جیسا کہ قارئین کو معلوم ہے کہ انڈیا ایک عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننا چاہتا ہے‘ مستقل رکنیت کے دوسرے امیدواروں میں جرمنی‘ جاپان اور برازیل شامل ہیں۔ عالمی امور کے مبصرین کا خیال ہے کہ چاروں امیدواروں میں سے انڈیا کی پوزیشن سب سے مضبوط ہے۔ انڈیا اپنا کیس اس طرح پیش کرتا ہے کہ ہم آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہیں اور اس وقت سب سے بڑی جمہوریت بھی ہیں۔ پچھلے تین عشروں میں کی جانے والی اقتصادی ترقی نے انڈیا کے انٹرنیشنل قد کاٹھ میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے برعکس انڈیا خارجہ امور پر بڑی محنت سے اور فوکس ہو کر کام کرتا ہے۔ انڈیا کے 99فیصد سفیر فارن سروس سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے وزیر خارجہ کا بیک گراؤنڈ بھی فارن سروس والا ہے۔
پاکستان سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں کو بڑھانے کے حق میں نہیں۔ پاکستان کا استدلال یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے اس وقت پانچ مستقل ممبر ہیں جبکہ باقی 187 ممبر صرف الیکشن کے ذریعے کبھی کبھار غیرمستقل ممبر بن سکتے ہیں۔ پانچ مستقل ممبران میں سے ہر ایک کے پاس ویٹو کا حق ہے گویا پانچ بڑے چودھری ہیں اور باقی کمی کمین‘ یہ تقسیم مساوات کی روح کے خلاف ہے۔ اگر پانچ چودھریوں کی تعداد میں دو چار کا اضافہ کر دیا جائے تو یہ تقسیم جوں کی توں رہے گی بلکہ اور واضح ہو جائے گی۔ انڈیا کے بارے میں خاص طور پر ہمارا استدلال یہ بھی ہے کہ جس ملک نے کشمیر کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں پر عمل نہیں کیا‘ اسے سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنانا کھلا تضاد ہو گا۔
پاکستان کی طرح ترکیہ کی بھی یہ پالیسی ہے کہ سلامتی کونسل کی صرف غیر مستقل نشستوں میں اضافہ ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ اقوام کی نمائندگی ہو سکے۔ پاکستان اور ترکیہ اس بات پر بھی متفق ہیں کہ یو این ریفارمز جیسے انتہائی اہم عمل کو صرف اور صرف مکمل اتفاقِ رائے سے پایۂ تکمیل تک پہنچنا چاہیے‘ اس سلسلہ میں بارہ ملکوں کا ہم خیال گروپ اقوام متحدہ اور دیگر مقامات پر ملتا رہتا ہے تاکہ تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔تقریباً ایک سال پہلے نیو دہلی میں جی 20 کا سربراہی اجلاس ہوا تھا۔ وہاں ترک صدر طیب اردوان سے کسی صحافی نے پوچھا کہ انڈیا کے لیے سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے بارے آپ کا کیا خیال ہے؟ ترک صدر نے جواب دیا کہ میرے لیے یہ امر انتہائی خوش آئند ہو گا۔ اس جواب پر انڈین میڈیا کی باچھیں کھل گئیں۔ انڈین میڈیا نے اسے اپنے ملک کی سفارت کاری کی بڑی فتح قرار دیا لیکن بعد میں ہم خیال گروپ‘ جسے Uniting for Consensus کہا جاتا ہے‘ کے اجلاسوں میں ترکیہ کی پوزیشن جوں کی توں نظر آئی یعنی یہ کہ سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ممالک میں اضافے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جس سے پاکستان کی بڑی حد تک تشفی ہو گئی لیکن اس سلسلہ میں ہمیں الرٹ رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ انڈیا کی پوزیشن بطور مستقل امیدوار پچھلے سالوں میں خاصی بہتر ہوئی ہے۔ اس بات کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ ہم خیال گروپ میں ایشیا سے صرف پاکستان‘ جنوبی کوریا اور ترکیہ شامل ہیں۔ باقی کسی ملک کو انڈیا کی کھل کر مخالفت کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اقوامِ متحدہ میں بین الریاستی مذاکرات (Intergovernmental Negotiations)‘ جسے مختصراً IGN کہا جاتا ہے‘ ہوتے رہتے ہیں‘ وہاں بھی صرف مذکورہ بالا تین ایشیائی ممالک کی پوزیشن ہی واضح ہے۔
یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اکثر ایشیائی ممالک انڈیا کے بڑھتے ہوئے قد کاٹھ کی وجہ سے کھل کر اس کی مخالفت نہیں کر رہے اور یو این ریفارمزپر بھی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں اثر و رسوخ اسی ملک کا بڑھتا ہے جو اقتصادی قوت رکھتا ہو۔ جو سیاسی طور پر مستحکم ہو اور جس کا بین الاقوامی تاثر (Image) مثبت ہو‘ جہاں گورننس اچھی ہو‘ غیر ملکی محفوظ ہوں اور جمہوریت مضبوط ہو۔ انڈیا کافی حد تک یہ شرائط پوری کرتا ہے۔ پچھلے چند سال میں انڈیا اور ترکیہ کے تجارتی حجم میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا ترکیہ کی برکس (BRICS)میں شمولیت کی بھی حمایت کرتا رہا ہے۔بین الاقوامی امور اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ ہمیں ہمہ وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ہماری فارن سروس کی ٹریننگ پروفیشنل بنیادوں پر اور عصری تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے۔ تمام ممالک میں تعینات ہمارے سفرا فارن سروس سے ہوں۔ انڈیا کی کامیاب خارجہ پالیسی میں ان کی فارن سروس کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ ترکیہ میں تعینات ہمارے سفیر کا تعلق فارن سروس سے نہیں ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف کی اقوامِ متحدہ میں تقریر بہت اچھی تھی لیکن اس میں یو این ریفارمز کے بارے میں ایک بھی جملہ نہیں تھا۔ ہمارے لیڈروں کو اس موضوع کی اہمیت کا ادراک نہیں۔ جس دن بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بن گیا‘ وہ ہمارے مفادات کو نقصان پہنچانے میں مزید فعال ہو جائے گا۔
اگلے سال کے آغاز میں پاکستان دو سال کے لیے سلامتی کونسل کا ممبر بن جائے گا۔ یہ دو سال پاکستان کے لیے نہایت اہم ہیں۔ ہمیں مزید ایشیائی ممالک کو اس موضوع پر اپنا ہم نوا بنانے کی ضرورت ہے تاکہ انڈیا کے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا جائے۔ اقوام متحدہ میں ہمارے مستقل مندوب منیر اکرم کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ ریٹائرڈ لوگوں کو دوبارہ کنٹریکٹ یا توسیع دینے سے سروس میں مایوسی پھیلتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ منیر اکرم صاحب کی جگہ نامزد سفیر کو‘ جو اس وقت پیرس میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں‘ جلد از جلد نیویارک بھیجیں۔ وہاں اگلے دو سال نہایت اہم ہیں۔ بہت بھاگ دوڑ کی ضرورت ہے اور موجودہ سفیر بہت عمر رسیدہ ہیں۔ وہ ملک کی خاصی خدمت کر چکے ہیں‘ اب کسی اور کو بھی موقع ملنا چاہیے۔
منیر اکرم صاحب کا شمار فارن سروس کے قابل افسران میں رہا ہے لیکن ریکارڈ بتاتا ہے کہ موصوف سے ایسی غلطیاں بھی ہوئیں جن سے پاکستان کے مفادات کو ٹھیس پہنچی۔ 1994ء میں وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف قرارداد پاس کرانے کے داعی تھے۔ قرارداد کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کی گئی‘ خصوصی نمائندے بھیجے گئے‘ لیکن جب ووٹنگ کا وقت آیا تو پاکستان تنہا تھا۔ ہمیں سفارتی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ منیر اکرم دفترِ خارجہ کے موجودہ افسران سے بہت سینئر ہیں۔ موجودہ سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ 1991ء میں فارن سروس میں شامل ہوئیں‘ جب منیر اکرم سفیر تھے۔ سفارت کاری کے فیصلے ایک شخص پر نہیں چھوڑے جا سکتے‘ مسلسل مشاورت ضروری ہوتی ہے۔ کلیدی کردار دفترِ خارجہ کا ہونا چاہیے جو موجودہ حالات میں مشکل نظر آتا ہے۔ شنید ہے کہ منیر اکرم صاحب کو مارچ 2025ء تک توسیع مل گئی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو صائب فیصلہ نہیں ہے۔
انڈیا اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں بہت سنجیدہ ہے اور بڑے مربوط طریقے سے کام کرتا ہے۔ آپ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو لے لیں‘ وہ سیکرٹری خارجہ بھی رہے‘ سفارت کاری کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ پوری دنیا کے وزرائے خارجہ انہیں جانتے ہیں‘ اور اپنے وزیر خارجہ اسحاق ڈار صاحب کو دیکھیں‘ جن کا اصل اختصاص مالیاتی امور ہیں۔ امور خارجہ میں ان کا تجربہ صرف چند ماہ کا ہے۔ ان تمام تر کوتاہیوں کے باوجود ہمیں یو این ریفارمز کے بارے میں یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ ایران اور انڈونیشیا جیسے اہم ایشیائی ممالک کو ہم نوا بنانے کی کوشش کریں۔ وزیراعظم بھی اپنے لیول پر یہ اہم معاملہ تواتر سے اٹھاتے رہیں۔