"JDC" (space) message & send to 7575

بنگلہ دیش انقلاب‘ ہمارے لیے درس

بنگلہ دیش سیاسی سوچ میں ہمیشہ آگے آگے رہا ہے۔تقسیم سے قبل کہا جاتا تھا: What Bengal thinks today, India thinks tomorrow۔ یعنی بنگال جو آج سوچتا ہے‘ وہی اندازِ فکر ہندوستان کل کو اپنائے گا۔ یونائیٹڈ انڈیا میں مسلم علیحدگی کی داغ بیل بنگال ہی میں ڈالی گئی۔ 1905ء اور 1906ء میں بنگال میں دو اہم اور تاریخ ساز واقعات ہوئے جو تحریکِ پاکستان کا آغاز ثابت ہوئے۔ ایسٹ بنگال‘ جو مسلمانوں کی اکثریت کی آماجگاہ تھا‘ نے ہندو اکثریتی علاقے ویسٹ بنگال سے علیحدگی کا مطالبہ کیا۔ لارڈ کرزن نے بنگال کی تقسیم کا اعلان کر دیا لیکن بعد ازاں ہندو پریشر کی وجہ سے بنگال کو پھر سے اکٹھا کر دیا گیا۔ 1906ء میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی‘ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی نعمت میں بنگالی بھائیوں کا خاص حصہ ہے۔بنگلہ دیش کے سیاسی مزاج کو سمجھنے کے لیے اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ وہاں سیکولر اور اسلامی‘ دونوں سوچیں موجود ہیں۔ انڈیا نے سیکولرسوچ کا فائدہ اٹھا کر علیحدگی پسند خیالات کو خوب فروغ دیا لیکن جلد اس بات کا ادراک کر لیا کہ مشرقی بنگال کی علیحدہ شناخت بھی ہے اور اس میں دینی عنصر کا نمایاں کردار ہے۔ انڈیا تو وہاں گریٹر بنگال چاہتا تھا یعنی وہ چاہتا تھا کہ مشرقی اور مغربی بنگال کو یکجا کرکے پھر سے انڈیا کا حصہ بنا دیا جائے لیکن یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔ 1940ء میں لاہور میں قراردادِ پاکستان‘ شیرِ بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔ مشرقی پاکستان کے سیاستدان مغربی پاکستان والوں سے زیادہ عوامی سوچ رکھتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ وہاں جاگیردارانہ نظام نہیں تھا۔ مڈل کلاس مضبوط تھی‘ کوئی وڈیرہ اپنے مزارعوں کو حکم دے کر مجبور نہیں کر سکتا تھا کہ مجھے ووٹ دو۔ بنگال تعلیم میں بھی آگے آگے تھا۔ آج بھی کئی پاکستانی سٹوڈنٹس بنگلہ دیش میں زیرِ تعلیم ہیں۔
اور اب آتے ہیں بنگلہ دیش میں وقوع پذیر ہونے والے حالیہ واقعات کی طرف۔ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد گزشتہ پندرہ سال سے کرسیٔ اقتدار پر براجمان تھیں اور انہیں بھارت کی مکمل حمایت حاصل تھی‘ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کے دور میں بنگلہ دیش پر انڈیا کا مکمل غلبہ رہا۔ انہوں نے اپنی بڑی سیاسی حریف بیگم خالدہ ضیا کو قید میں رکھا۔ جماعت اسلامی کی قیادت کا ظالمانہ طریقے سے صفایا کردیا۔ امیر جماعت اسلامی مولانا غلام اعظم کو نوے سال کی عمر میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ایک سال بعد مولانا کا انتقال جیل میں ہی ہوا۔ پاکستان کی نیشنل اسمبلی کے سابق سپیکر فضل القادر چودھری کے بیٹے صلاح الدین چودھری کو 1971ء کے ''جرائم‘‘ کی پاداش میں سزائے موت دی گئی حالانکہ وہ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں موجود ہی نہیں تھے۔ یہ سارے ظلم بھارت کے ایما پر ڈھائے گئے۔
شیخ حسینہ واجد کے خلاف حالیہ تحریک کچھ عرصہ پہلے ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے کے لیے شروع ہوئی تھی۔ یہ کوٹہ سسٹم 1972ء میں شیخ مجیب الرحمن نے شروع کیا تھا۔ اس کوٹہ کی بنیاد کی بنا پر نصف سے زیادہ سیٹیں 1971ء کی جنگ میں حصہ لینے والے عوامی لیگ کے ورکرز اور ان کے بچوں کو ملتی تھیں‘ صرف 44 فیصد نوکریاں میرٹ کے لیے مختص تھیں۔ گویا ''فریڈم فائٹر‘‘ کا نام استعمال کرکے عوامی لیگ کے ورکر اور اس کے اہل و عیال مقابلے اور میرٹ سے بے نیاز ہو کر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے لگے تھے۔ 2018ء میں کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک چلی اور نوکریوں کی یہ بندر بانٹ بند کر دی گئی لیکن بعد میں بنگلہ ہائیکورٹ نے اس کوٹہ سسٹم کو بحال کر دیا۔ چند ہفتے قبل اس کوٹہ سسٹم کے خلاف پھر تحریک چلی تو بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے بپھرے ہوئے عوامی جذبات کو دیکھ کر حکم دیا کہ 93 فیصد نوکریاں میرٹ پر ملیں گی۔ 1971ء کے فریڈم فائٹرز کے خاندانوں کو پانچ فیصد کوٹہ ملے گا جبکہ ایک فیصد معذوروں اور ایک فیصد خواجہ سراؤں کے لیے مختص کیا گیا لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔ طالب علم حسینہ واجد کی ون پارٹی فاشسٹ حکومت کے تسلسل کے خلاف تھے۔ جوں جوں مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی گئی‘ تحریک میں مزید شدت آتی گئی۔ سوموار کے روز جب حسینہ واجد نے ڈھاکہ سے راہِ فرار اختیار کی‘ اس دن سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم کا خیال تھا کہ وہ فوج کی مدد سے مظاہرے کنٹرول کر لیں گی لیکن فوج کا مؤقف تھا کہ ہم اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔
میرے ایک سابق کولیگ ڈھاکہ میں سفارتکار رہ چکے ہیں۔ میں نے بنگلہ دیش کے حالیہ حالات پر ان کا ردِعمل پوچھا تو کہنے لگے کہ یہ تو نوشتۂ دیوار تھا۔ حسینہ واجد نے اپنے دونوں ادوارِ حکومت میں اپوزیشن کو دیوار سے لگائے رکھا‘ اسے شکر کرنا چاہیے کہ جان بچ گئی ورنہ بنگلہ دیش میں حکمران قتل بھی ہوتے رہے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن اور جنرل ضیا الرحمن اس کی مثالیں ہیں۔
آنے والے دنوں میں بننے والی بنگلہ دیش کی حکومت میں اب آرمی کا اچھا خاصا اثر و نفوذ ہو گا۔ اس بات کا اقرار البتہ کرنا ہو گا کہ حسینہ واجد کا دور سویلین برتری اور اقتصادی ترقی کا دور تھا۔ بنگلہ دیش کی صرف ٹیکسٹائل کی برآمدات پاکستان کی ٹوٹل ایکسپورٹ سے کہیں زیادہ ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طلبہ کے پریشر پر صدر شہاب الدین نے اسمبلی تحلیل کر دی ہے۔ بنگلہ دیش میں 2018ء اور جنوری 2024ء میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر بڑے سوالیہ نشان اٹھے۔ عام تاثر یہ ہے کہ عوامی لیگ نے ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی۔ اسی لیے سٹوڈنٹ لیڈر چاہتے ہیں کہ حسینہ واجد کی باقیات کو بھی ختم کیا جائے۔
اہم سوال اب یہ ہے کہ کیا اس سب کے بعد بنگلہ دیش میں بھارت کا اثر و رسوخ کم ہو جائے گا؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ بھارت کو حالیہ واقعات سےsetback ضرور ہوا ہے لیکن انڈیا کے دوست یا ایجنٹ بنگلہ دیش میں اب بھی موجود ہیں‘ وہ نئے سیٹ اَپ میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ موثوقہ اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش میں ہر سینئر لیول پروموشن کے لیے بھارت کی اشیر باد ضروری ہے اور یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔
شیخ حسینہ واجد کو ڈھاکہ چھوڑنے کے لیے صرف 45 منٹ کی مہلت ملی۔ وہ ڈھاکہ سے ہیلی کاپڑ پر اگرتلہ گئیں۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں پاکستان کے خلاف سازش کا آغاز ہوا تھا۔ پھر ایک جہاز انہیں دہلی کے قریب غازی آباد لے گیا جہاں انڈیا کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول موجود تھے۔ اتنے اہم شخص کو حسینہ واجد کے استقبال کے لیے بھیج کر بھارت کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ ہم مشکل وقت میں اپنے دوستوں کا ساتھ نبھاتے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا عوامی لیگ کی بنگلہ دیش سے چھٹی ہو گئی ہے؟ اس کا انحصار میری رائے میں اگلی حکومت کی کارکردگی پر ہوگا۔ ہم نے پاکستان میں دیکھا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ لوگوں کو عمران خان کی یاد پھر آنے لگی۔
اب یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس ساری صورتحال میں پاکستان کے لیے کیا سبق موجود ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ دھاندلی زدہ الیکشن سے جیتی ہوئی حکومت دیرپا نہیں ہوتی۔ ہم پاکستان میں یہ 2013ء‘ 2018ء اور اب 2024ء میں دیکھ چکے ہیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے مسائل کا حل آزاد اور شفاف الیکشن ہیں۔ کوٹہ سسٹم پاکستان میں بھی رائج ہے۔ آئین کے مطابق اسے کبھی کا ختم ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن خاتمے کے بجائے اس میں متعدد بار توسیع کر دی گئی۔ لائق‘ ذہین اور محنتی لڑکے لڑکیاں اچھے رزلٹ کے باوجود کوٹہ سسٹم کی وجہ سے نوکریوں سے محروم رہ جاتے ہیں کہ ان کا ڈومیسائل پنجاب یا سندھ اربن کا ہوتا ہے۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ایک اور کوٹہ سسٹم رائج ہوا جس کی بنا پر ایک ادارے کو ڈی ایم جی‘ فارن اور پولیس سروس میں 10فیصد سیٹیں ملتی ہیں۔ یہ بھی سراسر زیادتی ہے کیونکہ کوٹہ سسٹم کمزور طبقات کی مدد کیلئے ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں