"IYC" (space) message & send to 7575

معیشت: حکومت کیا کرے؟ … (آخری)

یہ سالِ رواں کا آخری کالم ہے اور میں اُس بحث کو سمیٹنے کی کوشش میں مصروف ہوں جو کم از کم 15کالموں پر محیط ہے۔ ان کالموں میں مَیں نے یہ نتیجہ اخذ کرنے اور ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کہ کیسے ملک کے معاشی معاملات کو استحکام بخشا جا سکتا ہے؟ خوراک میں خود کفالت کی منزل کیسے ملے گی؟ برآمدات کو بڑھایا اور درآمدات کو کم کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ملکی و غیرملکی قرضوں سے نجات کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟ عام آدمی کے حالات کیسے بدلے جا سکتے ہیں؟ مہنگائی پرکیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ اور خوشحالی و آسودگی کی منزل تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟ جیسا کہ پہلے عرض کیا اور جو میری سمجھ میں آتا ہے‘ یہ ہے کہ زرعی سیکٹر پر فوری اور بھرپور توجہ مبذول کی جائے‘ خوراک میں خود کفالت کی منزل تک پہنچا جائے اور یوں حقیقی ترقی کی راہ پر پہلا قدم بڑھایا جائے۔
اقتصادی لحاظ سے فوری نتائج دینے والا ایک شعبہ آئی ٹی سیکٹر ہے۔ 18نومبر کی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں پاکستان کی آئی ٹی برآمدات ایک ارب 20کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی تھیں۔ پاکستان کی آئی ٹی برآمدات امسال اکتوبر میں 33کروڑ ڈالر رہیں‘ جو ستمبر سے 13فیصد زائد تھیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کا آئی ٹی کا شعبہ گزشتہ 12مہینوں سے اوسطاً ماہانہ تقریباً 29کروڑ ڈالر کی خدمات برآمد کر رہا ہے۔ برآمدات میں اضافے کے ساتھ پاکستانی کمپنیوں نے اپنے عالمی کلائنٹس کی تعداد بھی بڑھائی ہے۔ نومبر میں ماہرین نے توقع ظاہر کی تھی کہ آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات بڑھنے کا مثبت رجحان مالی سال 2025ء میں بھی جاری رہے گا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کی آئی ٹی برآمدات کا حجم رواں مالی سال کے دوران دس سے پندرہ فیصد بڑھے گا‘ یوں پاکستان کی آئی ٹی برآمدات ساڑھے تین سے پونے چار ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ حکومت اگر توجہ دے تو یہ حجم مزید بڑھ سکتا ہے۔ زرِ مبادلہ کے قومی ذخائر میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے درآمدات پر کنٹرول زرِ مبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے یا بڑھانے کے لیے تو ایک اچھا اقدام ہو سکتا ہے لیکن اس سے برآمدات سمیت کئی شعبے متاثر بھی ہو رہے ہیں۔ ان اثرات سے بچنے کے لیے حکومت کو ناگزیر اشیا کی درآمد کی اجازت دیتے ہوئے لگژری اور پُرتعیش اشیا کی درآمد پر فوری اور مکمل پابندی عائد کر دینی چاہیے۔ درآمدات کو کنٹرول کرنا اور برآمدات کو بڑھانا یقینا قومی معیشت کے فروغ‘ مضبوطی اور استحکام کے لیے بے حد ضروری ہے۔ عیاشی کے طور پر استعمال ہونے والی گاڑیوں‘ قالینوں‘ چاکلیٹ‘ سگریٹس‘ سگار‘ کاسمیٹکس‘ جوتے‘ فرنیچر‘ گھریلو استعمال کی چیزیں‘ آئس کریم‘ جیولری‘ کلائی والی گھڑیاں اور ایسی ہی دوسری چیزیں درآمد کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ کیا ان کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا؟ ایک زمانے میں بھارت میں سفر کے لیے صرف مقامی طور پر بنی بسیں استعمال کی جاتی تھیں۔ آج بھارت میں ہر سال تقریباً 12لاکھ الیکٹرک گاڑیاں فروخت ہو رہی ہیں۔ وہاں گزشتہ 10سالوں میں مسافر گاڑیوں کی فروخت میں 60فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ بھارت میں موٹر سائیکل کی فروخت میں بھی 70فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں بھی سادگی کی ایسی ہی مثالیں قائم کرنا پڑیں گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام تو سادگی اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ بے تحاشا بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے وہ اس قابل ہی نہیں رہے کہ کوئی عیاشی کر سکیں‘ لیکن حکمران طبقہ‘ جسے اشرافیہ کہا جاتا ہے‘ اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ جنوری 2023ء کی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں جس میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت کی حکومت نے مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں 2200لگژری گاڑیاں درآمد کرنے کی اُس وقت اجازت دی جب ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پہ کھڑا تھا اور اسے اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر قائم رکھنے کے لیے ایک ایک ڈالر کی ضرورت تھی۔ مئی 2024ء میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ گزشتہ دس ماہ میں پاکستان کے درآمدی بل میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ منگوائی گئی زیادہ تر اشیا لگژری آئٹمز میں شمار ہوتی ہیں‘ جیسے مہنگے موبائل فونز‘ کاریں‘ اور کھانے پینے کی مخصوص اشیا۔ وفاقی ادارۂ شماریات کے مطابق تب 1932ارب روپے کی اشیائے خورو نوش درآمد کی گئیں۔ 414ارب روپے مالیت کے موبائل فون درآمد کیے گئے اور 155ارب روپے کی چائے پتی درآمد کی گئی۔ اس مختصر عرصے میں کاروں کی درآمد میں 255فیصد اضافہ ہوا اور 207.5ملین ڈالر کی کاریں جبکہ 597.7ملین ڈالر کے پرزہ جات درآمد کیے گئے۔ ان اعداد و شمار سے لگتا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہو جانے کی نہج کو پہنچ چکا تھا یا پہنچ رہا ہے؟ محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکمران سادگی اختیار کرنے اور قومی معیشت کو مستحکم کرنے‘ دونوں حوالوں سے سنجیدہ نہیں ہیں۔ انہیں ریونیو اکٹھا کرنے کا بس ایک ہی طریقہ آتا ہے کہ جو پہلے سے پوری ایمان داری سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں اُنہیں سے مزید ٹیکس کشید کیے جائیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟
معیشت کو مستحکم کرنے کا ایک طریقہ آبادی پر کنٹرول بھی ہے۔ پاکستان کی سالانہ ترقی کی رفتار مختلف وجوہات کی بنا پر پہلے ہی سست ہے۔ آبادی میں اضافہ اس سے زیادہ تیزی سے ہو رہا ہو تو نئے پیدا ہونے والے وسائل نئی پیدا ہونے والی آبادی کھا جاتی ہے اور پوری قوم کی سارے سال کی کاوشوں کا نتیجہ صفر برآمد ہوتا ہے۔ پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری میں کل آبادی 241.49ملین بتائی گئی ہے‘ جو 2.55فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ اس شرح سے دیکھیں تو آبادی میں تیزی سے اضافہ اور وسائل میں تیزی سے کمی پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ بن چکا ہے اور یہ آنے والے برسوں میں مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ ایک زمانے میں ملک میں خاندانی منصوبہ بندی جیسے پلان مرتب کیے جاتے تھے‘ ان کی اب کیا صورت ہے‘ کچھ معلوم نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک ہفتہ وار پروگرام 'سُکھی گھر‘ کے عنوان سے نشر کیا جاتا تھا جس میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے بتائے جاتے تھے۔ اسی عنوان سے ایک رسالہ بھی شائع ہوتا تھا جس میں معروف مصنفین کی تحریریں بھی شامل ہوتی تھیں۔ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وسائل میں اضافے کی رفتار وہ نہیں۔ یہ سارا عمل کولہو کے بیل کی طرح گول گول گھومنے جیسا لگتا ہے۔
اور آخری بات یہ کہ مختصر مدت کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ طویل مدت کے پروگرام بھی مرتب کرنا ہوں گے کیونکہ آج اگر ہم ایک یا دو دہائیاں آگے کی ضروریات کے بارے میں ٹھوس سوچ بچار نہیں کریں گے تو وقتی اقدامات محض وقتی ضروریات پوری کرنے کا ہی سبب بنیں گے۔ ان سے لمبی مدت کے لیے ملک یا قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اگر ملک میں ایک بڑا ڈیم بنانا حالیہ اور آنے والے وقت کی ضرورت ہے تو اس ضرورت کو محض یہ سوچ کر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے‘ تب تک ہماری حکومت نہیں ہو گی۔ حکومت کی جانب سے سادگی اختیار کرنے کے بہت دعوے کیے گئے‘ لیکن حقائق اس کے برعکس صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ آخری اور حتمی سوال اور سوال میں چھپا ہوا جواب یہ ہے کہ اگر حکمران ہی وعدہ خلافی کریں گے اور ملک کے بارے میں ٹھوس خلوص کا اظہار نہیں کریں گے تو عوام سے بھی اس کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جیسے عوام ویسے حکمران‘ میں یہ کہوں گا کہ جیسے حکمران ویسے عوام۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں