ڈنمارک اور سویڈن دیکھنے کا شوق مجھے عرصۂ دراز سے تھا۔ فارن سروس میں زیادہ وقت عربی دانی کی وجہ سے مڈل ایسٹ میں گزرا۔ یورپ میں میری ایک ہی پوسٹنگ ہوئی جو یونان میں تھی۔ اٹلی اور یوگو سلاویہ مختصر دوروں میں دیکھے۔ اس سال ڈنمارک اور سویڈن کا پروگرام خود شوق سے بنایا۔ اس خطے کا ایک دیو مالائی تصور لمبے عرصے سے ذہن میں تھا کہ یہ ماڈل قسم کے ویلفیئر ممالک ہیں جہاں ریاست واقعی ماں جیسی ہے اور ہر شہری کو روٹی‘ کپڑا اور مکان مہیا کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔
ڈنمارک‘ سویڈن اور ناروے کے خطے کو سکینڈ ے نیویا (Scandinavia) کہا جاتا ہے۔ فارن سروس کے دوران میری جس ملک میں بھی پوسٹنگ ہوئی وہاں ہر گراسری سٹور میں ڈنمارک کا مکھن اور پنیر موجود ہوتا تھا۔ یہ چھوٹا سا ملک ڈیری فارمنگ کے لیے مشہور ہے۔ یہاں کا دوسرا عالمی سطح کا مشہور پراڈکٹ یہاں کی بیئر ہے جو ایک عرصہ سے پاکستان میں شجرِ ممنوعہ ہے۔ اور ہاں‘ یہاں بحری جہازوں اور ٹریلرز پر استعمال ہونے والے معیاری کنٹینرز بھی بنتے ہیں۔ عالمی طور پر مشہور مرسک (Maersk) کمپنی ڈنمارک کی ہی ہے۔ ہم پاکستان میں کنٹینرز کو ٹرانسپورٹ کے علاوہ سیاسی حریفوں کا راستہ بند کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
ڈنمارک ہمارے ہاں اسلام مخالف گستاخانہ خاکوں کی وجہ سے بھی مشہور یا بدنام ہوا‘ مگر شام اور افغانستان سے بھاگے ہوئے ہزاروں مسلمانوں کو سیاسی پناہ بھی اسی ملک نے دی۔ غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں یہاں بڑے بڑے جلوس بھی نکلے ہیں۔ ڈنمارک کا شمار دنیا کے ایماندار ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ پچھلے چند برسوں سے اقوام متحدہ نے ایک خوشی کا پیمانہ (Happiness Index) تیار کیا ہے‘ تاکہ اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ مختلف ممالک کے لوگ اپنے نظام مملکت اور معیارِ زندگی سے کتنے مطمئن یا خوش ہیں۔ اس فہرست میں ڈنمارک اس سال پہلے نمبر پر ہے۔ یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اس خطے میں موسم سرما میں راتیں بہت لمبی ہوتی ہیں اور کئی لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عمر رسیدہ لوگ بھی تنہائی کو بہت محسوس کرتے ہیں کہ ان کے بچے گھر چھوڑنے کے بعد والدین کی طرف پلٹ کر کم ہی دیکھتے ہیں۔ ان حالات میں عوام کا خوش رہنا ریاست کا بڑا کارنامہ ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر مغربی ممالک کے ویزہ کا حصول چنداں دشوار نہ تھا۔ پھر کام کی کثرت کی وجہ سے اکثر مغربی سفارتخانے کام کو آؤٹ سورس کرنے لگے یعنی ابتدائی جانچ پڑتال پاکستانی کمپنی کرتی تھی اور آخری انٹرویو سفارتخانے میں ہوتا تھا۔ سفارتی پاسپورٹ پر تو ویزہ فوراً مل جاتا ہے‘ ہمارے جیسے سابق سفارت کار بھی فارن آفس سے سفارش کرا کے ویزہ جلد لے لیتے تھے مگر اب نظام یکسر بدل گیا ہے۔ پہلی درخواست آن لائن ہوتی ہے۔ دوسرا مرحلہ پاکستانی کمپنی کے پاس انواع و اقسام کی دستاویزات جمع کرانے کا ہوتا ہے۔ آپ ہمارے ملک کیوں جا رہے ہیں‘ کس نے دعوت دی ہے۔ دعوت دینے والے کا رہائشی ایڈریس بتائیے۔ اپنے بینک کے کھاتوں کی تفصیل لائیے۔ پچھلے برسوں میں کن کن ملکوں کا سفر کیا ہے ان ممالک کے ویزوں کی تفاصیل مع فوٹو کاپی لگائیے۔ خیر‘ یہ دشوار مرحلہ بھی طے ہو گیا۔
