یہ طے ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاک افغان تعلقات خراب تر ہوئے ہیں۔ عام پاکستانی یہ گمان کیے بیٹھا تھا کہ جیسے ہی افغانستان میں طالبان برسرِ اقتدار آئیں گے‘ محبت کا زم زم بہہ نکلے گا۔ اسلامی اخوت کی وہ ہوا چلے گی کہ ہر گوشۂ وطن مہک اٹھے گا۔ اس خطے میں ایک نئے اسلامی دور کا آغاز ہو گا اور عالمِ کفر لرزہ براندام ہو گا۔ بھارت میں خوف کی لہر دوڑ جائے گی اور وہاں کے مسلمان سُکھ کا سانس لیں گے۔ کوئی ہندو ان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے گا۔
یہ خواب ہم نے 1989ء میں بھی دیکھا تھا۔ پاکستان بھر میں ہم نے فتحِ مبین کا جشن منایا جب مجاہدین نے جلال آباد پر قبضہ کیا تھا۔ میری جوانی کے دن تھے۔ میں بھی بہت پُرجوش تھا کہ میری آنکھیں اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوتا دیکھ رہی ہیں۔ اس دن راولپنڈی کے نواح میں ایک تربیت گاہ تھی جس میں محترم قاضی حسین احمد کو بھی تشریف لانا تھا۔ معلوم ہوا کہ جلال آبادکی فتح جیسا غیرمعمولی واقعہ ہو گیا ہے اور انہیں اچانک افغانستان جانا پڑا ہے‘ اس لیے اس پروگرام میں شریک نہیں ہوں گے۔ قاضی صاحب اس خواب کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے اور ہم آج دوسرے خواب کی تعبیر دیکھنے کیلئے زندہ ہیں۔
اُس وقت کی معرکہ آرائی کا انجام‘ پاک افغان تعلقات کی ابتری تھی۔ طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد بھی یہ تعلقات ابتر ہوئے ہیں۔ مجاہدین پاکستان کی حمایت اور نصرت سے برسرِ اقتدار آئے تھے اور طالبان بھی۔ اس سوال کا اٹھنا فطری ہے کہ دونوں بار ہماری توقعات کیوں پوری نہ ہو سکیں؟ یہی نہیں‘ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی گفتگو سے تو یہ لگتا ہے کہ صوبے کی مقبول حکومت کا سربراہ اپنے صوبے کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی ہی ریاست کو کوس رہا ہے۔ یہ طالبان کی حکومت قائم ہو نے کا دوسرا نتیجہ ہے کہ ہم اس مسئلے پر سنگین داخلی اختلافات کا شکار ہو گئے ہیں۔
طالبان کے معاملے میں تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام ہم نوا ہیں۔ دونوں کے خیال میں یہ پاکستانی ریاست ہے جو غلطی کی مرتکب ہوئی ہے۔ طالبان کا مؤقف اور طرزِ عمل دونوں کے نزدیک درست ہیں۔ جماعت اسلامی بھی یہی رائے رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ البتہ مختلف نقطۂ نظر رکھتی ہیں۔ دونوں کے خیال میں یہ طالبان ہیں جن کی وجہ سے تعلقات میں تلخی در آئی ہے۔ رائے سازوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو طالبان کو درست سمجھتے ہیں۔
اس باب میں دو باتیں اہم ہیں۔ پہلی بات: ترقی پذیر دنیا میں شاید ہی کوئی دوسرا ملک ایسا ہو جہاں خارجہ پالیسی داخلی سیاست پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہو۔ کم و بیش تمام ممالک میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ ریاست ہے جو خارجہ امور کی ذمہ دار ہے اور عوام کو ان معاملات میں بلا سوچے سمجھے ریاست کا ساتھ دینا چاہیے۔ بھارت کی مثال لے لیجیے۔ وہاں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے‘ سب جانتے ہیں۔ اس کے باوصف وہاں خارجہ امور میں مسلمان ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کوئی قابلِ ذکر مسلمان مدرسہ یا جماعت مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں ریاست کی ناقد نہیں ہے۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان اور طالبان کے باہمی معاملات میں مذہب کا کوئی کر دار نہیں ہے۔ دونوں جب ایک دوسرے سے مذاکرات کرتے یا تنقید کرتے ہیں تو اس کی بنیاد ریاستی مفادات ہیں۔ طالبان کبھی ڈیورنڈ لائن کو دو ممالک کے درمیان سرحد ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ وہ اس معاملے کو افغانستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں نہ کہ اسلامی اخوت کی نگاہ سے۔ پاکستان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ دونوں نے زبانِ حال سے بتایا ہے کہ دونوں کے مفادات ایک نہیں ہیں بلکہ بعض صورتوں میں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔
میں پہلی بات کی مزید شرح کرتا ہوں۔ پاکستان میں ایک طبقہ ایسا ہے جو پاک بھارت اختلاف کے باب میں اکثر بھارت کے مؤقف کو درست سمجھتا ہے۔ ایک طبقہ پاک ایران تعلقات میں ایران کا حامی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ کا سانچہ قومی نہیں‘ نظریاتی یا مسلکی ہے۔ ان کے خیال میں نظریہ سیاسی وحدت کی اساس ہے۔ وفاداری کی بنیاد جب نظریہ ہو گا تو لازم ہے کہ انسان کی محبت کا مرکز بھی وہی ہو جو اس نظریے کی پہچان ہے۔ جیسے اشتراکیت کے مراکز کسی دور میں روس اور چین تھے۔ ایک طبقہ اُن دِنوں میں پاکستان کو بھی روس یا چین بنانے کی خواہش کرتا تھا۔ بعض نظریات کے حاملین کے لیے سعوری عرب‘ ایران اور ترکیہ ماڈل ہیں۔ ارادی یا غیرارادی طور پر ان لوگوں کی محبت کا محور پاکستان سے باہر ہے۔
پاکستان کے ایک بڑے طبقے کی طالبان سے وابستگی کی نوعیت بھی یہی ہے۔ یہ طبقہ پاکستان کو طالبان کی نگاہ سے دیکھتا اور پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کوئی حکم لگاتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ عملاً یہ کوئی 'نظریاتی‘ ریاست نہیں۔ جب نظریہ ریاست سے تعلق کی اساس بنا تو پھر اس کے کمزور ہونے سے ریاست کے ساتھ تعلق بھی کمزور ہو گیا۔ اس سے وہی بنیادی سوال پھر زندہ ہو جاتا ہے کہ ایک قومی ریاست کیا ایک نظریاتی ریاست ہوتی ہے؟
اب دوسری بات کی طرف آئیے۔ سوال یہ ہے کہ آج کی 'نظریاتی‘ ریاستوں کی خارجہ پالیسی کسی نظریے کے تابع ہے یا ان کے قومی مفادات کے؟ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ان کے پیشِ نظر قومی مفادات ہیں۔ طالبان نے پہلے دن سے پاکستان‘ ایران اور چین کے ساتھ تعلقات میں کوئی فرق نہیں رکھا۔ تینوں کے ساتھ تعلقات کی بنیاد ایک ہے: افغانستان کا مفاد۔ گویا نظریاتی تشخص رکھنے والی ریاست بھی جب سیاست کے معاملات کو عملی نظر سے دیکھتی ہے تو قومی مفادات کو اولیت دیتی ہے۔ افغانستان میں غزہ کے لیے کتنے احتجاجی جلوس نکلے؟ اسرائیل کے خلاف افغانستان نے کیا علمی قدم اٹھایا؟ جب ہم ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ خارجہ پالیسی کیسے بنتی ہے یا بننی چاہیے؟
پاکستان کی ریاست خارجہ پالیسی کے حوالے سے مسلسل ابہام کا شکار رہی ہے۔ جمہوری ہونے کے ناتے وہ عوامی جذبات کا خیال رکھنا چاہتی ہے اور عوامی مزاج کی تشکیل ان مذہبی بیانیوں کے زیرِ اثر ہوئی ہے جن میں قومی مفاد کا فہم شامل نہیں۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم خارجہ پالیسی کو قومی مفادات سے ہم آہنگ بنائیں لیکن اس سے پہلے عوام میں موجود قومی ریاست اور نظریاتی ریاست کے مخمصے کو دور کریں۔
پاکستان کے مسائل میں مسلسل اضافے کی بڑی وجہ ہمارے ابہامات ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی بھی اسی کا شکار ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو درست نہج پر استوار کر سکے ہیں نہ دیگر ممالک کے ساتھ۔ یہ ابہام سعودی عرب‘ ایران‘ افغانستان‘ ترکیہ‘ کسی ملک میں دکھائی نہیں دیتا۔ ہر ملک اپنے قومی مفاد کے بارے میں واضح ہے۔ اس مفاد کے راستے میں کوئی نظریہ حائل ہوتا ہے نہ کوئی تعلق۔
افغانستان کے مسئلے کو اسی ابہام نے اُلجھا رکھا ہے۔ اگر ہم طالبان کے ساتھ تعلقات کو اسی نظر سے دیکھیں جس نظر سے طالبان پاکستان کے ساتھ تعلق کو دیکھتے ہی تو معاملہ آسان ہو جائے۔ ایک افغان کے ساتھ اگر ایک قالین کی خرید و فروخت پر غور کیا جائے تو اس سے خارجہ پالیسی کا اصول بآسانی دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی نظریہ شامل ہوتا ہے نہ کوئی تعلق۔ دونوں اسے ایک سادہ کاروباری معاملہ سمجھتے ہیں‘ اسی لیے یہ خوش اسلوبی سے طے ہو جاتا ہے۔