یہ تصویر جو میں دیکھ رہا ہوں‘ جس نے میری آنکھوں کو گرفت میں لے رکھا ہے‘ جو اس پر جم سی گئی ہیں‘ ہزاروں میل دورسے آئی ہے۔ قاہرہ کے کسی سرکاری ایوان میں لی گئی ہے۔ نیل کے ساحل نے یہ منظر بھی دیکھا ہے‘ وہی ساحل جس کے بارے میں اقبالؒ نے کہا تھا: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے؍ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر۔ اِس تصویر کا پیغام کاشغر تک پہنچا ہے یا نہیں‘ اسلام آباد اور ڈھاکہ تک بہرحال پہنچ گیا ہے۔ لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ بھی اس سے محروم نہیں رہے۔ چٹاگانگ اور نواکھلی میں بھی یہ صاف دیکھی جا رہی ہے۔ ایک تصویر جو بظاہر خاموش ہے‘ چُپ چاپ ہے‘ لیکن بول بھی رہی ہے‘ آواز دے رہی ہے‘ اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ دو افراد آمنے سامنے بیٹھے ہیں‘ لیکن یہ دو افراد نہیں ہیں‘ ان میں کروڑوں افراد کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ پینتالیس کروڑ افراد کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان دونوں کی آنکھوں سے سنجیدگی جھلک رہی ہے۔ یہ ایک دوسرے کا ساتھ دینے‘ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ یہ ایک نئے دور کا آغاز کر رہے ہیں۔ اپنی اور سب دیکھنے والوں کی آنکھوں میں نئے خواب بھر رہے ہیں‘ نئی دنیا تعمیر کرنے کا عزم کر رہے ہیں۔ دونوں کے دل زخمی ہیں‘ ان زخموں کی کئی کہانیاں ہیں۔ ان کے ذمہ دار بہت سے ہیں‘ کئی ایک نے خنجر چلائے ہیں‘ زخم لگائے ہیں‘ ایک دوسرے سے ڈھیروں گِلے ہیں‘ ہزاروں شکوے ہیں‘ لاکھوں شکایتیں ہیں۔ تم نے میرے ساتھ کیا کِیا‘ تم نے میرے اعتماد کو ٹھیس کیوں پہنچائی‘ تم میرے دشمن کیوں بن گئے‘ تم میرے دشمنوں کے ساتھ کیوں مل گئے‘ تم نے مجھے غیر کیوں سمجھ لیا‘ تم نے مجھے غیر کیوں بنا لیا‘ تم ''برادرِ یوسف‘‘ کیسے بن گئے‘ تم نے مجھے کنویں میں دھکا کیوں دے دیا۔ دونوں ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں‘ لیکن انکار بھی نہیں کر پا رہے۔ دونوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں‘ دونوں اپنے آپ کو ''یوسف‘‘ سمجھ رہے ہیں‘ دونوں کے نزدیک سامنے بیٹھا ہوا ''برادرِ یوسف‘‘ ہے۔ دونوں کو اپنے ''یوسف‘‘ ہونے کا یقین ہے‘ دونوں سمجھ رہے ہیں کہ دھکا دینے والا کوئی اور ہے۔ دونوں اپنی اپنی واردات کا انکار کر رہے ہیں یا مخمصے میں ہیں‘ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا‘ کیسے ہوا‘ ان کے ہاتھوں پر خون کس نے لگایا؟ ان کا خون کس نے بہایا؟ دیکھنے والوں کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آ رہا‘ انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا‘ سجھائی نہیں دے رہا‘ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
''یوسف‘‘ کون ہے‘ اور ''برادرِ یوسف‘‘ کون ہے؟ مشرق سے دیکھیے تو منظر اور ہے‘ مغرب سے دیکھیے تو منظر اور ہے۔ دونوں ہی کو یوسف قرار دیا جا سکتا ہے‘ اور دونوں ہی برادرِ یوسف بھی قرار پا سکتے ہیں۔ دونوں بیک وقت یوسف بھی ہیں اور برادرِ یوسف بھی۔ دونوں ہی کنویں میں گر گئے تھے‘ دونوں ہی کنویں سے نکالے گئے‘ دونوں ہی ایک دوسرے کے سامنے تھے‘ ایک دوسرے کے مقابل تھے‘ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ یوسف کون ہے؟ ان کو خود فیصلہ کرنا ہے۔ آواز بلند ہو رہی تھی‘ تصویر بول رہی تھی‘ جو معاف کرنے میں پہل کرے گا‘ وہی یوسف ہو گا۔ دونوں آگے بڑھتے ہیں‘ دونوں کی آوازیں بیک وقت بلند ہوتی ہیں۔ میں نے تمہیں معاف کیا‘ اپنے خون کا خون بہا میں خود ہی دے دوں گا‘ تم سے تقاضا نہیں کروں گا۔ دونوں گلے مل جاتے ہیں‘ آگے بڑھنے کا عہد کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کو ''بادشاہت‘‘ میں شریک کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ تصویر بول رہی ہے اور یہی اعلان دہرا رہی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف‘ اور بنگلہ دیش کے مشیر اعظم ڈاکٹر محمد یونس ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تاریخ بدل رہے ہیں۔ تاریخ بدل چکے ہیں۔ ایک دوسرے پر نثار ہو رہے ہیں‘ ایک دوسرے کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان ٹوٹے ہوئے تعلقات کو بحال کر رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی طاقت بن کر جنوبی ایشیا کو بدل ڈالیں گے۔
شہباز شریف اور ڈاکٹر محمد یونس کے بس میں ہوتا تو وہ کچھ کبھی نہ ہوتا جو 53 برس پہلے ہوا تھا۔ اگر وہ اُس وقت موجود ہوتے تو اقتدار کے لیے ملک کو ہرگز قربان نہ کرتے‘ لیکن اس وقت یہ ہماری قسمت میں نہیں تھے جو لوگ ہمارے حصے میں آئے تھے ہماری تقدیر کے مالک بن بیٹھے تھے‘ وہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے چھوٹے لوگ تھے۔ کرسی کے پجاری‘ انہوں نے کرسی کو ملک سے بڑا جانا‘ اقتدار کی جنگ میں ملک کو دو ٹکڑے کر دیا۔ اگر ان میں سے کوئی بھی ایک قدم پیچھے ہٹ جاتا‘ ایثار کا مظاہرہ کر دیتا تو ہماری تاریخ داغدار نہ ہوتی۔ بدطینت ہمسایے کو میلی آنکھ سے ہماری طرف دیکھنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اس کی فوج کبھی ہماری سرحدوں کا رُخ نہ کر سکتی۔ اس کے ناپاک عزائم کبھی پورے نہ ہو پاتے۔ اپنی اَنا کے لیے‘ اپنے اقتدار کے لیے ملک کو لہولہان کرنے والوں کے ساتھ جو ہوا‘ وہ جس طرح نشانِ عبرت بنے‘ وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ ایک کو اپنی فوج کے جوانوں نے بھون ڈالا‘ ایک کو اپنے نامزد کردہ چیف آف آرمی سٹاف نے تختہ دار پر لٹکا دیا‘ ایک بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔ جارحیت کا ارتکاب کرنے والی 'ملکہ‘ کو اُس کے اپنے محافظوں نے بھون ڈالا۔ ''بنگلہ دیش‘‘ کو جس آزادی کا جھانسا دیا گیا تھا‘ وہ غیروں کی غلامی ثابت ہوئی۔ اس سب کے باوجود بنگلہ دیش بیدار ہو چکا ہے۔ اس کی آنکھیں کھل چکی ہیں وہ آزاد ہو چکا ہے۔ آزادی کو سلب کرنے والوں پر اس کی زمین تنگ ہو گئی ہے۔ تحریک پاکستان کے ساتھ اس کا ناتا نئے سرے سے جُڑ رہا ہے۔ پاکستان اور وہ ایک دوسرے کو اخوت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں‘ تعاون کے راستے تلاش کر رہے اور ایک دوسرے کی طاقت بن رہے ہیں۔ شہباز شریف اور ڈاکٹر محمد یونس ان کی آواز بن گئے ہیں‘ ان کے ترجمان بن گئے ہیں۔ تصویربول رہی ہے اور بھولی ہوئی تاریخ کو زندہ کر رہی ہے۔ پرانے سفر کا نیا آغاز ہو رہا ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش دوستی زندہ باد ؎
میں ظُلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہو گی آہ میری‘ نفس مرا شعلہ بار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قُدسیوں سے میں نے‘ وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)