عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی رہا ہو کر براستہ پشاور لاہور پہنچ چکی ہیں۔ اُن پر کوئی نیا مقدمہ قائم نہیں کیا گیا‘ یوں اُنہیں سکون کا سانس نصیب ہوا ہے۔ خان صاحب کی دونوں بہنیں بھی چند روز جیل کی ہوا کھانے کے بعد رہا ہو چکی ہیں‘ اُنہیں عملی سیاست سے کوئی علاقہ نہیں‘ لیکن بھائی کی محبت نے اُنہیں بھی ''سیاسی‘‘ بنا دیا ہے۔ تحریک انصاف کے دیوانے کبھی بشریٰ بی بی کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی علیمہ خان اور اُن کی ہمشیرہ کی طرف۔ لطیف کھوسہ جیسے گرگِ باراں دیدہ کا اصرار ہے کہ عمران خان بشریٰ بی بی کو اپنا ''فوکل پرسن‘‘ مقرر کر دیں‘ اُن کی زبان سے بولیں اور اُن کے کانوں سے سنیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اس طرح اُن کی پارٹی کو یکسوئی نصیب ہو جائے گی۔ ساری عمر پیپلزپارٹی کی نذر کر دینے والے کھوسہ صاحب اگرچہ عمران خان کی غیر مشروط بیعت کر چکے ہیں تاہم ان کے اندر سے پیپلزپارٹی نہیں نکل پا رہی۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ بشریٰ بی بی کو محترمہ نصرت بھٹو بنا کر بالآخر تحریک انصاف کو پیپلزپارٹی بنانا چاہتے ہیں تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
بشریٰ بی بی اور 'عمران سسٹرز‘ کی پکّی رہائی نے اُن کے مخالفین کی نیندیں اُڑا دی ہیں۔ انہیں یہ ڈھیل کسی ڈیل کا نتیجہ دکھائی دے رہی ہے۔ علی امین گنڈا پور کی گھن گرج اس تاثر کو گہرا کررہی ہے۔ اُن کے ترجمان بیرسٹر سیف بھی یہ دُور (یا نزدیک) کی کوڑی لائے ہیں کہ ڈیل تو نہیں ہوئی‘ لیکن ''انڈرسٹینڈنگ‘‘ ضرور ہوئی ہے۔ مقتدر حلقوں کو تحریک انصاف کی سخت جانی کا احساس ہو گیا ہے تو تحریک کو مقتدر حلقوں کی طاقت کا‘ دونوں سمجھ رہے ہیں کہ اگر دریا میں رہنا ہے تو ایک دوسرے سے بیر نہیں رکھا جا سکتا۔ ویسے بھی دریا نیام تو ہوتا نہیں ہے کہ جس میں دو تلواریں نہ سما سکیں‘ اس کی وسعت میں دو تو کیا کئی مگر مچھ بآسانی سما سکتے ہیں۔ علی امین گنڈاپور اپنے جنگل میں دھاڑتے ہوئے بشریٰ بی بی کی رہائی کا کریڈٹ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اشارے بھی دے رہے ہیں کہ اب کرتب خان صاحب پر آزمایا جائے گا‘ بشریٰ بی بی کی طرح وہ بھی زمان پارک پہنچ جائیں گے:
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
یہ منظر ان لوگوں کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے جو خان صاحب کو تاحیات پس دیوارِ زنداں دیکھنا چاہتے ہیں‘ لیکن جو لوگ پاکستانی سیاست کو ہموار رکھنے کی آرزو رکھتے ہیں‘ ان کے لیے یہ خوشخبری ہے۔ آئین میں چھبیسویں ترمیم کی جا چکی ہے‘ ستائیسویں کی دھمکی دی جا رہی ہے ‘لیکن ایسا ہو یا نہ ہو‘ اہلِ اقتدار کے پائوں جم چکے ہیں۔ شہبازشریف پوری شدت سے معیشت کو مستحکم کرنے میں لگے ہیں‘ دوست ملکوں سے تعاون بڑھ رہا ہے‘ سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے‘ کہا جا رہا ہے کہ سکون کے چند مہینے انہیں میسر آ گئے تو وہ ملک کو بحران سے نکال لیں گے۔ دودھ اور شہد کی نہریں نہ بہا سکیں‘ پانی وافر مقدار میں موجود ہوگا جو کھیتوں کو دیا جا سکے گا‘ ارمانوں کی فصلیں اس سے لہلا سکیں گی۔
