سٹین سٹیڈ ایئر پورٹ لندن پرکوپن ہیگن کی فلائٹ کے انتظار میں گزاری وہ یخ بستہ رات یاد رہے گی۔ مسافروں کیلئے سیٹیں بہت کم تھیں اور جو تھیں ان کے قابضین کا دستبردار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ٹھنڈے سخت فرش پر ایک ستون کے سہارے اونگھتے سات گھنٹے گزارنا مشکل ہو گیا۔ آپ کے تجربے میں بھی کبھی ایسی نیند آئی ہو گی جس میں بیداری کے اتنے وقفے ہوں کہ اسے نیند کہنا بھی مشکل ہو جائے۔ اردو شاعری میں مختلف کیفیات کی راتوں کے اتنے پہلو بیان ہوئے ہیں کہ سبحان اللہ۔ داغ کا کیا کمال شعر ہے:
شبِ وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو؍ کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جدائی کا
اور احمد ندیم قاسمی کا عجیب شعر ہے:
میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
اور یہ بھی تو انہوں نے کہا تھا:
تُو نیند میں بھی میری طرف دیکھ رہا تھا
سونے نہ دیا مجھ کو سیہ چشمیٔ شب نے
سٹین سٹیڈ ایئر پورٹ کی رات‘ سخت تھکن کے باوجود‘ اپنی سرد سیہ چشمی سے مجھے سونے نہیں دیتی تھی۔ میں اس سوتی جاگتی نیند میں اُٹھ کر چہل قدمی کرنے لگتا تھا یا کافی پینے لگتا تھا۔ خدا خدا کرکے تین بجے رات جب فلائٹ کاؤنٹر کھلا تو میں سب سے پہلے پہنچنے والا مسافر تھا۔ کاؤنٹر پر ایک ایسی خاتون بیٹھی تھی جس کے لہجے اور چہرے میں نرمی کی رمق بھی کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ سامان میں دینے کیلئے کچھ نہیں تھا‘ صرف ایک کیبن بیگ تھا جسے میں ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے غراہٹ جیسی آواز میں کیبن بیگ جمع کرانے کو کہا اور اس کیلئے شاید 20 پاؤنڈ طلب کیے۔ ''لیکن تمام ایئر لائنز تو کیبن بیگ کی اجازت دیتی ہیں اور ٹکٹ کے ساتھ اس کا کوئی اضافی خرچ نہیں ہوتا‘‘ میں نے احتجاج کیا۔ ''ہم نہیں دیتے یہ اجازت‘ ہمارا اپنا اصول ہے‘‘ اس نے پھر خشمگیں لہجے میں کہا۔ مجھے خطرہ ہوا کہ اگر میں نے تکرار کی تو وہ میرا ٹکٹ ہی نہ پھاڑ کر پھینک دے۔ چنانچہ 20 پاؤنڈ نکال کر بھلے مانسوں کی طرح پیش کر دیے۔ بورڈنگ پاس ملا تو میں نے جاتے جاتے طنز کرنے کی کوشش کی: ''کیا آپ کے اپنے اصولوں میں مسافر کو جہاز میں سیٹ مل جاتی ہے یا کھڑے ہوکر جانا پڑتا ہے؟‘‘۔ ''سیٹ کوئی مخصوص نہیں‘ جہاں جگہ ملے بیٹھ جانا‘‘ وہ غرائی۔ سختی‘ درشتی اور کرختگی اگر کسی ایئر پورٹ کا نام ہو تو وہ سٹین سٹیڈ ایئر پورٹ ہو گا۔ کم از کم 2012ء میں تو ایسا ہی تھا۔ امیگریشن‘ جسمانی تلاشی اور سکیننگ ہر جگہ ٹامی موجود تھے۔ لمبے‘ اونچے‘ بے مروت ٹامی جو کتابوں میں پڑھے ہوئے اُن سارجنٹوں کی یاد دلاتے تھے جنہیں نئے ریکروٹس کی ٹریننگ اور تربیت کیلئے متعین کیا جاتا تھا۔ ہر گورے‘ کالے‘ بھورے‘ پیلے شخص کے جوتے اُتروا کر تلاشی لینے پر انہیں شاید خوشی حاصل ہوتی ہو گی اور مسافروں کی لمبی قطار میں یہ فراواں خوشی میسر تھی۔
