2024ء معاشی اعتبارسے کیسا رہا؟

سال 2024ء کا اختتام ہونے کو ہے۔یہ سال پاکستانی معیشت کے لیے کیسا رہا‘ اس حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ اپوزیشن کے حامی افراد اسے بدترین سال قرار دیتے ہیں جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بیشتر معاشی اہداف حاصل کیے ہیں۔کسی بھی ملک میں معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔ برطانیہ میں سیاسی عدم استحکام نے اسے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کے درجے سے محروم کر دیا اور بھارت میں سیاسی استحکام نے اسے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بنا دیا۔ پاکستان میں پچھلے ایک سال میں کئی سیاسی اتار چڑھاؤ آئے ہیں لیکن ایک ہی سیاسی اتحاد کی حکومت کے تسلسل نے کچھ مثبت نتائج بھی دیے ہیں۔ اگر اعدادوشمار پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں مہنگائی ڈرامائی طور پر کم ہوئی ہے۔ جنوری 2024ء میں مہنگائی تقریباً 25 فیصد تھی جو سال کے اختتام پر کم ہو کر تقریباً چار فیصد رہ گئی ہے۔ عوامی سطح پر مہنگائی کی اس کمی کو اعدادوشمار کا ہیر پھیر قرار دیا جا رہا ہے۔ عام آدمی اس حساب کتاب کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ مہنگائی کو اشیا کی قیمتوں سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ عوامی سطح پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ حکومتی حساب سے مہنگائی تقریبا ً600 فیصد کم ہوئی ہے‘اگر یہ درست ہے تو آٹا‘ دال‘ چینی‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتیں بھی چھ گنا کم ہونی چاہئیں تھیں۔ لیکن ان اشیا کی قیمتوں میں معمولی سا فرق آیا ہے بلکہ کچھ اشیا کی قیمتیں تو بڑھ گئی ہیں۔ سرکار سے گزارش ہے کہ سال کے اختتام پر اس معمہ کو بھی حل کرے اور مہنگائی میں ڈرامائی کمی کو سرکاری حساب کتاب سے نکل کر عوامی حساب کتاب سے سمجھانے کی کوشش کرے۔
ملکی معاشی ترقی کا انحصار مہنگائی میں کمی سے زیادہ عوام کی قوتِ خرید بڑھنے پر ہے‘جس میں اضافہ نہیں ہو ا۔ملک کی جی ڈی پی نہیں بڑھ سکی ہے اور تقریبا ًایک تہائی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آج کے دور میں کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں برآمدات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ ملک میں افراطِ زر زیادہ ہو لیکن اگر برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہو تو یہ پیغام ملتا ہے کہ عوام پیسہ کما رہے ہیں۔ ترکیہ میں اس وقت مہنگائی تقریباً 46 فیصد ہے لیکن عوام خوشحال ہیں اور ملک ترقی یافتہ ہے۔ اس کی وجہ برآمدات میں مسلسل اضافہ ہے۔پاکستانی برآمدات میں اضافے کی شرح انتہائی کم ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی برآمد ٹیکسٹائل ہے۔ اس سال تقریباً 125 سپننگ یونٹس بند ہوئے ہیں۔ ٹیکسٹائل کی مشینری کباڑیوں کو بیچی گئی ہیں بلکہ ایک وقت پر کباڑیوں نے بھی مزید مشینری خریدنے سے انکار کر دیا تھا۔
شرح سود میں کمی بڑی کامیابی ہے۔جنوری 2024ء میں شرح سود تقریباً 21.5 فیصد تھی جو سال کے آخر میں 13 فیصد ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے دباؤکے باوجود شرح سود میں بتدریج کمی نے کاروباری طبقے میں امید کی کرن پیدا کی ہے۔ کاروبار کرنے کی لاگت کم ہونے اور سستے قرضوں سے جو پیسہ بینکوں میں سود لینے کے لیے رکھا گیا ہے‘ نئے سال میں وہ پیسہ کاروباد بڑھانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔اگرچہ ابھی تک نئی صنعتیں لگنے کے حوالے سے کوئی مثبت خبر سامنے نہیں آئی اور نہ ہی کاروباری حجم بڑھنے کے حوالے سے کوئی دعویٰ کیا گیا ہے‘شاید صنعتوں پر شرح سود کم ہونے کے اثرات چھ ماہ یا ایک سال بعد نظر آئیں‘ بشرطیکہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی کم ہوں۔ بصورت دیگر نئے سال میں زیادہ زور پیدوار بڑھانے کے بجائے درآمدات بڑھانے پر ہو سکتا ہے۔ اس سال شرح سود کم ہونے کا سب سے زیادہ اثر سٹاک ایکسچینج نے لیا ہے۔ جنوری 2024ء میں سٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس تقریبا ً64 ہزار پوائنٹس تھا جو سال کے اختتام پر بڑھ کر 1 لاکھ 13 ہزار پوائنٹس ہو گیا ہے۔ سب سے زیادہ سرمایہ کاری سٹاک ایکسچینج میں ہوئی ہے‘ جس سے ملک کا مثبت تاثر قائم کرنے میں مدد ملی ہے۔ عمومی طور پر سٹاک ایکسچینج میں مسلسل اتار چڑھاؤ کو ملکی معیشت میں بہتری کے اشاریے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا لیکن تقریباً ایک سال سے استحکام اور بہتری نے سٹاک کے حوالے سے عوامی رائے تبدیل کرنے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ 2024ء میں پاکستان سٹاک ایکسچینج ایشیا کی سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والی سٹاک ایکسچینج کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ڈالر کے ریٹ میں استحکام بھی اس سال کی بڑی کامیابی ہے۔جنوری سے دسمبر تک ڈالر کے ریٹ میں زیادہ اتار چڑھاؤ نہیں رہا۔ پچھلے سال ڈالر کے تین ریٹس تھے اور تینوں میں بہت زیادہ فرق تھا۔انٹربینک‘ اوپن مارکیٹ اور گرے مارکیٹ۔ اب بھی تینوں ریٹ موجود ہیں لیکن ان میں فرق بہت کم ہو گیا ہے۔ ریٹ مستحکم ہونے سے کرنسی مارکیٹ میں کالے دھن کی سرمایہ کاری کم ہوئی ہے۔
اس سال سٹیٹ بینک نے بھی مشکل فیصلے لیے ہیں۔ کئی سالوں سے جو تجاویز فائلوں میں تھیں انہیں عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔ بی اور سی کیٹیگری کے کرنسی ڈیلرز کو ختم کرنا اور بینکوں سمیت بڑے اداروں کو کرنسی ایکسچینج کے لائسنس جاری کرنا اچھا فیصلہ ہے۔ غیر قانونی کرنسی ڈیلرز کے خلاف گرینڈ آپریشن اور گرفتاریوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ مشکل مرحلہ آئی ایم ایف کے دباؤ کو برداشت کرنا تھا۔آئی ایم ایف پہلے دن سے ڈالر ریٹ کو کنٹرول نہ کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ان حالات میں ڈالر ریٹ کنٹرول رکھنا اور آئی ایم ایف سے تقریباً سات ارب ڈالرز کا تین سالہ معاہدہ کرنا بڑی کامیابی ہے۔ٹیکس اہداف کا حصول آئی ایم ایف کی اہم شرط ہے۔جس پر رواں سال عمل نہیں ہو سکا اور نئے سال میں بھی اس کا حصول مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ آئی ایم ایف ڈیل حاصل کرنے کے لیے تیرہ ہزار ارب روپے ٹیکس ہدف پر متفق ہونا غلط فیصلہ ثابت ہوا ہے۔ اس سال کئی ٹیکس ریفارمز سامنے آئی ہیں‘ نان فائلرز کے گرد شکنجہ تنگ کرنے کے فیصلے نے فائلرز کی تعداد میں اضافہ تو کیا ہے لیکن یہ بھی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو سکا۔ 2024ء میں ایف بی آر کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ اس کی ایک وجہ چیئرمین ایف بی آر کی حقائق بیان کرنے کی وجہ سے تبدیلی بھی ہے۔
قرض اور امدادحاصل کرنے کے حوالے سے جاتا ہوا سال زیادہ اچھا نہیں رہا۔جولائی سے نومبر تک قرض اور بیرونی امداد تقریباً تین ارب ڈالر تھیں جو پچھلے سال کی نسبت تقریباً 40 فیصد کم ہے۔ پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کی میزبانی اور دوست ممالک کے اہم دورے بھی ہوئے اور بڑے معاہدے بھی کیے گئے۔سعودی عرب کی سرمایہ کاری کے حوالے سے بڑے معاہدے کیے گئے‘چین کے ساتھ بھی نئے معاہدے ہوئے جن کے نتائج نئے سال میں سامنے آ سکتے ہیں۔ ملک سے منافع بیرونِ ملک منتقل کرنے میں تقریباً 113 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں نے اس سال تقریباً 35 فیصد زیادہ رقم پاکستان بھجوائی ہے۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں تقریباً دو ارب ڈالر سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ملک میں ترسیلات نہ بھیجنے کی مہم چل رہی ہے لیکن اس کے منفی نتائج سامنے آنے کے امکانات کم ہیں۔قومی اداروں کی نجکاری کے حوالے سے رواں سال اچھا نہیں رہا اورپی آئی اے کی نجکاری کے عمل نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔البتہ یورپ کی پروازوں کی بحالی پی آئی اے کیلئے اچھی پیشرفت ہے۔برطانیہ کے حوالے سے بھی مثبت خبریں موصول ہو رہی ہیں۔امید ہے کہ نئے سال میں نجکاری کا عمل زیادہ بہتر ہو سکے۔صرف پی آئی اے کی نجکاری مسئلہ نہیں ہے بلکہ نقصان میں چلنے والے تمام قومی اداروں کی نجکاری کے وعدے کیے گئے تھے‘ مگر حکمران سیاسی فائدے حاصل کرنے کیلئے نجکاری کے عمل کو سپورٹ کرتی دکھائی نہیں دے رہی جس کی قیمت اس سال بھی عوام نے ادا کی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں