"JDC" (space) message & send to 7575

مڈل ایسٹ کا کمبل اور امریکہ

امریکہ ایک عرصہ سے اس کوشش میں ہے کہ مڈل ایسٹ کا کمبل اسے چھوڑ دے اور وہ اپنی تمام تر توجہ چین کے ساتھ مقابلے پر مرکوز کر دے۔ افغانستان اور عراق میں لڑی گئی دونوں جنگیں طویل تھیں۔ امریکہ نے بے تحاشا وسائل صرف کیے مگر دونوں جنگیں بے ثمر اور امریکی عوام میں غیر مقبول رہیں۔ امریکہ کا عالمی دبدبہ بھی کم ہوا۔ ماضی قریب میں امریکہ کو امید ہو چلی تھی کہ اب مڈل ایسٹ سے نکلنا ممکن ہو جائے گا۔ عرب ممالک اسرائیل کو یکے بعد دیگرے تسلیم کر رہے تھے‘ اسرائیل دفاعی اور اقتصادی طور پر بڑی قوت بن چکا تھا ...اور پھر غزہ کی جنگ شروع ہو گئی۔ اب امریکہ کے پاس اسرائیل کی مالی‘ دفاعی اور سفارتی حمایت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
اب آتے ہیں حالیہ ایران اسرائیل کشیدگی کی جانب جو متعدد سوال چھوڑ گئی ہے۔ ایران اور اسرائیل دونوں اسے اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ اس جنگ کی بنیاد دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملہ تھا جس میں متعدد اشخاص‘ بشمول تین پاسداران کمانڈرز‘ مارے گئے۔ اسرائیل نے کھلم کھلا شامی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور ایرانی سرزمین پر حملہ کیا کیونکہ ہر سفارت خانہ اپنے ملک کی زمین تصور کیا جاتا ہے۔ سفارت خانوں کو سفارتی استثنا حاصل ہوتا ہے۔ بغیر اجازت وہاں داخلہ بھی ممنوع ہوتا ہے۔ پاسداران پر شام کی سر زمین پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا‘ لیکن چونکہ یہ سفارتی آداب کی بھی خلاف ورزی تھا‘ لہٰذا ایرانی حکومت پر شدید دباؤ تھا کہ اس حملے کا جواب ضرور دیا جائے۔
تل ابیب سے دمشق کا فاصلہ ساڑھے تین سو کلو میٹر ہے اور اگر جولان سے دمشق کو نشانہ بنانا ہو تو قریب تر بھی ہے اور آسان بھی۔ لیکن جس طرح اسرائیل نے شام اور جنوبی لبنان میں تیر بہدف نشانے لگائے ہیں‘ اس سے ماڈرن جنگ میں ٹیکنالوجی کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ قاسم سلیمانی کی شہادت سے لے کر اب تک کے حملوں میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل کے میزائل تیر بہدف ثابت ہوئے ہیں۔
تہران سے تل ابیب کا فضائی فاصلہ تقریباً 1650کلو میٹر ہے۔ یہاں سے میزائل تو اسرائیل میں پانچ منٹ میں پہنچ جاتے ہیں لیکن ڈرون کو چند گھنٹے لگتے ہیں۔ اتنی دور سے آنے والا ہتھیار عموماً نشانے کو خطا کر جاتا ہے۔ آپ غور کریں کہ تین سو کے قریب ہتھیار پانچ گھنٹے تک اسرائیل کے طول و عرض میں گرے مگر ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی۔ ان میں سے بہت سارے میزائلز اور ڈرونز تو امریکہ نے اسرائیل میں داخل ہونے سے قبل ہی مار گرائے اور یہ سارا عمل اُردن کی فضائی حدود میں ہوا۔ اس حملے کے بعد عرب سوشل میڈیا کا مطالعہ دلچسپ رہا۔ کسی ستم ظریف نے لکھا کہ یہ عجیب جنگ تھی کہ آناً فاناً شروع ہوئی اور فوراً ختم بھی ہو گئی لیکن یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں کہ جنگ مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر چند عربوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ 1973ء کے بعد صرف ایران ایسا ملک ہے جس نے اسرائیل پر حملے کی جرأت کی ہے۔
اب جو سوال بار بار پوچھا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا یہ جنگ طول پکڑے گی اور کیا یہ عالمی جنگ میں تبدیل ہو جائے گی؟ میرا تجزیہ یہ ہے کہ جنگ کے وسیع تر ہونے کے امکانات کم ہیں۔ ایران نے کہا ہے کہ ہم نے دمشق کے حملے کا بدلہ لے لیا ہے۔ ایرانی شہروں میں حکومت کے حق میں جلوس نکلے ہیں مگر ساتھ ہی پٹرول پمپس پر لمبی قطاریں لگ گئیں۔ ایرانی کرنسی مزید گر گئی۔ اپنے موجودہ اقتصادی حالات کی وجہ سے ایران کسی لمبی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اقوامِ متحدہ غزہ میں مکمل اور دیر پا جنگ بندی کرانے میں ناکام رہی ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے جی سیون کا سہارا لیا ہے کہ اسرائیل کے لیے سفارتی حمایت کا اظہار کرکے اسے جنگ کو وسیع تر کرنے سے روکا جائے۔ یورپی یونین بھی اسی حق میں ہے کہ جنگ زیادہ طوالت اور وسعت اختیار نہ کرے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اگر ایران اسرائیل جنگ وسعت اختیار کرتی ہے تو توانائی کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ امریکہ بھی اسرائیل کو اشارے دے رہا ہے کہ اب اس معاملے کو سمیٹ لو‘ تمہیں مزید دفاعی اور اقتصادی امداد دی جائے گی۔ ایران کے حملے کی وجہ سے امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی وغیرہ میں اسرائیل کے لیے ہمدردی کے جذبات پھر سے ابھرے ہیں۔ یہ سارے ممالک پہلے ہی یوکرین کے دفاع میں مصروف تھے کہ مڈل ایسٹ کے حالات میں شدید تناؤ آ گیا۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ ایک جنگ تو ختم ہو تاکہ عالمی طور پر توانائی کی قیمتیں نہ بڑھیں۔ افراطِ زر قابو میں رہے۔ عالمی اقتصادی حالات کساد بازاری کا شکار نہ ہوں اور امریکہ پھر سے یکسوئی سے اپنی پوری توجہ چین پر مرکوز کر سکے۔ ادھر ایران کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو مڈل ایسٹ میں امریکی فوجی اڈے اس کا ہدف ہوں گے اور یہ عسکری بیس ایران کے قریب ہی قطر اور بحرین میں واقع ہیں۔ صدر بائیڈن کی پوری کوشش ہو گی کہ الیکشن کے سال میں ایسی پریشان کن صورتحال پیش نہ آئے۔
ایران اور اسرائیل کے مابین موجودہ صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا ہے کہ دنیا کی توجہ غزہ کے مظلوموں سے ہٹ گئی ہے۔ چند عرب ممالک تو یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ غزہ سے حماس کا خاتمہ ہو جائے کیونکہ وہ حماس کو دہشت گرد تنظیم تصور کرتے ہیں اور یہ بات کل الجزیرہ کے ایک معروف تجزیہ کار سروان بشارہ نے کہی ہے۔ مڈل ایسٹ کی موجودہ صورتحال پاکستان کیلئے یقینا تشویشناک ہے اسی لیے وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں عسکری حل کے بجائے سفارتی کوشش سے امن کے حصول پر زور دیا ہے۔ امن کے راستے میں ایک رکاوٹ یہ آ سکتی ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت متعدد سیاسی جماعتوں کی کولیشن ہے اور اس میں دائیں بازو کی انتہا پسند پارٹیاں بھی شامل ہیں جو اس بات کا پرچار کر رہی ہیں کہ ایران اس وقت کمزور حالت میں ہے۔ خطے میں صرف حماس‘ حزب اللہ اور حوثی اس کے ساتھ ہیں‘ لہٰذا یہ اچھا موقع ہے کہ ایران کو مزید کمزور کیا جائے۔ کیا وزیراعظم نیتن یاہو اس دباؤ کا مقابلہ کر پائے گا۔ یہ وقت ہی بتائے گا۔
مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی شروع سے ایک کمزور تنظیم رہی ہے۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک تقریباً پچاس ملک اس کے ممبر ہیں۔ ہر قابلِ عمل فیصلہ مکمل اتفاقِ رائے سے ہوتا ہے۔ تنظیم کے کئی ممبران اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھتے ہیں تو ایسی صورت میں اسرائیل مخالف پروگرام پر اتفاقِ رائے کیسے ہو سکتا ہے۔ مسلم ممالک تو اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ اور نہ ہی اپنی فضائی حدود کو اسرائیلی پروازوں کے لیے بند کر سکے ہیں۔ پاکستان نے اپنے تئیں اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کے پلیٹ فارم سے امن کی کوششیں کی ہیں۔ یہ جنگ اگر طول پکڑتی ہے تو اس کی حدت پاکستان تک آئے گی۔ ایران اور خلیجی ممالک میں دوریاں پھر سے بڑھنے لگیں گی۔ خلیجی ممالک اس صوتحال میں چاہیں گے کہ امریکہ فی الحال خطے سے نہ جائے۔ زیادہ طاقتور ایران نہ اسرائیل کے مفاد میں ہے اور نہ ہی خلیجی ممالک ایسا چاہیں گے۔
اب پوری دنیا کا فرض ہے کہ مڈل ایسٹ میں دیرپا امن کا راستہ تلاش کرے اور وہ راستہ فلسطین میں دو ریاستی حل ہے۔ بصورت دیگر وقفے وقفے سے تناؤ پھر آتا رہے گا اور مڈل ایسٹ کا کمبل امریکہ کو نہیں چھوڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں