چھبیسویں آئینی ترمیم کا بِل (تادمِ تحریر) قومی اسمبلی یا سینیٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا۔ دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کیے جا چکے ہیں‘ کسی بھی لمحے کسی بھی ایوان میں یہ بل پیش کیا جا سکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری تن اور من کی بازی لگائے ہوئے ہیں‘ اُن کے نزدیک یہ بل اُن کی شہید والدہ کی خواہش کی تکمیل ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی تشکیلِ نو کا جو خواب دیکھا تھا اور 18 برس پہلے نواز شریف صاحب کے ساتھ جس میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے‘ اُس پر عمل کرنے کا وقت آن پہنچا ہے‘ پاکستانی جمہوریت کو جج صاحبان سے محفوظ بنانے کے لیے یہ ناگزیر ہے۔ آئینی امور اور دوسرے معاملات الگ الگ ہوں گے تو پارلیمنٹ کو سکھ کا سانس نصیب ہو گا اور پاکستانی عوام کے فوجداری اور دیوانی مقدمے بھی جلد نبٹائے جا سکیں گے۔ اُن کے استدلال سے اختلاف کرنے والے بھی موجود ہیں اور جوابی دلائل دیتے رہے ہیں لیکن اس بحث وتمحیص کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کا آئینی بینچ بنانے پر اتفاق ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ کا تحکم برقرار رکھتے ہوئے چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی کی بنیاد پر ایک ایسا بینچ تشکیل دیا جائے گا جس کے لیے دستوری امور خاص ہوں گے۔ یکسر نئی عدالت قائم کرنے کے بجائے خصوصی آئینی بینچ کے قیام پر اتفاق خوش آئند ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے واضح اور دو ٹوک مؤقف نے اس ''اتفاقِ رائے‘‘ کو ممکن بنایا ہے۔ مولانا تحریک انصاف کا ہاتھ بھی تھامے ہوئے ہیں اور اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وہ ہاتھ چھڑانے نہ پائے۔ مولانا کے اس اسلوب نے اُن کے قد میں اضافہ تو کیا ہی ہے‘ ملکی سیاست کو بھی ہموار رکھنے میں مدد دی ہے۔ اگر مولانا کی جگہ عمران خان اور اُن کی جگہ مولانا ہوتے تو معاملہ کیا ہوتا‘ اس کا اندازہ ہر شخص خود لگا سکتا ہے۔
آئینی بینچ کے قیام پر اتفاقِ رائے نے ایک بڑی الجھن تو رفع کر دی ہے لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کا معاملہ ہنوز اُلجھا ہوا ہے۔ حکومتی اتحاد تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس بنانے کی تجویز پر مصر ہے۔ سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنانے کا تصور اُس کے لیے سوہانِ روح ہے۔ اُس تجویز کی منظوری کا مطلب یہ ہو گا کہ سینئر ترین جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس نہیں بننے دیا جائے گا۔ شاہ صاحب ایک روشن دماغ قانون دان ہیں لیکن تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے بارے میں انہوں نے جو فیصلہ دیا ہے اُس نے حکومتی اتحاد کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ طویل جدوجہد کے بعد اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے یہ بات کتابِ آئین کا حصہ بنائی گئی تھی کہ سینئر ترین جج ہی کو چیف جسٹس مقرر کیا جا سکے گا۔ یوں عدالت کو سیاست سے دور کر دیا گیا تھا لیکن پھر سیاست عدالت میں داخل ہو گئی۔ چیف جسٹس صاحبان نے اپنے دائرہ اختیار سے جس طرح تجاوز کیا‘ جسٹس افتخار چودھری سے لے کر ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال تک‘ اُس کی اپنی تاریخ ہے۔ آئین کی جو تشریحات اور تعبیرات ہمارے چیف جسٹس صاحبان فرماتے رہے ہیں‘ اُن سب کو یکجا کیا جائے تو بڑے بڑے مزاح نگاروں کی تحریریں اُن کے سامنے شرما جائیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے پہلی پیشی پر ہی آئین کی ایک ترمیم کو معطل کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا تو جسٹس ثاقب نثار نے چھاپہ مار جج کے طور پر اپنا نام تاریخ میں لکھوایا تھا۔ جسٹس افتخار چودھری نے پارلیمنٹ پر بندوق تان کر مرضی کی ترمیم کرائی تھی۔
