چین کی سفارتکاری امریکہ کیلئے درد سر

امریکہ اپنی طاقت کا لوہا منوا کر عالمی سیاست اور سفارتکاری میں چھ عشروں سے مرکزی یا کلیدی کردار ادا کرتا آرہا ہے۔ اب لیکن عالمی سطح پر طاقت کا توازن تیزی سے تبدیل ہوتا جا رہاہے اور چین کی اقتصادی و دفاعی ترقی نے امریکہ جیسی 'سپر پاور‘ کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس میں دو آرا نہیں کہ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی افریقہ میں وسیع سرمایہ کار ی اور اپنے پُرامن کردار کی وجہ سے دنیا کی بڑی معاشی قوت کے طور پر ابھرنے والا چین امریکہ کیلئے چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی سٹریٹجی 2022ء کے مطابق چین امریکہ کا بڑا حریف بن چکا ہے۔ اگرچہ امریکہ کو اقتصادی‘ عسکری اور تکنیکی طور پر چین پر برتری حاصل ہے لیکن بین الاقوامی منڈیوں میں چین کا بڑھتا ہوا غلبہ‘ بحیرہ جنوبی چین میں چینی فوج کی موجودگی اور تکنیکی ترقی امریکہ کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ چین کے بڑھتے اثر و رسوخ سے خائف امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے اتحایوں کی مدد سے دو براعظموں میں شطرنج کی الگ الگ بساط بچھا رہا ہے ۔ AUKUS اور QUAD جیسے اتحاد امریکہ کی چین کے خلاف اختیار کی گئی Strategy of Disruption کے تحت تشکیل دیے گئے ہیں۔ لیکن درحقیقت چین نے کمال حکمت عملی سے موجودہ بین الاقوامی سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے اور میکانزم کو استعمال کیا اور عالمی سطح پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔امریکہIndo-Pacific Strategy کے تحت سفارتی طور پر مختلف محاذوں پر چین کے اقدامات کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے چین پر غیرقانونی تجارتی طریقوں میں ملوث ہونے‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘ Intellectual property کو چرانے اور علاقائی توسیع پسندانہ عزائم رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ امریکہ چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور اقوامِ متحدہ میں شمولیت میں رکاوٹیں ڈالنے کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا میں آسیان ریاستوں فلپائن‘ تھائی لینڈ‘ سنگاپور‘ میانمار‘ لاؤس اور ویتنام کے ساتھ تعاون کرتا رہاہے۔ خاص طور پر امریکی کمپنیوں کو خطے کے وسیع وسائل تک رسائی کی اجازت دینے کے لیے میانمار پر سے امریکی پابندیاں ہٹا دی ہیں۔
امریکہ دنیا میں امن و امان کے قیام کے لیے چین کے مصالحتی کردار کو سراہنے کے بجائے مسلسل نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ چین ایران اور سعودی عرب میں بھی مصالحت کرا چکا ہے۔ روس یوکرین جنگ کا حل بھی تجویز کر چکا ہے اور فلسطینی تنازع کے حل کیلئے بھی تجویز پیش کر چکا ہے؛ تاہم امریکہ نے چین کی جانب سے کیے گئے ان امن اقدامات پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ چین کی ٹیکنالوجی میں ترقی کے خلاف امریکہ نے یہ مؤقف اختیار کیا ہوا ہے کہ چینی ٹیکنالوجی سے امریکی نیشنل سکیورٹی کو خطرہ ہے۔ امریکہ نے چین کی تکنیکی ترقی‘ بالخصوص مصنوعی ذہانت‘ سائبر سکیورٹی اور 5G وائرلیس نیٹ ورکس کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ امریکہ نے اپنی کمپنیوں کی مسابقتی صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے چین کی کئی مشہور ٹیک فرمز پر اپنے ہاں پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکہ چین کی ٹیکنالوجی انڈسٹری‘ بالخصوص سیمی کنڈکٹر اور مائیکرو چپس انڈسٹری کی مینو فیکچرنگ صلاحیتوں کو محدود کرنے کے لیے کڑی نگرانی رکھے ہوئے ہے۔ اس وقت تائیوان اور جنوبی کوریا دنیا میں سب سے زیادہ مائیکرو چپس تیار کر رہے ہیں جبکہ امریکی مینوفیکچرنگ 37فیصد سے کم ہو کر 10 فیصد رہ گئی ہے۔ امریکہ نے چین کی مینوفیکچرنگ محدود رکھنے کے لیے اپنے ہاں چینی مائیکرو چپس‘ جس میں 128لیئرز سے زیادہ کی NANDفلیش میموری اور 14-16nm سے نیچے کی ٹیکنالوجی جنریشن والے لاجک سرکٹس شامل ہیں‘ پر پابندی لگا دی ہے۔ کورونا سے پہلے اور بعد کی چین کی اقتصادی نمو کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کی چینی معیشت کو محدود کرنے کی حکمت عملی کسی حد تک کامیاب ہو رہی ہے۔ 2019ء میں چین کی اقتصادی شرح نمو چھ فیصد تھی‘ 2020ء میں یہ کم ہو کر 2.2فیصد رہ گئی۔ 2021ء میں یہ بہتر ہو کر 8.4فیصد تک پہنچ گئی‘ 2022ء میں یہ پھر تین فیصد رہ گئی اور 2023ء میں بہتر ہو کر 5.2فیصد پر پہنچ گئی۔ چین کی اقتصادی شرح نمو میں یہ اتار چڑھاؤ مغربی اور مشرقی خطوں کے درمیان ترقیاتی خلا کو نمایاں کرے گا۔
