سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے جو اختیارات پارلیمنٹ نے کم کیے تھے‘ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ متعارف کرایا تھا‘ ان پر ایک بار پھر نظرثانی کر دی گئی ہے۔ ایک صدارتی آرڈیننس نے مذکورہ ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے چیف جسٹس کو ان کا کھویا ہوا اختیار واپس کر دیا ہے۔ پاکستانی سیاست‘ عدالت اور تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ یہاں جب بھی کسی کو موقع ملا ہے اس نے اپنی حدود سے تجاوز کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھا ہے۔ پاکستان کا کوئی ادارہ بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے ہمیشہ آئینی حدود و قیود میں رہ کر کام کیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے تو مارشل لاء نافذ کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ''تہران ٹائمز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے برملا کہہ دیا تھا کہ آئین کیا ہے‘ کاغذ کا ایک ٹکڑا‘ گویا یہ ان کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتا۔ اُس وقت میرے زیرِ ادارت شائع ہونے والے ہفت روزے کا نام ''بادبان‘‘ تھا‘ اس کے اداریے میں اس بیان پر سخت تنقید کی گئی تھی اور واضح کیا گیا تھا کہ آئین کاغذ کا ٹکڑا نہیں‘ ایک مقدس دستاویز ہے۔ یہ گرفت تاریخ کا حصہ ہے اور جب بھی اس کی یاد آتی ہے میرا سر شکر سے اپنے رب کے حضور جھک جاتا ہے کہ اس نے انتہائی مشکل حالات میں اظہارِ رائے کی جرأت عطا کی۔ پاکستانی ریاست آئین سے کھلواڑ کا سخت نقصان اٹھا چکی ہے۔ اگر 1956ء کا دستور منسوخ نہ ہوتا تو پاکستانی ریاست کو 1972ء کا صدمہ برداشت نہ کرنا پڑتا۔ صدرِ پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا نے اپنے آرمی چیف کے ساتھ مل کر دستور کو منسوخ کر ڈالا اور نو سال کی محنت شاقہ کے بعد ترتیب پانے والی اس دستاویز سے ملک کو محروم کر دیا جسے ڈھاکہ سے کراچی اور پشاور تک تسلیم کیا جا چکا تھا۔ نتیجتاً صدر اسکندر مرزا سب سے پہلے نشانِ عبرت بنا ڈالے گئے۔ ان کی طاقت کا سرچشمہ دستور کے اندر سے پھوٹتا تھا‘ جب دستور ہی نہ رہا تو وہ مشتِ خاک بن کر رہ گئے‘ جنہیں فوجی افسران نے چٹکیوں میں اڑا دیا۔ جنرل ایوب خان نے ملک کو ایک نیا آئین دیا جو ان کی ذات کے گرد گھومتا تھا۔ سیاسی جماعتوں کی بھاری تعداد نے اسے تسلیم نہ کیا اور اس کے خلاف مورچہ زن ہو گئیں۔ ایک دن ایسا آیا کہ ایوب خان جو فیلڈ مارشل بن چکے تھے‘ فیلڈ چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ان کے نامزد کردہ کمانڈر انچیف نے ان کے ساتھ وہی کیا جو انہوں نے اپنے باس (صدر اسکندر مرزا) کے ساتھ کیا تھا۔ ان کے اقتدارکا پشتیبان بننے سے انکاری ہو گئے تو فیلڈ مارشل نے اپنا تھوکا خود چاٹا‘ یعنی اپنے نافذ کردہ دستور کو منسوخ کرتے ہوئے جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سونپ دیا۔ جنرل یحییٰ نے 1956ء کے آئین کی بحالی کے مطالبے پر کوئی توجہ نہ دی اور قوم کو پھر آئین سازی کے بخار میں مبتلا کر دیا۔ نفرتوں اور کدورتوں کے سانچے میں ڈھلنے والے سیاسی رہنما کسی دستوری سکیم پر متفق نہ ہو سکے‘ نتیجتاً وہ کچھ ہوا جو ہماری تاریخ کا ایک انتہائی المناک باب ہے۔ بھارت کو فوجی مداخلت کا موقع ملا اور اس نے عوامی لیگ کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش تخلیق کر ڈالا... آج کا بنگلہ دیش اگرچہ تاریخ کو درست کرنے میں لگا ہوا ہے‘ وہاں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی خواہش زور پکڑ رہی ہے لیکن یہ تفصیل پھر کسی وقت بیان کی جائے گی‘ فی الحال یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ اگر پاک سرزمین کو بے آئین نہ بنایا جاتا تو ہمیں 16دسمبر کا مکروہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔
مغربی پاکستان کے چار صوبوں نے اپنے آپ کو 'نیاکستان‘ کا نام دیا اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زیر قیادت 1973ء کا وہ دستور تخلیق کیا جو آج بھی نافذ العمل ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاؤں کو جسے منسوخ کرنے کی جرأت نہیں ہو سکی‘ وہ اسے معطل کرتے رہے‘ اس میں من مانی ترامیم بھی کر گزرے لیکن ان کا کیا دھرا بالآخر پارلیمنٹ کی منظوری کا محتاج ٹھہرا‘ گویا زخموں پر مرہم لگا دی گئی۔
اب جو دستور ہمارے سامنے ہے اس میں ترامیم کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ سے الگ ایک وفاقی آئینی عدالت تخلیق کرنے کا دعویٰ ہے جو آئینی امور سے متعلق مقدمات سنے گی‘ سپریم کورٹ فوجداری اور سول مقدمات کی اپیلوں کے لیے مختص ہو گی۔ کہا جا رہا ہے کہ ایسی وفاقی عدالتیں دنیا کے کئی ممالک میں قائم ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اٹھارہ برس پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف نے جس ''میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط کیے تھے‘ اس میں اس عدالت کی تشکیل پر اتفاق کیا گیا تھا۔ بعد ازاں کئی دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس کی تائید کرتی رہیں‘ بلاول بھٹو زرداری اس موقف کی پُرزور وکالت کررہے ہیں‘ اصولاً ان سے اختلاف کرنے والے کم ہیں لیکن اس موضوع پر وسیع تر اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ آئین کسی ایک سیاسی جماعت یا حکومت کے لیے نہیں ہوتا‘ یہ ایک ابدی دستاویز ہے‘ اس لیے بلاسوچے سمجھے اس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جانی چاہیے۔ بات پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے شروع ہوئی تھی‘ اس لیے اس پر واپس چلتے ہیں۔ چند ماہ کے اندر ہی حکومت کو اس میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوئی‘ چیف جسٹس سے بینچ بنانے کا جو اختیار واپس لے کر ان کی سربراہی میں قائم ججوں کی کمیٹی کو دیا گیا تھا‘ اسے لوٹانا پڑ گیا۔ تین رکنی کمیٹی میں چیف جسٹس کے ساتھ سینئر ترین جج تو شامل رہیں گے لیکن تیسرا رکن وہ اپنی مرضی کے مطابق نامزد کر سکیں گے۔ پارلیمنٹ کی سادہ اکثریت اسے منظور بھی کر لے گی یا ہو سکتا ہے کہ اسے اپنی موت آپ مرنے دیا جائے‘ پارلیمنٹ میں پیش ہی نہ ہو اور یوں کتابِ قانون سے چلتا ہو جائے کہ نئے چیف جسٹس کو یہ سہولت فراہم کرنا ضروری نہ سمجھا جائے... بہرحال یہ سب بعد کی باتیں ہیں‘ فی الحال یہ عرض کرنا مطلوب ہے کہ دستور میں عام قانون کی طرح ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جا سکتی‘ اگر موجودہ حکومت اپنے ہی نافذ کردہ ایک قانون میں چند ماہ کے اندر تبدیلی کرنے پر مجبور ہو گئی ہے تو اندھا دھند کی جانے والی دستوری ترامیم بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں... جماعتی یا حکومتی مصلحتوں یا ضرورتوں سے بالا تر ہو کر سوچنے ہی سے قومیں توانا ہوتی اور آگے بڑھ سکتی ہیں۔ 1973ء کا دستور خود اس پر گواہ ہے‘ اس کی تخلیق کرنے والا جذبہ سلامت رہا تو سب سلامت رہیں گے ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)