کالم لکھنے بیٹھا تو یاد آیا کہ آج قائداعظم کا یومِ پیدائش ہے۔ ارادہ تھا معیشت پر کالم کی آخری قسط لکھنے کا‘ لیکن سوچا کہ آزادی کے 77 برسوں میں ہم نے اپنے ملک کا جو حال کر دیا ہے اور معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے ہم جس مقام پر کھڑے ہیں‘ اس پر ہمیں اپنے ماضی کے ماہ و سال‘ اپنے اسلاف‘ تحریک آزادی میں حصہ لینے والوں اور آزادی کے بعد ہجرت کے دوران اپنی جانوں اور اپنے اثاثوں کی قربانیاں دینے والوں کے سامنے جوابدہ تو ہونا ہی پڑے گا۔ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں‘ پرسوں نہیں تو اگلے ہفتے‘ اگلے ہفتے نہیں تو اگلے مہینے یا اگلے سال یا اگلی دہائی میں یا اگلی ربع صدی میں یا اگلی نصف صدی میں یا اگلی ایک صدی میں‘ ہمیں ایک نہ ایک دن‘ کسی نہ کسی طور اپنا احتساب تو کرنا ہی پڑے گا‘ تو کیوں نہ آج ہی سوال اٹھا لیا جائے کہ ہمیں جوابدہ تو ہونا ہی ہے۔ دوسروں کو نہ بھی جوابدہ ہوں تو خود کو تو ہونا ہے۔
پاکستان جب قائم ہوا تو اس کے مالی حالات یقینا اچھے نہیں تھے۔ تقسیم کے حوالے سے پاکستان کے حصے میں جو وسائل اور اثاثے آتے تھے‘ بھارت نے وہ پاکستان کے حوالے کرنے میں پس و پیش سے کام لینا شروع کر دیا جو ایک طرح کا انکار ہی تھا۔ زاہد چودھری نے اپنی تصنیف ''پاک بھارت تنازع اور مسئلہ کشمیر کا آغاز‘‘ میں تقسیم کے وقت اثاثوں کے حوالے سے جو کچھ لکھا اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ نمائندگانِ پاکستان کا مطالبہ یہ تھا کہ انہیں مشرقی و مغربی پاکستان کی آبادی‘ رقبے اور دوسرے ذرائع کا لحاظ کرتے ہوئے متحدہ ہندوستان کے کل اثاثوں (جو اس وقت چار ارب روپے تھے) کا کم از کم 25فیصد حصہ دیا جائے لیکن ہندو لیڈر سردار ولبھ بھائی پٹیل نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے قطعی انکار کر دیا اور صرف 20 کروڑ روپے کی فوری ادائیگی پر آمادگی ظاہر کی۔ حکومت پاکستان نے مطلوبہ رقم کی ادائیگی کا تنازع ثالثی ٹربیونل کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔ 9 دسمبر 1947ء کو اس مسئلے کے حل کے لیے دہلی میں ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خزانہ غلام محمد اور بھارتی وفد کی قیادت وزیر داخلہ سردار پٹیل نے کی۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں یہ فیصلہ ہوا کہ متحدہ ہندوستان کے پاس جو (چار ارب روپے کے) اثاثے ہیں‘ ان میں سے پاکستان کو 17.33 فیصد حصہ یعنی 75کروڑ روپے ملیں گے۔ ان میں سے پاکستان کو صرف 20 کروڑ روپے ہی مل سکے۔ باقی رقم آج تک نہیں ملی۔
ایک بے وسیلہ ریاست میں ایک بے یقینی کے ماحول میں ہم نے اپنی آزادی کا سفر شروع کیا تھا‘ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ آج آزادی کی پون صدی گزارنے کے بعد بھی ہم اسی بے یقینی اور اسی گم گشتہ راہی کا شکار ہیں۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا ہے کہ ہماری منزل کیا ہے اور اس کے لیے ہم نے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ میں تو اس بات کا پوری طرح قائل ہوں کہ بانیٔ پاکستان اور آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والوں نے یقینا ایسا پاکستان نہیں سوچا تھا‘ جیسی ہم نے اس کی حالت کر دی ہے۔ کوئی ایک محکمہ‘ کوئی ایک ادارہ‘ کوئی ایک شعبہ ایسا بتا دیجئے جس کے بارے میں پورے وثوق اور 100 فیصد تیقن کے ساتھ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہاں! یہ اپنی پوری استعداد کے مطابق کام کر رہا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ ہمارے اپنے وزیر یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ملک سے رشوت ختم نہ بھی ہو‘ محض کم ہو جائے تو ہمارے ملک کے مالی معاملات اطمینان بخش حد تک بہتر ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سیالکوٹ چیمبر آف کامرس میں صنعت کاروں سے ملاقات کے دوران نیوز کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ کرپشن کو 100 فیصد ختم کرنا ناممکن ہے‘ لیکن اگر ہم اس پر مناسب حد تک قابو پا لیں تو معیشت کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ نااہلی کا یہ عالم ہے کہ ہم اب تک اپنے ملک سے کرپشن ختم نہیں کر سکے۔ بطور مسلمان ہمیں تنبیہ کی گئی ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں‘ لیکن آپ رشوت لیے یا دیے بغیر کسی ادارے سے کوئی ایک جائز کام کرا کے دکھا دیں۔ یہاں قحط الرجال اس قدر شدید ہے کہ پونے آٹھ دہائیوں سے انہی آزمائے ہوؤں کو پھر سے آزمائے چلے جا رہے ہیں۔ قربانیاں دیے چلے جا رہے ہیں۔ قائدانہ صلاحیتوں کا لیول یہ ہے کہ کسی عالمی اقتصادی ادارے سے قرضہ ملنا ہمارے لیے خوشی و مسرت کا باعث ہوتا ہے۔
ہمارے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام ہے اور وسیع و عریض زرخیز زرعی رقبہ ہے‘ اس کے باوجود ہم اپنی خوراک کا ایک بڑا حصہ بیرونِ ملک سے درآمد کر کے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ تعلیم کسی بھی سماج اور ملک کی ترقی کے لیے بنیادی ترین ضرورت قرار دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود حالات یہ ہیں کہ ڈھائی کروڑ سے زائد بچے ایسے ہیں جو سکول جا ہی نہیں پاتے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بچے بڑے ہو کر کیا کرتے ہوں گے۔ ملک کے لیے بوجھ بنتے ہوں گے یا اس کی ترقی میں معاون ثابت ہوتے ہوں گے۔ ہمارے پاس گیس کے وسیع ذخائر موجود تھے لیکن ہم نے اس کا استعمال اس بدنظمی کے ساتھ کیا کہ آج ہمیں گیس بیرونِ ملک سے درآمد کر کے استعمال کرنا پڑتی ہے۔ ہمارا ملک معدنی ذخائر سے مالا مال ہے لیکن ہم اس قابل نہیں کہ ان ذخائر کو نکال کر اور ان کو اپنے لیے استعمال کر کے یا ان کو عالمی مارکیٹ میں فروخت کر کے اپنے لیے زرمبادلہ کما سکیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے ملک میں بہترین کپاس پیدا ہوتی تھی اور پاکستان میں تیار کیا گیا کپڑا پوری دنیا میں مشہور تھا۔ آج ہم کپاس درآمد کر کے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ تو میرے ہوش کی بات ہے کہ پاکستان کا ایک روپیہ بھارت کے دو روپے کے برابر ہوتا تھا لیکن آج نہ صرف بھارتی روپیہ ہم سے آگے نکل چکا ہے بلکہ بنگلہ دیشی ٹکا بھی روپے کی نسبت زیادہ قدر کا حامل ہو چکا ہے۔ اور تو اور افغانی کرنسی پاکستانی روپے کے مقابلے میں بہت بہتر پوزیشن پر ہے۔ ہم اس حالت کو پہنچے ہیں تو اس بات کا یقین کیا جانا چاہیے کہ اس میں کسی بھی دوسرے ملک یا کسی بھی دوسری قوم کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے‘ اور میں اپنے کالموں میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ ہم نے ترقی نہیں کی بلکہ ہم ترقیٔ معکوس کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جو تھوڑی بہت ترقی کی ہے‘ اس کے نتیجے میں ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی گروی رکھوا دیا ہے۔
لیکن ایسا نہیں کہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور کہیں بھی روشنی کی کوئی رمق‘ کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ 'ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘ تو جناب آج بھی اگر ہم اپنے آپ کو سدھار لیں‘ اپنے معاملات کو ٹھیک کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگلے پانچ دس برسوں میں اقتصادی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑے نہ ہو سکیں‘ لیکن اس کے لیے ضرورت مخلصانہ کوششوں کی ہے۔ اب یہ مخلصانہ کوششیں کب شروع ہوتی ہیں‘ میں بھی انتظار میں ہوں‘ آپ بھی انتظار کیجیے۔