جہاز میں داخل ہوتے ہی ایک جھٹکا سا لگا۔ کاؤنٹر والی وہی خاتون ایئر ہوسٹس بھی تھی۔ چھوٹا سا جہاز تھا۔ اب پتا چلا کہ کیبن بیگ کیوں نہیں لے جا سکتے تھے‘ اس لیے کہ جہاز میں گنجائش ہی بہت کم تھی۔ کسی بھی سیٹ پر کوئی بھی بیٹھ سکتا تھا۔ سو میں نے بھی ایک نشست سنبھال لی۔ یہ لگ بھگ پونے دو گھنٹے کی فلائٹ تھی۔ ظالموں نے پانی تک پلانے کی مروت نہیں کی۔ یعنی پانی بھی قیمتاً ملے گا اگر آپ پیاسے ہیں۔ فلائٹ کی اچھی بات یہ تھی کہ زیادہ بلند ی پر نہیں تھی اس لیے ڈنمارک کی سرسبز زمینیں‘ جھیلیں‘ ساحل اور مکانات صاف نظر آتے تھے۔ آج بھی وہ منظر میری آنکھوں میں ہے۔ گہرے سبز‘ ہلکے انگوری‘ زرد‘ خاکستری‘ چوکور‘ مستطیل‘ کٹے پھٹے قطعات جہاز کے پروں کے نیچے گزرتے جاتے تھے۔ ڈنمارک کی نویلی روشن صبح میں ترچھی ڈھلوان والی سرخ چھتوں کے گھروں میں چمنیوں سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ کھیتوں میں ٹریکٹر کام کرتے تھے‘ بھوسے کے ڈھیروں کے قریب مخصوص نسل کی ڈنمارک گائیں دھوپ سینکتی تھیں اور سفید بھیڑیں ہرے کھیتوں میں اون کے گالوں کی طرح بکھری ہوئی تھیں۔ جہاز کوپن ہیگن پر اترنے کیلئے پر جھکا کر ترچھا ہوا اور نیلے سمندر نے اسے خوش آمدید کہا۔ اس کے ساتھ چٹانی ساحل کے پرے عنابی‘ سرخ اور جامنی چھتوں والے مکانات کی قطاروں نے بتایا کہ ہم ڈنمارک کے دارالحکومت پہنچ گئے ہیں۔
ایک بڑے لیکن پُرسکون‘ صاف ستھرے ایئر پورٹ پر میزبان صدف مرزا موجود تھیں اور ان کے ساتھ ہمارے دیرینہ مہربان جناب اقبال اختر بھی۔ اقبال اختر صاحب سے پہلے لاہور میں ملاقات ہو چکی تھی۔ نفیس‘ شائستہ‘ محبت والی شخصیت اور بہت عمدہ شاعر۔ بہت مدت سے وہ کوپن ہیگن میں مقیم ہیں۔ ڈنمارک میں مہمانوں کی آؤ بھگت اور خیرمقدم میں پیش پیش۔ ڈنمارک میں یہ علی الصبح کا وقت تھا اور یقینا وہ دوست نیند کے اس وقت میں ایئر پورٹ پہنچے ہوئے تھے۔ ان دونوں کے پُرتپاک خیر مقدم نے نئی تمازت بخش دی تھی۔ ایک نئے دیس میں پرانے دوستوں کی موجودگی کیسی اطمینان بخش ہوتی ہے‘ یہ کوئی تنہا مسافر ہی جانتا ہے۔ گاڑی میں اپنی رہائش کی طرف جاتے ہوئے صاف ستھری سڑکیں بھیگی ہوئی تھیں۔ رات کی بارش نے منظر کو حسین تر کر دیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ انگلینڈ کی تعمیر اور رنگوں والی یکسانیت کے برعکس دونوں طرف مکان رنگا رنگ بھی تھے اور متنوع بھی۔ نیلے‘ پیلے‘ عنابی‘ جامنی‘ گھروں کے سامنے دونوں طرف نارنجی‘ ہرے اور زرد درخت لہراتے تھے جن کے پتے فٹ پاتھوں پر بکھرے ہوئے تھے۔
