ملک میں بے اعتباری‘ بے خبری‘ بے چینی‘ بے حسی‘ بے اعتنائی‘ بے یقینی اور بے صبری کی فضا آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح فروری 2024ء کے انتخابات سے پہلے تھی۔ اس وقت اکثریت کی سوچ یہ تھی کہ الیکشن ہو جائیں گے تو سیاسی اختلافات کی گرد بیٹھ جائے گی اور ملک میں منتخب جمہوری حکومت کے قائم ہونے سے بے یقینی کی سموگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن ہوا سب کچھ اس کے بالکل الٹ! سب نے دیکھا کہ انتخابات ہوئے لیکن کسی نے بھی ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا‘ حتیٰ کہ انہوں نے بھی نہیں‘ جنہوں نے بعد ازاں یہاں حکومت بھی بنا لی۔ انتخابات سے پہلے یہاں ایک عبوری حکومت اور اس سے پہلے ایک مکمل حکومت قائم تھی جو پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ ان دونوں حکومتوں کے دور میں بھی بے یقینی ایسی ہی تھی جیسی اب ہے۔ جے یو آئی کو چھوڑ کر‘ اس وقت بھی حکومت انہی پارٹیوں کی تھی جن کی اس وقت ہے اور اس وقت بھی اتحادی پارٹیوں میں مختلف معاملات پر اختلافات پائے جاتے تھے۔ اس وقت بھی اپوزیشن کا کردار پاکستان تحریک انصاف ادا کر رہی تھی اور اس کو دبانے کی کوشش بھی ہوتی رہی تھی‘ جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اس دباؤ سے نکلنے کے لیے تمام تک تمام تر ذرائع اور وسائل استعمال کیے جا رہے تھے۔
انتخابات ہو گئے‘ نئی حکومت بھی بن گئی لیکن بے یقینی کی فضا ختم نہ ہو سکی۔ صورت حال یہ ہے کہ حکومت اور اس کی اتحادی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین اختلافات اب بھی موجود ہیں حالانکہ حکومت قائم ہوئے نو ماہ ہو چکے ہیں۔ جمعہ کے روز کراچی میں بلاول بھٹو کی سربراہی میں بلاول ہاؤس میں اجلاس ہوا جس میں پنجاب اور کے پی کے گورنرز اور سندھ وبلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کی یقین دہانیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جس کے بعد چیئرمین بلاول بھٹو نے پارٹی رہنماؤں کو حکومت کے ساتھ رابطوں کو مزید تیز کرنے کی ہدایت کر دی۔ پیپلز پارٹی اس سے پہلے بھی کئی بار حکومت سے اختلافات کا اظہار کر چکی ہے۔
جے یو آئی (ایف) کے پہلے 26ویں آئینی ترمیم پر حکومت کے ساتھ اختلافات چل رہے تھے۔ کسی نہ کسی طرح یہ مرحلہ طے ہوا تو اب مدارس رجسٹریشن بل پر اختلافات پیدا ہو گئے ہیں اور چند روز پہلے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آئین کے مطابق بل پر 10 دن تک دستخط نہیں ہوتے تو وہ خود بخود ایکٹ بن جاتا ہے‘ نوٹیفکیشن جاری ہونا چاہیے‘ اگر حکومت نے نوٹیفکیشن جاری نہ کیا تو ہم سڑکوں پر آئیں گے۔ بہرحال گزشتہ روز جے یو آئی کے سربراہ نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی‘ جس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم نے وزارتِ قانون وانصاف کو 2024ء کے سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ کے حوالے سے قانون اور آئین کے مطابق فوری عملی اقدامات کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے اس تنازع کے جلد حل کی امید کا اظہار کیا۔ اللہ کرے کہ یہ معاملہ طے ہو جائے اور کسی کو بھی سڑکوں پر آنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
میرے خیال میں ایسے ایشوز اس وقت سر اٹھاتے ہیں جب کسی بھی بل کا ڈرافٹ سوچ سمجھ کر تیار نہیں کیا جاتا۔ پھر ہمارے ہاں یہ روایت بھی ہے کہ حکومتی ارکانِ پارلیمنٹ بغیر پڑھے‘ بغیر پرکھے بل منظور کر لیتے ہیں۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ اس میں تو فلاں فلاں سقم تھا۔ اگر حکومتی ارکان بل کے مسودے کو پڑھنے کی زحمت گوارا کر لیں تو ایسی ہزیمت سے بچنا ممکن ہو سکتا ہے۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کا معاملہ اس وقت اس ملک کے عوام کے لیے ایک نیا موضوعِ بحث ہے۔ ایک وقت تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے سوا کسی کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے تھے‘ حکومت کو فارم 47 کی پیداوار اور پارلیمنٹ کو جعلی قرار دیا جاتا تھا۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور پی ٹی آئی کو اسی فارم 47 والی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت پیش آ گئی اور مذاکرات کا یہ معاملہ بھی پچھلے دو ہفتوں سے بس بیانات کی حد تک ہی لٹکا ہوا ہے‘ یا فریقین میں ایک دو ملاقاتوں کی خبریں آئی ہیں۔ اب تک یہ پتا نہیں چلا ہے کہ مذاکرات کب ہوں گے اور نہ ہی اس بات کا کوئی حوالہ کہیں نظر آتا ہے کہ ان مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہو گا کیونکہ پی ٹی آئی مختلف مواقع پر حکومت سے مختلف مطالبات کرتی رہی ہے جیسے پی ٹی آئی کے جیل میں بند اراکین مع بانی پی ٹی آئی کی رہائی‘ چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی اور پی ٹی آئی ارکان پر قائم کیے گئے مقدمات کا خاتمہ۔ اب یہ معلوم نہیں کہ آنے والے دنوں میں جو مذاکرات ہونے جا رہے ہیں ان میں پی ٹی آئی حکومت کے سامنے کیا معاملات اور مطالبات رکھے گی اور حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کی کون سی بات تسلیم کی جائے گی اور کون سی نظر انداز ہو گی‘ لیکن یہ واضح ہے کہ مذاکرات ہوئے تو کوئی نہ کوئی نتیجہ نکل ہی آئے گا۔
اس بے اعتباری‘ بے خبری‘ بے چینی‘ بے حسی‘ بے اعتنائی‘ بے یقینی اور بے صبری کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو ملک میں کاروباری اور معاشی سرگرمیاں پوری طرح شروع ہو سکی ہیں اور نہ ہی سرمایہ کاری کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں کہیں نظر آتی ہیں۔ ایک جمود سا طاری ہے جس میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ اس نے کیسے آگے بڑھنا ہے اور کیا کرنا ہے۔ کاروباری سرگرمیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور لوگوں کے مالی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں بار بار اضافوں نے پہلے ہی لوگوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ حکومت اور پیپلز پارٹی کے معاملات طے پا گئے اور دونوں پارٹیاں اتحادی حکومت کا بھرپور انداز میں حصہ بن گئیں‘ حکومت اور جے یو آئی کے مابین اختلافات بھی ختم ہو گئے اور مدارس بل کا معاملہ بھی جلد طے پا گیا اور حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مجوزہ مذاکرات کامیاب ہو گئے تو بھی ملک میں چھائی بے یقینی کی فضا کا خاتمہ ہو سکے گا یا نہیں۔ حکومت نے اگر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت کو آگے چلانا ہے تو اسے پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے میں کسی قسم کے پس وپیش سے کام نہیں لینا چاہیے۔ یہ کام فوری ہونا چاہیے۔ پہلی بات یہ ہے کہ مدارس رجسٹریشن بل تفصیلی تجزیے کے بعد منظور کیا جانا چاہیے تھا تاکہ یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی جو اَب ہو چکی ہے۔ بہرحال اب جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے اس کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو جلد از جلد اقدامات کرنے چاہئیں‘ اور تیسری وہی بات کہ اگر پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں تو جلد کریں‘ تاکہ ان کا کوئی نتیجہ نکلے اور اس کے بعد یہ پتا چلے کہ ملک کو آگے کیسے لے کے جانا ہے۔ معاملات کو کیسے چلانا ہے۔ ملک میں بے یقینی کی فضا قائم کرنے میں ہمارے رہنماؤں اور قائدین کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ کیا ان کو یہ معلوم نہیں کہ کیا حالات پیدا ہو رہے ہیں اور اس کے کیا نتائج نکل رہے ہیں؟