ابتدائی طور پر جو مسودہ منظر عام پر آیا تھا‘ اُس میں اہلِ اقتدار کی خواہشات بے کراں تھیں‘ وہ دستور سے بڑے پیمانے پر چھیڑ چھاڑ کرتے نظر آ رہے تھے لیکن مشاورت کا سلسلہ جوں جوں دراز ہوا‘ معاملات میں تبدیلی آتی چلی گئی۔ اگر حکومت نے اپنی خواہشات کو محدود رکھا تو معاملات آگے بڑھ سکیں گے‘ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر حکومتی اتحاد کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنا پڑے گا‘ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے ارکان ''درآمد‘‘ کرنا پڑیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر اُس کے اپنے اثرات ہوں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے دورِ اقتدار میں کئی ایسی ترمیمات کی تھیں جن کے پیچھے وسیع اتفاقِ رائے موجود نہیں تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 1970ء کے انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ارکان نے خود کو پاکستان کی قومی اسمبلی قرار دے لیا۔ اس اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو بلا شرکتِ غیرے دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل تھی‘ اگر بھٹو مرحوم چاہتے تو اپنی مرضی کا دستور منظور کرا سکتے تھے لیکن انہوں نے آئین سازی کے لیے وسیع تر اتفاقِ رائے کی اہمیت کا احساس کیا اور 1973ء کا دستور تمام پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ صلاح مشورے کے نتیجے میں منظور کیا گیا۔ اسے ایک قومی دستاویز کی حیثیت حاصل ہو گئی‘ اسے جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے کئی سال تک معطل تو رکھا‘ اُس میں من مانی ترمیمات بھی کیں لیکن اسے منسوخ کرنے کی جرأت کسی کو نہیں ہوئی۔ آئین سازی کی مشق میں مبتلا ہو کر پاکستان دولخت ہو چکا تھا‘ اس لیے آئین کی حفاظت پر قوم کمر بستہ رہی اور اب تک ہے۔ 1973ء کا دستور پاکستان کے اتحاد اور سالمیت کی سب سے بڑی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ آئین کے نفاذ کے بعد بھٹو مرحوم نے کئی ترامیم منظور کرائیں‘ ان میں سے اکثر کو اپوزیشن جماعتوں نے قبول نہیں کیا اور ان کے خلاف احتجاج کرتی رہیں۔ ایک ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس صاحبان کی مدتِ ملازمت چار سال مقرر کر دی گئی۔ اگر وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جائیں تو بھی چیف جسٹس کے طور پر چار سال پورے ہونے تک وہ اپنے منصب پر فائز رہ سکتے تھے۔ اگر ریٹائرمنٹ کی تاریخ آنے سے پہلے اُن کے چار سال پورے ہو جائیں تو وہ سینئر ترین جج کے طور پر ملازمت جاری رکھنے کا حق رکھتے تھے۔ اُس ترمیم کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اقبال منصب چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے کہ اُن کے چار سال پورے ہو چکے تھے۔ انہوں نے سینئر جج کے طور پر کام جاری رکھنے کو اپنے وقار کے منافی جانا‘ سو استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب علی خان ریٹائرمنٹ کی تاریخ آنے کے باوجود ریٹائر نہیں ہوئے کہ بطور چیف جسٹس اُن کے چارسال مکمل نہیں ہوئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نے نافذ ہوتے ہی مذکورہ آئینی ترمیم کو منسوخ کر ڈالا (حالانکہ اُن کے پاس اِس کا کوئی حق یا اختیار نہیں تھا) جسٹس یعقوب علی خان گھر بھجوا دیے گئے تو سینئر ترین چیف جسٹس شیخ انوار الحق نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اُٹھا لیا۔
بیگم نصرت بھٹو نے مارشل لاء کے نفاذ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو سپریم کورٹ نے ملٹری کونسل کو آئین میں ترمیم کا اختیار اس لیے دیا کہ نئے چیف جسٹس کو منصب چھوڑنا نہ پڑے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو شیخ انوار الحق کی تقرری اور جسٹس یعقوب علی خان کی ریٹائرمنٹ پر خطِ تنسیخ پھر جاتا۔ دو تہائی اکثریت سے ہونے والی ترمیم کی یہ درگت بنائی گئی تو اُس پر پیپلز پارٹی کے مخالف سیاستدانوں اور وکیلوں نے پورے جوش وخروش سے تالیاں بجائیں۔ دو تہائی اکثریت کو سب کچھ سمجھ لینے والے یہ بھی سمجھ لیں کہ بعض اوقات بندوں کو گننے کے ساتھ ساتھ انہیں تولنا بھی ضروری ہو جاتا ہے‘ بے وزن افراد کی گنتی پوری کر لی جائے تو بھی میزان ڈانواں ڈول رہتی ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)