مشرقی سمت بحیرۂ بالٹک اور مغربی سمت شمالی سمندر سے گھرا ہوا ڈنمارک دراصل ایک بڑے جزیرہ نما جیٹ لینڈ اور 406 چھوٹے بڑے جزیروں پر مشتمل ایک آئینی بادشاہت ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم آف ڈنمارک شمالی یورپ کے سیکنڈے نیوین حصے کا ایک بڑا ملک ہے جس کی سرحدیں مشرق میں سمندری راستے سے سویڈن اور جنوب میں خشکی کے راستے جرمنی سے ملتی ہیں۔ ناروے اور گرین لینڈ بھی ہمسایہ ممالک میں ہیں۔ ڈنمارک یعنی ڈین لوگوں کی زمین۔ ڈین کا مطلب ہموار زمین بھی بتایا جاتا ہے۔ اور مارک غالباً جنگل کے معنوں میں ہے۔ سیکنڈے نیویا اور ملحقہ خطے کے لوگ قد آور‘ لمبے تڑنگے‘ صحت مند‘ سخت کوش نسل سے ہیں۔ یہ نورڈ (Nord) نسل ہے اور اس کے معنی شمال کے ہیں۔ شاید یہی لفظ نارتھ بن کر انگریزی میں آیا۔ کہتے ہیں کہ 13ہزار سال قبل مسیح سے ڈنمارک میں انسانی آبادی کے آثار موجود ہیں۔ آٹھویں سے دسویں صدی عیسوی کے درمیان مشہورِ زمانہ وائی کنگز جنگجو اس پورے خطے میں حکمران رہے اور انہوں نے سمندروں پر بھی حکمرانی کی۔ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی نے معاہدے کے باوجود اس پر قبضہ کیا اور یہ جرمن تسلط سے جنگ کے خاتمے کے بعد آزاد ہوا۔ یہ متمول‘ متمدن ملک اپنی فی کس آمدنی کے حوالے سے ممتاز ہے۔ زیادہ تر ڈینش زبان بولی جاتی ہے اور کچھ حصے میں جرمن بھی۔ پورے ملک کی آبادی 60 لاکھ کے لگ بھگ ہے یعنی ہمارے چھوٹے شہروں سے بھی بہت کم۔ آبادی کے اس کم دباؤ کی وجہ سے بھی ڈنمارک کو ایک فلاحی ریاست بننے میں آسانی ہوئی ہے۔ انگلینڈ ایک زمانے میں ڈینش فاتحین کے زیر قبضہ بھی رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انگریزی ادب میں اس کی بہت نشانیاں موجود ہیں۔ یاد کیجیے کہ شیکسپیئر کے ہیملٹ میں ہیملٹ ڈنمارک ہی کا شہزادہ ہے۔
ایک دوست کے ہاں میری رہائش کا انتظام تھا‘ میں وہاں پہنچتے ہی سو گیا۔ اور آنکھ کئی گھنٹے بعد اُس وقت کھلی جب ڈینش پیسٹریوں سے بھری قاب اور گرم چائے کی خوشبو نے مجھے مزید سونے نہیں دیا۔ ڈینش پیسٹری دنیا میں مشہور ہے اور ایسی منہ میں گھل جانے والی میٹھی‘ لذیذ پیسٹری یقینا دنیا میں مشہور ہونی ہی چاہیے تھی۔ صرف پیسٹری ہی نہیں‘ بیکری اور چاکلیٹ کی مصنوعات کے لیے بھی ڈنمارک دنیا میں اپنی شناخت رکھتا ہے۔ میں نے شکم سیری کی اور ایک بار پھر نیند کی وادیوں میں اُتر گیا۔