جمہوریت کا کمال یہ ہے کہ اس میں کسی شخص یا جماعت کا راستہ ہمیشہ کیلئے مسدود نہیں کیا جا سکتا۔ایک الیکشن ہارنے والے دوسرے الیکشن میں جیت کر آ سکتے اور کھویا ہوا وقار پھر حاصل کر سکتے ہیں۔ اگرعمران خان اپنے خلاف قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیتے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی طرح اُن کے ستارے بھی بگڑ کر سنور سکتے تھے لیکن اُنہوں نے اسمبلی سے استعفیٰ دے کر سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کر دیا‘ اپنے اقتدار کے خاتمے کو امریکی سازش کا نتیجہ قرار دیا اور احتجاج کرتے کرتے اس حد تک چلے گئے جس حد تک کوئی جاتا ہے تو واپس نہیں آ پاتا۔ گزشتہ دو برس میں خان صاحب اور ان کی جماعت کو جو کچھ بھگتنا پڑا ہے‘ وہ اس سے محفوظ رہ سکتے تھے‘ اگر پارلیمانی سیاست کے آداب و اطوار اپنائے رہتے۔ نہ اپنا بال بیکا ہوتا نہ کسی دوسرے کا۔
ہوا کا رُخ بتا رہا ہے کہ خان صاحب کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔ ان کے کئی حلقہ بگوش ڈونلڈ ٹرمپ سے توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ اپنے حریفوں کو ڈرا رہے ہیں کہ ٹرمپ جیتے تو خان کو جیل میں رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ امریکہ میں تحریک انصاف کے رہنما ڈونلڈ ٹرمپ کے پلڑے میں پورا پورا وزن ڈال کر خان کا مستقبل محفوظ بنانے کا جتن کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے بے باک ترجمان ساجد تارڑ اس خیال سے متفق نہیں ہیں‘ اُن کا کہناہے کہ ٹرمپ اگر جیت گئے تو اُنہیں اور بہت سے کام کرنا ہوں گے‘ پاکستانی سیاست میں دخل اندازی اُن کی اولین ترجیح نہیں ہو گی۔ اپنی گتھیاں پاکستانیوں کو خود ہی سلجھانا پڑیں گی۔ عمران خان کا اپنا مفاد اس میں ہے کہ وہ پاکستانی قوم کے ساتھ جڑے رہیں۔ اسی کو طاقت کا سرچشمہ سمجھیں۔ اب تک انہوں نے جو بھی حاصل کیا ہے‘ اس میں بڑا حصہ عوام کو متحرک رکھنے کی صلاحیت نے ادا کیا ہے‘ مستقبل میں بھی یہی ان کے کام آئے گی۔
عمران خان ہوں یا ان کے مخالف‘ سب کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے کہ ان کی طاقت جمہوری عمل سے وابستہ ہے۔ ہماری تاریخ پر جو بھی داغ لگے ہوں‘ ہم نے بحیثیت قوم جمہوریت سے اپنے آپ کو وابستہ رکھنا ہے۔چار مارشل لائوں کے تحت کئی عشرے گزارنے کے باوجود جمہوریت کی منزل نگاہ سے اوجھل نہیں ہوئی۔ ہمارے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی جمہوریت کی بحالی کے نام پر اپنے اقتدار کو پختہ کرتے رہے ہیں۔ اُنہوں نے بار بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ جمہوریت کو سیاستدانوں سے خطرہ لاحق تھا‘ وہ اس کا گلا گھونٹ رہے تھے‘ اس لیے ہم نے اُن کا گلا گھونٹ دیا۔ حقیقی اور پائیدار جمہوریت کی بحالی کو وہ بھی اپنا نصب العین قرار دیتے رہے ہیں۔ ان کی کارگزاری جو کچھ بھی ہو اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے اُنہوں نے جو بھی پاپڑ بیلے ہوں‘ جمہوریت نے قومی نصب العین کے طور پر اپنے آپ کو منوائے رکھا ہے۔پاکستانی معاشرے کو جمہوریت سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں‘ جمہوریت کی روح ہی یہ ہے کہ اقتدار کسی شخص یا جماعت یا گروہ کے لیے خاص نہیں ہو سکتا۔ایک مقررہ مدت (چار یا پانچ سال) کے بعد عوام کو اپنے حکمران منتخب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے‘ جو اہلِ سیاست یہ بات تسلیم نہیں کرتے یا اپنے عمل سے اس کی صداقت پر گواہ نہیں بنتے‘ وہ اور جو بھی ہوں‘ اور جو بھی کہلائیں‘ جمہوری نہیں ہو سکتے۔ ان کا انجام ماضی میں عبرتناک ہوا ہے اور مستقبل میں بھی ہو کر رہے گا‘ جو اس حقیقت کو نہیں سمجھے گا‘ وہ نشانِ عبرت بن جائے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)