میرا خیال تھا کہ چونکہ پرانے پاسپورٹ اکثر سفارتی ہیں اور سرخ رنگ کے ہیں‘ لہٰذا ویزہ جلد مل جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وجہ یہ سمجھ آئی کہ ڈنمارک چونکہ شینگن (Schengen) ممالک میں شامل ہے اور اس نسبت سے اس کا ویزہ شینگن کے معاہدے میں شامل متعدد ممالک کے لیے کارآمد ہے لہٰذا یہ سب ممالک بہت ہی احتیاط سے ویزہ دیتے ہیں اور اس بات کا اقرار بھی ضروری ہے کہ ہمارے اپنے کارناموں کی وجہ سے پاکستانی پاسپورٹ خاصا کمزور ہو گیا ہے۔
معاف کیجئے‘ ویزہ والی کہانی ذرا لمبی ہو گئی‘ مختصراً یہ کہ بالآخر میرا اور بیگم کا ویزہ آ گیا۔ مشتاق احمد یوسفی نے لکھا تھا کہ بیگم کو بیرونِ ملک ہم سفر بنانا ایسے ہی ہے کہ آپ کسی شاندار ریستوران میں کھانا کھانے جائیں اور ٹفن کیریئر ساتھ لے کر جائیں۔ خیر یہ یوسفی صاحب والی بات تو از راہِ تفنن آ گئی۔ بیگم بھی 2019ء میں حج کے بعد سے ملک سے باہر نہیں گئی تھیں۔ لہٰذا میری طرح انہیں بھی بیرونِ ملک سیر و تفریح کا بہت اشتیاق تھا۔
براستہ استنبول کوپن ہیگن پہنچے تو یہ شہر خاصا مختلف لگا۔ یہاں لوگوں کو سائیکل چلانے کا بہت شوق ہے‘ حالانکہ ہر شخص خوشحال ہے اور ایک نہیں بلکہ متعدد کاریں خرید سکتا ہے۔ کوپن ہیگن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس گھر میں ایک کار ہوگی وہاں چار سائیکل بھی ہوں گے۔ ہر سڑک کے ایک جانب سائیکل سواروں کے لیے علیحدہ لین ہے۔ اگر بڑی سڑک کو سائیکل والا کراس کر رہا ہو تو کار ڈرائیور گاڑی روک لیتا ہے‘ گویا سائیکل والے کا حق سڑک پر زیادہ ہے۔
سویڈن کے جنوب اور جرمنی کے شمال میں واقع یہ چھوٹا سا ملک کئی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ یہاں ہزار سال سے ایک ہی خاندان مسلسل حکومت کر رہا ہے‘ گو کہ اقتدار اصل میں اب پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے پاس ہے لیکن لوگ شاہی خاندان کا بہت احترام کرتے ہیں۔ جگہ جگہ شاہی محلات ہیں‘ تاہم زیادہ تر قدیم محلات اب میوزیمز میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
کوپن ہیگن صاف ستھرا اور منظم شہر ہے۔ پورے ملک کی آبادی محض 58 لاکھ ہے جو ہمارے لاہور کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی ہے۔ یہاں گرمیاں معتدل ہوتی ہیں۔ گھروں میں ایئرکنڈیشنر استعمال نہیں ہوتے۔ ایک مصنوعی مگر خاصی بڑی نہر شہر کے درمیان سے گزرتی ہے۔ یہاں بے شمار لوگ نہر کے کنارے جاگنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ سینکڑوں سائیکل چلا کر ورزش کا شوق پورا کر لیتے ہیں۔ ڈینش لوگ عام طور پر دراز قد اور صحت مند ہیں۔ بھورے بالوں والے اور بلوری آنکھوں والے۔ اس مختصر سی آبادی والے ملک نے پیرس اولمپکس میں پاکستان اور بھارت سے زیادہ میڈل جیتے ہیں۔
ٹیکس کی شرح تقریباً 40 فیصد ہے لیکن پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک تعلیم بالکل مفت ہے۔ علاج بھی مکمل فری ہے۔ میں نے ڈنمارک کے محاسن تو بہت گنوا دیے لیکن یہاں سرما کی لمبی راتیں کچھ زیادہ ہی طویل ہوتی ہیں۔ بوڑھے لوگ‘ جن کا مکمل خیال حکومت رکھتی ہے‘ اولڈ ایج ہومز میں تنہائی کا اکثر گلہ کرتے ہیں لیکن اس مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے حکومت عوامی فنکشن کراتی ہے۔ اجتماعی ریس کا اہتمام کرتی ہے جس میں شاہی خاندان کے لوگ بھی متعدد بار شریک ہوئے ہیں۔ (جاری)