امریکہ اُن علاقوں میں اپنی فوجی موجودگی اور اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے جہاں جہاں چین اپنی سرمایہ کاری اور فوجی طاقت بڑھا رہا ہے‘ جیسے ایشیا پیسفک‘ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ۔ چین نے 2017ء میں جبوتی میں اپنی پہلی فوجی بیس اور استوائی گنی میں بحری اڈا قائم کیا۔ جس کے بعد سے امریکہ نے استوائی گنی کے قریب واقع افریقی ریاستوں کے ساتھ تعاون بڑھا دیا ہے۔ چین افریقی ریاستوں کا سب سے بڑا اقتصادی پارٹنر بن کر سامنے آیا ہے اور 2021ء میں چین کی افریقی ممالک کے ساتھ تجارت کا حجم 254ارب ڈالر تھا۔ دوسری طرف امریکہ افریقی ملکوں میں ٹیلی کمیونیکیشن‘ ایگرو پروسیسنگ اور انفراسٹرکچر کے چینی منصوبوں کو ختم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ امریکہ نے آسٹریلیا‘ جاپان‘ انڈونیشیا‘ جنوبی کوریا‘ فلپائن‘ ویتنام‘ ملائیشیا اور سنگاپور کے ساتھ انڈو پیسفک سٹریٹجی 2020ء کے تحت باقاعدہ فوجی مشقوں کے ذریعے سکیورٹی تعلقات مضبوط کیے ہیں۔ امریکہ نے 2020ء میں اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے 60فیصد جنگی جہاز ایشیا پیسفک میں تعینات کرے گا جس سے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ امریکہ نے 2021ء میں تائیوان کو جدید فوجی ساز و سامان فراہم کیا تاکہ وہ جنوبی چین سمندر میں چین کا مقابلہ کر سکے۔ اس کے ساتھ آسٹریلیا‘ بھارت‘ امریکہ اور جاپان کے درمیان چین کی عالمی رسائی کا مقابلہ کرنے کے لیے سکیورٹی مذاکرات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ امریکہ شمالی فلپائن میں چار نئی ملٹری بیس بنا رہا ہے کیونکہ یہ امریکی افواج کو جنوبی چین اور تائیوان کے قریب اس کی فورسز کو اتارنے کیلئے گراؤنڈ فراہم کرے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء اور 2019ء میں ٹریڈ ایکٹ 1974ء کے سیکشن 301کا استعمال کرتے ہوئے چین پر پابندیاں عائد کیں‘ جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ چھڑ گئی اور چین کی امریکہ کو برآمدات 22فیصد سے کم ہو کر 18 فیصد رہ گئیں۔ بدلے میں چین نے بھی امریکہ سے ہونے والی درآمدات کو 22فیصد سے کم کرکے 18فیصد تک محدود کر دیا۔ امریکہ نے ایغور کے حوالے سے پروپیگنڈا کرتے ہوئے لیبر ایکٹ کے تحت سنکیانگ سے درآمدات پر پابندی عائد کر دی۔ اب امریکہ فوسل فیول سے قابلِ تجدید توانائی کی طرف ٹرانزیشن میں مسائل پیدا کرنے کے لیے اہم چینی سپلائی چینز کو کنٹرول کرنے میں مصروف ہے۔ جنوبی ایشیا میں سی پیک امریکی نشانے پر ہے اور یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ چین اپنے معاشی تسلط کے قیام کے لیے 'سی پیک‘ کے ذریعے پاکستان سمیت دیگر ملکوں کو اپنے قرضوں کے جال میں پھنسا رہا ہے۔ خطے میں بھارت سی پیک کا سب سے بڑا مخالف ہے کیونکہ اس منصوبے کی کامیاب تکمیل سے نہ صرف چین کی خطے میں پوزیشن مضبوط ہو گی بلکہ اس سے پاکستان بھی ایک مضبوط اقتصادی کھلاڑی بن سکتا ہے جس سے خطے میں بھارتی کردار اور امریکہ کی عالمی پوزیشن کو نقصان پہنچے گا۔ جبکہ سری لنکا اور پاکستان میں حالیہ سیاسی اور اقتصادی بحران اور ایران اور افغانستان میں عدم استحکام کو امریکہ کی Strategy of Disruption کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ چین کے خلاف امریکہ کی Strategy of Disruptionکا انجام کیا ہوگا؟ آج امریکہ کو پہلے کی نسبت زیادہ طاقتور چین کا سامنا ہے۔ اگر اس نے گرم یا سرد جنگ چھیڑی تو ممکن ہے کہ تایخ کا پہیہ الٹ چل جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں