اسلام آباد میں 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کا براہِ راست تعلق معاشی سکیورٹی سے ہے۔ بلاشبہ پاکستان آہستہ آہستہ درست سمت میں جا رہا ہے‘ معاشی طور پر مضبوط ہونے کی بدولت ہماری نیشنل سکیورٹی از خود بہتر ہو جائے گی۔ نیشنل سکیورٹی ورکشاپ ایک اعلیٰ سطحی پروگرام ہے‘ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی جس کا انعقاد کرتی ہے۔ اس ورکشاپ کا مقصد ملک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو قومی سلامتی کے امور‘ چیلنجز اور پالیسی سازی کے عمل سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ میں راقم الحروف کو بھی شرکت کا موقع ملا‘ جو میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اس ورکشاپ میں اس عزمِ کا اعادہ کیا گیا کہ ملک کی ایٹمی ٹیکنالوجی اور دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کا مقصد قومی سلامتی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا اور پاکستان کو دفاع کے حوالے سے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی تیار کرنا ہوتا ہے۔ اس کے اہم موضوعات میں قومی سلامتی کے اندرونی و بیرونی چیلنجز‘ دفاعی سٹریٹجی‘ خارجہ پالیسی‘ معاشی سکیورٹی‘ دہشت گردی و انسدادِ دہشت گردی شامل ہوتے ہیں۔ ورکشاپ کے شرکا کو پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے حوالے سے ایک جامع نقطۂ نظر فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ قومی مفادات کے تحفظ میں بہتر کردار ادا کر سکیں۔
حالیہ ورکشاپ میں اراکینِ پارلیمنٹ‘ بیورو کریٹس‘ مسلح افواج کے افسران‘ سفارت کار اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک ہوئے تھے۔ قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے حکومتیں سفارت کاری کے ساتھ سیاسی‘ اقتصادی اور فوجی طاقت سمیت حکمت عملی پر انحصار کرتی ہیں۔ اس ضمن میں ملک کے مختلف طبقات سے مشاورت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے تاکہ ان کے مشوروں کی روشنی میں قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے قدامات کیے جا سکیں۔ قومی سلامتی کسی ملک کی حکومت کی اپنے شہریوں‘ معیشت اور دیگر اداروں کی حفاظت کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ قومی سلامتی کی کچھ غیرفوجی سطحوں میں اقتصادی سلامتی‘ سیاسی سلامتی‘ توانائی کی حفاظت‘ ہوم لینڈ سکیورٹی‘ سائبر سکیورٹی اور ماحولیاتی تحفظ شامل ہیں۔ چنانچہ قومی سلامتی ورکشاپ میں قومی سلامتی پالیسی کا بنیادی فریم ورک ہی اس کا محور ہوتا ہے اور خاص طور پر قومی سلامتی کے غیرروایتی پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے۔ ورکشاپ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ تمام شرکا کے درمیان بغیر کسی استثنا کے وطنِ عزیز میں چیزوں کو درست کرنے کی خواہش اور امید کا اظہارکیا جاتا ہے۔ حیران کن طور پر ہر کوئی ملکی مسائل سے واقف ہے‘ عام طور پر ان کا حل بھی سب جانتے ہیں‘ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ در پیش مسائل کو حل کون کرے گا؟ پارلیمنٹرین سے لے کر سول سوسائٹی کے نمائندوں تک‘ سبھی ایک دوسرے سے استفسار کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر قسم کے قدرتی وسائل سے نوازا ہے لیکن بحیثیت قوم ہم اپنے وسائل کا بہتر انتظام نہیں کر سکے۔ اس لیے اصل سوال یہ نہیں کہ ہمارے پاس کتنے وسائل ہیں بلکہ یہ ہے کہ ان وسائل کو منظم کرنے اور قومی تعمیر و ترقی میں استعمال کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسے ادارے بنائیں جہاں نظام شخصیات سے زیادہ مضبوط ہوں نہ کہ اس کے برعکس صورتحال ہو۔ اس مقصد کے لیے ریاستی اداروں کی De-Politicizationیعنی سیاسی عدم مداخلت‘ پہلا اور اہم ترین قدم ہے۔ ترجیحی اداروں میں عدلیہ‘ پولیس‘ بیوروکریسی‘ الیکشن کمیشن اور پبلک انٹرپرائزز وغیرہ شامل ہیں۔
