گزشتہ دنوں جنوبی کوریا میں سیاسی بحران نے حیرت میں ڈال دیا کہ مضبوط معیشت کے حامل ملک کو بھی گمبھیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ 14 دسمبر کو جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کا مواخذہ‘ ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہے جس نے گہری سیاسی پولرائزیشن‘ حکومتی کوتاہیوں اور حکومت پر عوامی اعتماد میں کمی کا پردہ فاش کیا۔ جنوبی کوریا میں سیاسی بحران کی وجہ سے اس کے نظامِ حکمرانی کی خامیوں پر دنیا نے توجہ مر کوز کر لی ہے اوریہاں کے جمہوری سسٹم کے بارے میں اہم سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے1987ء کے بعدملک میں پہلی بار مارشل لاء نافذ کیا جس کو دنیا کی تاریخ کا سب سے مختصر مارشل لاء کہا جا سکتا ہے۔ چند گھنٹوں کے اس مارشل لاء نے جنوبی کوریا کی سیاست میں ہلچل مچادی‘ تاہم مارشل لاء کے نفاذ پر صدر یون سک یول کے خلاف حزبِ اختلاف کی مواخذے کی تحریک کامیاب ہو گئی جس کے بعد صدر کو معطل کردیا گیا۔ اس وقت وزیراعظم ہاں ڈک سو قائم قام صدر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک کامیاب بنانے کے لیے 300 ارکان کے ایوان میں تحریک کے حق میں 204 ووٹ ڈالے گئے‘ 85 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ تین ارکان غیر حاضر رہے اور آٹھ ووٹ کالعدم قرار پائے۔ یاد رہے کہ مواخذے کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے دو تہائی یعنی 200 ووٹ درکار تھے تاہم اس تحریک کے حق میں 195 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اب سب کی نظریں آئینی عدالت پر ٹکی ہوئی ہیں‘ عدالت کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے 180 دن ہیں کہ پارلیمنٹ کے فیصلے کو منظور کیا جائے یا نہیں۔ اس کے تحت یا تو یون کو عہدے سے ہٹا دیا جائے گا یا انہیں عہدے پر بحال کر دیا جائے گا‘جس کے سیاسی مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
جنوبی کورین صدر کے خلاف آخری مواخذہ 2016ء میں ہوا تھاجب اُس وقت کی صدر پارک گیون ہائے کو ان کی سیٹ سے ہٹا دیا گیا۔عدالت کو سابق صدر پارک گیون ہائے کے خلاف پارلیمنٹ کی درخواست منظور کرنے میں 91 دن لگے تھے۔ سابق صدر روہ مو ہیون کے معاملے میں عدالت نے 63 دن کے غور و خوض کے بعد 2004ء میں پارلیمنٹ کی مواخذے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اگر یون کا مواخذہ کیا جاتا ہے تو جنوبی کوریا میں ان کے عہدہ چھوڑنے کے دو ماہ کے اندر صدارتی انتخابات کرانے ہوں گے۔ جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ اپوزیشن کی ریاست مخالف سرگرمیوں کے باعث مارشل لاء نافذ کیا‘ شمالی کوریا کی طرف جھکاؤ رکھنے والی اپوزیشن پارلیمنٹ پر قابض تھی۔ جنوبی کوریا کے صدر نے پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے حالیہ اقدامات کو اس فیصلے کا محرک قرار دیا تھا جس نے حکومتی بجٹ کو مسترد کر دیا تھا اور ملک کے چند اعلیٰ پراسیکیوٹرز کے مواخذے کی تحریک پیش کی تھی۔ یہ سیاسی بدامنی یونہی نہیں ابھری‘ یون کی جیت نے پہلے ہی ان کی قدامت پسند پیپلز پاور پارٹی اور ترقی پسند ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان پولرائزیشن کو بڑھا دیا تھا جس کا قومی اسمبلی میں کافی حد تک غلبہ ہے‘ لہٰذا اس کے نتیجے میں قانون سازی کے شکنجے نے عوامی مایوسی کو مزید گہرا کر دیا کیونکہ حکومت مہنگائی‘ معاشی عدم استحکام اور دیگر خدشات سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔
غیر مؤثر حکمرانی کے اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ ان حالات نے یون کی حکومت سے بے دخلی کی حمایت کو ہوا دی۔عوامی عدم اطمینان میں مزید اضافہ بدعنوانی کے الزامات‘ معاشی بدانتظامی اور صحت کی دیکھ بھال میں اصلاحات اور رہائش کی استطاعت جیسے اہم مسائل کو حل کرنے میں ناکامی سے صدر کی ہٹانے کی تحریک کو تقویت ملی۔ناقص گورننس نے یون کی ریٹنگ کو 11 فیصد کی‘ اب تک کی‘ کم ترین سطح پر پہنچا دیا۔ اس ماحول میں نوجوانوں کی قیادت میں سرگرمی تبدیلی کے لیے ایک طاقتور قوت کے طور پر ابھری۔ شفافیت اور شمولیت کی وکالت کرتے ہوئے نوجوان شہری ڈیجیٹل دور کے ساتھ ہم آہنگ اقدار کی طرف تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں اورقیادت کے احتساب پر زور دیتے ہیں۔گیلپ کوریا کے ایک حالیہ سروے کے مطابق90 فیصد سے زائد رائے دہندگان نے یون کے مواخذے کی حمایت کی۔ ان کی برطرفی کے لیے اس زبردست حمایت نے سسٹم میں اصلاحات کا مطالبہ کیا جس میں مستقبل میں اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے اور ادارہ جاتی توازن کی بحالی کی ضرورت پر زور دیا۔ 75 فیصد سے زیادہ جنوبی کوریائی اب زیادہ احتساب اور شفافیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
قائم مقام صدر ہان ڈک سو نے استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے فیصلہ کن اقدام کیا ہے۔ انہوں نے قومی مفادات کے تحفظ میں فعال سفارت کاری کی اہمیت کو اجاگر کیا اور امریکہ کے ساتھ اپنے اتحاد اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ فعال تعامل کے عزم کا اعادہ کیا۔جیسے جیسے اندرونی تبدیلیاں سامنے آرہی ہیں جنوبی کوریا کے علاقائی تعلقات پر اثرات تیزی سے واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے چین اور جاپان جیسے پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات میں ایک مستقل شراکت دار کے طور پر جنوبی کوریا کے اعتماد کے بارے میں تشویش پیدا کردی ہے۔ قیادت کی تبدیلیاں اس کی سفارتی صف بندی کا از سر نو جائزہ لے سکتی ہیں‘ ممکنہ طور پر علاقائی اور عالمی طاقتوں کو سیول کے ساتھ اپنے سٹرٹیجک تعلقات پر نظر ثانی کرنے پر آمادہ کر سکتی ہیں۔سب سے پہلے خدشہ امریکہ کے ساتھ جنوبی کوریا کے قریبی سکیورٹی تعاون کا مستقبل ہے‘ خاص طور پر سہ فریقی فریم ورک کے اندر جس میں جاپان شامل ہے۔ یون کے مواخذے نے اس صف بندی کے پائیدار ہونے کے بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے‘ جس سے اس کی دفاعی حکمت عملی پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ واشنگٹن کے لیے یہ غیر یقینی صورتحال بحر ہند اوربحرالکاہل میں اس کے وسیع تر مقاصد کے لیے چیلنجز کا باعث بنتی ہے‘ جہا ں سیول اس کا ایک اہم اورمستحکم شراکت دار ہے۔اسی طرح جاپان کے ساتھ تعلقات‘ جنہوں نے حال ہی میں اقتصادی اور سکیورٹی تعاون میں پیشرفت کی ہے‘ کو سیول میں سیاسی غیر یقینی صورتحال سے دھچکے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ قیادت کی منتقلی اس پر بھی اثر انداز ہو گی اور گہرے علاقائی انضمام کی طرف رفتار کو کم کر سکتی ہے۔ ان تبدیلیوں سے شمال مشرقی ایشیا کے سفارتکاری کے نازک توازن میں مزید پیچیدگی پیدا ہونے کا خطرہ ہے جو جنوبی کوریا کی مقامی اور علاقائی پالیسیوں کے باہمی ربط کو واضح کرتا ہے۔ بیجنگ نے جنوبی کوریا میں سیاسی اختلاف کا فائدہ اٹھانے سے گریز کیا ہے۔
چین شمال مشرقی ایشیا میں اپنے آپ کو ایک مستحکم اثر و رسوخ کے طور پر پوزیشن میں لاتے ہوئے علاقائی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جس کا مقصد بیرونی دشمنیوں کے اثرات کو کم کرنا اور جنوبی کوریا کی جاری ہنگامہ خیزی کے درمیان بھی پرامن روابط کو فروغ دینا ہے۔صدر یون سک یول کے مواخذے نے جنوبی کوریا کے جمہوری سسٹم کو درپیش چیلنجز کو ابھار دیا ہے؛ چنانچہ جب قوم غیر یقینی کے اس دور سے گزر رہی ہے اس کی قیادت اور اداروں کو استحکام برقرار رکھنے‘ قومی اتحاد کو فروغ دینے اور جمہوری جواز کے تحفظ کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنا چاہیے۔ ان داخلی چیلنجوں سے کامیابی سے نمٹنے سے نہ صرف ملک کے جمہوری ڈھانچے کو تقویت ملے گی بلکہ بیرونی دباؤ کا جواب دینے کی اس کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہو گا۔اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ جنوبی کوریا بین الاقوامی سطح پر ایک مستحکم اور قابل اعتماد کھلاڑی کے طور پر کردار ادا کرتا رہے۔