویں آئینی ترمیم کے عمل سے باہر ہو گئی۔ شاید خان صاحب کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ انہوں نے سارے اختیارات اپنے پاس رکھ کر کچھ حاصل نہیں کیا۔
حکومت اگرچہ باقاعدہ مذاکرات سے انکاری ہے تاہم کسی نہ کسی سطح پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے۔ مذاکراتی کمیٹی کے ارکان نے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے ملاقات کی ہے‘ تاہم حکومت نے سپیکر قومی اسمبلی کو براہِ راست مذاکراتی عمل سے دور رہنے اور خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے معاملات آگے بڑھانے کا مشورہ دے دیا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ ایاز صادق خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے معاملات آگے بڑھائیں۔ مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ ابتدائی ملاقاتوں میں حکومت نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کی پیشگی شرائط پر بات نہیں ہو گی۔ حکومت پارلیمان اور سیاسی استحکام کے لیے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کی حامی ہے۔ عام انتخابات‘ 26ویں آئینی ترمیم اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی پر لچک نہ دکھانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی مذاکرات کے ذریعے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ حکومت پی ٹی آئی کی بنیادی شرائط تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ‘ پھر مذاکرات نتیجہ خیز کیسے ثابت ہو سکتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر سے مزاحمتی بیانیے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ پارٹی کے سنجیدہ رہنما پارلیمان کی سیاست کو مشکلات سے نجات کا واحد حل قرار دیتے ہیں مگر پارٹی میں بظاہر سوشل میڈیا گروپ کا بیانیہ حاوی نظر آتا ہے۔ جب بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے لگتا ہے یہ گروپ متحرک ہوجاتا ہے اور کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیا دیتا ہے جس سے سارا عمل سبوتاژ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی مذاکرات سے دور کھڑی ہے۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کا بیانیہ اس قدر مضبوط ہے کہ پی ٹی آئی میں جو لوگ مذاکرات کے حق میں ہیں ان کی مدہم آواز پر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اگلے کچھ عرصہ تک انہی پارٹی معاملات میں اُلجھی رہے گی۔
مذاکرات کی کامیابی کے لیے فریقین کی جانب سے لچک انتہائی ضروری ہے۔ دونوں اطراف کو چاہیے کہ اپنے مؤقف پر اڑے رہنے کے بجائے ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے اور اُسی میں اپنا مؤقف ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اس سے نہ صرف مذاکرات کا عمل آسان ہو گا بلکہ اس کا نتیجہ بھی بہتر ہو گا۔ مذاکرات کی راہ میں اصل رکاوٹ نو مئی کے واقعات ہیں‘ حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نو مئی کے واقعات پر معافی مانگے جبکہ پی ٹی آئی نو مئی اور 26نومبر کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔ جب تک ان نکات پر سمجھوتہ یا اتفاقِ رائے نہیں ہو جاتا‘ مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