ریاستی اداروں کے اندر شفافیت اور احتساب کا نظام کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح ریاست اور عوام کے درمیان سماجی معاہدے کو مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں قانون کی حکمرانی (جلد اور مساوی انصاف کی دہلیز پر فراہمی‘ جان و مال کی حفاظت) اور عام شہریوں کی معاشی بہبود وہ کلیدی تقاضے ہیں جنہیں کسی بھی چیز سے پہلے‘ حتیٰ کہ صحت و تعلیم سے بھی پہلے ترجیحی طور پر پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ کی بہتر کارکردگی اور معیار انتہائی اہم ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے آہنی سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔یہ خواہشات ایسے سیاسی ماحول میں ہی پروان چڑھ سکتی ہیں جب تمام سیاسی قوتیں واضح طور پر سمجھتی ہوں کہ ان کی سیاسی بقا کا انحصار ان کی کارکردگی (عوام کی خدمت) پر ہے نہ کہ مصنوعی معاونت کے طریقہ کار پر۔ لہٰذا سیاسی قوتوں کو اپنی بقا کے لیے ہمیشہ عوامی حمایت (ووٹ کی طاقت) کی طرف دیکھنا چاہیے نہ کہ کہیں اور۔ سوال یہ ہے کہ ایسا سازگار سیاسی ماحول کیسے حاصل کیا جائے؟ ماضی میں کی گئی ناقص حکمت عملیوں اور غلطیوں کے ازالے کیلئے‘ تمام ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں سازگار سیاسی ماحول کی فراہمی کیلئے آئینی حدود میں عدم مداخلت کی پالیسی پر قائم رہیں‘ تاہم اس کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن کو امیدواروں کے لیے طے شدہ ضابطہ اخلاق اور متعلقہ جانچ پڑتال کے طریقہ کار پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہوگا۔ قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے‘ یہ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کی رائے عامہ تشکیل دے اور اس کا استحصال نہ ہونے دے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے میڈیا کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔میڈیا محض ایک کاروبار نہیں ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ لہٰذا ریاست کو میڈیا کو منظم کرنے کے لیے موثر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ پاکستانیوں کیلئے ایک پُرامن ماحول کا دارو مدار معاشی ترقی اور بلند معیارِ زندگی پر ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس حالات کو بدلنے کی طاقت اور ذمہ داری ہے‘ کیا ان سے کسی تبدیلی کی توقع رکھنا حقیقت پسندانہ فعل ہے؟ کیا ملکی مسائل کا حل ملک کی سیاسی قیادت کے پاس ہے؟ اگر ان مسائل کا حل سیاسی قیادت کے پاس موجود نہیں تو ایسا اچھی سیاسی قیادت کے خلا کی وجہ سے ہے۔ دیکھا جائے تو سیاسی قیادت آئینی طریقہ کار کے بجائے ہمیشہ دیگر قوتوں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی خواہاں رہی ہے‘ اسی وجہ سے یہ خلا پیدا ہوتا ہے۔ کسی بھی مہذب‘ جدید اور جمہوری ملک کی سیاسی قیادت کی طرح‘ ہماری سیاسی قیادت کو بھی اپنے اندر ملکی آئین کی طرف سے تفویض کردہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی سیاسی‘ سماجی اور معاشی قیادت کا تعلق ملک کے اندر سے ہو‘ نہ کے اسے باہر سے درآمد کیا جائے۔ بدلتے عالمی اور علاقائی منظر نامہ کے تناظر میں ضروری ہو گیا ہے کہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کے ایک مستقل عہدے کا قیام عمل میں لایا جائے‘ جس کا مقصد وزیراعظم سیکرٹریٹ میں رابطہ کاری کے فرائض انجام دینا ہو۔ جو ایک واچ ڈاگ کے طور پر بھی کام کرے۔ اس ضمن میں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کو بھی باقاعدہ اَپ ڈیٹ ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے نیشنل سکیورٹی ڈویژن کی استعداد کار کو بڑھانا بھی وقت کا اہم تقاضا ہے تاکہ یہ قومی پالیسی سازی میں زیادہ مؤثر‘ تعمیراتی اور مشاورتی کردار ادا کر سکے۔
بہر حال‘ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے عوام میں شعور پیدا کیا جائے‘ انہیں اس سلسلے میں اپنے فرائض و ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے تیار کیا جائے کیونکہ نیشنل سکیورٹی کسی ایک ادارے یا حکومت کی نہیں بلکہ پوری قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