یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ملک گزشتہ دنوں ایک شدید بحران سے گزرا ہے۔ گو کہ اب اسلام آباد کی سڑکیں اور بازار کھل گئے ہیں مگر گزشتہ دنوں سینکڑوں کنٹینرز مختلف راستے روکنے کے لیے لگائے گئے تھے تاکہ مظاہرین شہرِ اقتدار میں داخل نہ ہو سکیں۔ ملک بھر میں متعدد موٹرویز بند تھیں۔ پانچ روز تک زندگی مفلوج رہی۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سربراہِ مملکت بھی یہ برملا کہنے پر مجبور ہوئے کہ قوموں کی بقا اتحاد میں مضمر ہے۔
مظاہرین شہرِ اقتدار سے بظاہر چلے گئے ہیں۔ حکومت جو بھی کہتی رہی‘ میں انہیں نہ شرپسند کہوں گا اور نہ ہی دہشت گرد۔ یہ بھی پاکستانی تھے اور پولیس اور رینجر کے جوان بھی پاکستانی۔ گویا بھائی بھائی سے دست بہ گریباں تھا۔ شہادتیں دونوں جانب ہوئیں۔ پاکستانیوں کا خون اپنے ہی ملک کی سڑکوں پر ارزاں ہوا۔ نہ کسی کو فتح ہوئی ہے اور نہ ہی کسی کی شکست۔ یہ ہمارے پورے نظام کی شکست اور پوری قوم کی پسپائی ہے۔ اربوں روپے ضائع ہوئے ہیں اُس قوم کے‘ جس کے لیڈر دنیا میں کشکول لیے پھرتے ہیں۔میں نے لبنان کو اپنی آنکھوں سے تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ کیا شاندار ملک تھا اور اب کیا رہ گیا ہے۔ وہاں خانہ جنگی کا رنگ ابتدا میں مسلکی تھا اور اس کی ایک جھلک ہم نے حال میں ہی لوئر کُرم میں دیکھی ہے جہاں سینکڑوں بے گناہ پاکستانی شہید کر دیے گئے۔ دہشت گردوں نے موقع غنیمت جانا کیونکہ صوبائی حکومت شہریوں کی حفاظت کے بجائے اسلام آباد میں مظاہرے کی تیاری کر رہی تھی۔ خلیج میں شام کی تباہی بھی ہمارے سامنے ہے۔ صدر بشارالاسد نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ میں نے اقتدار میں رہنا ہے‘ ملک کا جو بھی ہوتا ہے‘ انہیں پروا نہیں۔ کیا لبنان اور شام کی مثالیں ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں؟
یہ کہنا کہ ایک صوبائی حکومت نے فیڈرل کیپٹل پر حملہ کیا ہے‘ حقائق پر مبنی نہیں۔ جس سیاسی جماعت نے مظاہرے کا بندوبست کیا وہ قومی سطح کی سیاسی پارٹی ہے‘ کسی ایک صوبے تک محدود نہیں اور اس کی مظلومیت کا بیانیہ صرف پاکستان میں ہی نہیں‘ پوری دنیا میں گونج رہا ہے اور میں یہ بات ایک نیوٹرل مبصر کے طور پر کہہ رہا ہوں۔ بہرکیف‘ اب ہمارا فرض یہ ہے کہ ملک جس کربناک کیفیت سے گزرا ہے‘ مکمل کوشش کی جائے کہ وہ المناک کہانی دہرائی نہ جائے۔ ہم نے اپنے ملک کو بچانا اور اسے متحد اور خوشحال بنانا ہے۔ اور اس جانب جانے کا واحد راستہ آئین کی پاسداری ہے جو اصلی اور خالص جمہوریت ہی سے ممکن ہے۔
جنرل (ر) طارق خان ایک عرصہ ہوا فوج سے ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن ملک کے بارے میں سوچتے اور لکھتے رہتے ہیں۔ ان کا عسکری کیریئر شاندار رہا۔ منگلا میں کور کمانڈر رہے‘ ایف سی کے انسپکٹر جنرل رہے۔2009ء میں باجوڑ میں طالبان کو شکست فاش دی۔ خیبر پختونخوا کی معروف فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے انہیں دو تین بار فارن پالیسی کے حوالے سے ہونے والی نشستوں میں سنا اور ان کی رائے خاصی معتبر سمجھی جاتی ہے۔ جنرل (ر) طارق خان نے موجودہ دلدل سے نکلنے کے لیے چند تجاویز دی ہیں‘ جو سوشل میڈیا پر شوق سے پڑھی جا رہی ہیں کیونکہ عوام ملک کو اس دلدل سے نکلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
ان کی پہلی تجویز یہ ہے کہ ایک ماہ کے اندر پچھلے الیکشن کے تمام متنازع حلقوں کا آڈٹ مکمل کیا جائے اور پھر اصلی اور حقیقی کامیاب امیدواروں پر مشتمل حکومت بنائی جائے۔ الیکشن آڈٹ مکمل ہونے تک ایک عبوری حکومت بنائی جائے‘ جس میں صرف وہ ممبرانِ اسمبلی شامل ہوں جن کی کامیابی پر کوئی سوالیہ نشان نہیں۔ الیکشن آڈٹ کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان صدرِ مملکت کے فرائض سرانجام دیں۔ تمام صوبوں میں صوبائی چیف جسٹس صاحبان ایکٹنگ گورنر کے طور پر کام کریں اور صوبائی سیٹوں کا الیکشن آڈٹ بھی ایک ماہ میں مکمل کیا جائے۔دوسری جانب سپریم کورٹ فوراً ایک اجلاس بلا کر موجودہ حکومت کی جائزیت اور فارم45اور 47کے تنازع پر اپنی رائے دے اور حل بھی تجویز کرے۔ عدالتِ عظمیٰ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اور اس کے مینڈیٹ کے بارے میں بھی رائے دے اور یہ بھی بتائے کہ اس سلسلے میں کی گئی قانون سازی آئین کی رو سے درست تھی یا نہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی ہیئت ترکیبی کا جائزہ لیا جائے‘ جب تک آڈٹ مکمل ہونے پر نئی پارلیمنٹ وجود میں نہیں آ جاتی آرٹیکل 63Aکی تبدیل شدہ شکل کو معطل رکھا جائے۔ نئی پارلیمنٹ اس آرٹیکل کا دوبارہ جائزہ لے۔
آئین میں کی گئی حالیہ 26ویں ترمیم کو معطل کیا جائے اور آڈٹ کے بعد تشکیل شدہ نئی پارلیمنٹ اس ترمیم کا از سر نو جائزہ لے اور اس جائزے کے مکمل ہونے تک موجودہ آئینی بنچ کو معطل کر دیا جائے اور جج صاحبان کی سنیارٹی بحال کر دی جائے۔نئی حکومت اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد متعدد جوڈیشل کمیشن بنائے جو مندرجہ ذیل امور پر تحقیقات کریں: سائفر کیس‘ نو مئی کیس‘سپریم کورٹ کی اپنی اصلی شکل میں بحالی اور چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار۔
سپریم کورٹ نیب قوانین میں ترامیم کا بھی از سر نو جائزہ لے اور ایک وائٹ پیپر شائع کرے جس میں موجودہ دگرگوں حالات کے ذمہ داران کا تعین کرے تاکہ آئندہ ایسے غیر معمولی حالات سے دو چار نہ ہونا پڑے۔
یہ تجاویز ایک معتبر شخصیت کی جانب سے پیش کی گئی ہیں اور حب الوطنی کی غماز ہیں لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ مجھے بادی النظر میں لگتا ہے کہ ان تجاویز کو آغاز میں ہی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ چیف جسٹس صاحبان کہیں کہ ہم اس کوئلے کی کان میں جانا ہی نہیں چاہتے۔ دوسرا‘ یہ کہ جب تک ان تجاویز کو اہم اداروں کی سپورٹ حاصل نہیں ہوگی ان پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔
کئی ترقی پذیر ممالک جہاں سویلین برتری ابھی تک خواب ہی ہے‘ اسی قسم کے مخمصوں کا شکار رہے۔ مثلاً مصر اور میانمار(برما) میں مقتدر حلقے جمہوری عمل سے قائم شدہ حکومتوں کو قبول نہ کر سکے۔ میانمار میں ایک نحیف و نزار خاتون یعنی آنگ سان سوچی کئی عشروں سے سیاسی چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ درمیان میں اقتدار میں شراکت کا فارمولا ضرور بنا مگر ناکام ہو گیا۔ یہ ہائبرڈ ماڈل تھا جو زیادہ دیر چلا نہیں۔ پہلے یہ کہا گیا کہ اُن کے شوہر چونکہ غیر ملکی تھے لہٰذا وہ صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتیں۔ سوچی نے اقتدار میں جونیئر پوزیشن قبول کر لی لیکن مقتدر حلقے اسے بھی ہضم نہ کر سکے۔ ان کی مقبولیت چونکہ زیادہ ہے لہٰذا اب وہ سالوں سے گھر میں قید ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ میانمار میں نہ ہی استحکام آیا اور ہی معیشت سنبھل سکی۔مصر میں بھی محمد مرسی کو مدتِ اقتدار پوری ہونے سے پہلے ہی فارغ کردیا گیا اور الزامات لگا کر قید کر لیا گیا۔ ان کا جیل میں ہی انتقال ہوا۔ جنرل سیسی کی قیادت میں مصر بظاہر مستحکم نظر آتا ہے لیکن پہلے والا طمطراق کھو بیٹھا ہے۔1973ء میں مصر اسرائیل کو چیلنج کرنے کے قابل تھا۔ آج وہ یہ صلاحیت نہیں رکھتا۔
ہمیں ایسی حکومت کی ضرورت ہے جسے عوام کی تائید حاصل ہو۔ ایسی حکومت کے حصول کیلئے ہمیں نئی سوچ اور تجاویز کی ضرورت ہے ورنہ گول دائروں کا ہمارا سفر جاری رہے گا۔ بھارت قابلِ قبول الیکشن کرا کے سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کر چکا ہے۔ جنرل طارق صاحب کی تجاویز کو نظر انداز کرنا قطعاً درست نہ ہوگا۔ وہ اپنے دل میں ملک و قوم کا درد رکھتے ہیں‘ یہ تجاویز گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا حصہ بن سکتی ہیں اور بحث مباحثے سے انہیں قابلِ عمل بنایا جا سکتا ہے۔