"JDC" (space) message & send to 7575

اسحاق ڈار بطور وزیر خارجہ

وزارتوں کی تقسیم میں وزارتِ خارجہ کا قلمدان اسحاق ڈار کو تفویض کرنا ایک عالم کو حیران کر گیا لیکن شاید یہ ڈار صاحب کیلئے اچھا ثابت ہو کہ وزارتِ خزانہ اب بہت پریشر والی وزارت بن چکی ہے اور اگر کوئی اچھا پروفیشنل آئی ایم ایف سے بہتر انداز میں ڈیل کر سکتا ہے تو یہ ملک کیلئے اچھا ہو گا۔ کچھ سیاسی پنڈت یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مستقبل میں پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ بن جائے گی اور بلاول بھٹو زرداری دوبارہ وزارتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالیں گے‘ لیکن مفروضوں پر بات کرنے کے بجائے ہم اپنی بحث اس دائرے میں رکھیں گے کہ خارجہ امور کو کس طرح احسن طریقے سے چلایا جا سکتا ہے اور یہ کہ ضروری کرنے کے کام کون کون سے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا اپنے اہداف کا درست تعین اور ان کا حصول بھی قومی مفاد کیلئے از بس ضروری ہے۔
خارجہ پالیسی کا اولین ہدف امن کا حصول اور ملکی اقتصادی ترقی ہوتا ہے اوراس سلسلہ میں ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں ہمارے دوست ممالک کی تعداد سکڑ گئی ہے۔ لہٰذا نئے اور اچھے دوست بنانے کی ضرورت ہے۔ اچھے دوست صرف وہی نہیں ہوتے جو آپ کے حق میں بیان داغ دیں بلکہ اس سے بھی اہم‘ اچھے دوست وہ ہوں گے جو پاکستان میں سرمایہ کاری کریں‘ ہمارے ساتھ تجارت بڑھائیں‘ مثلاً یورپی یونین کے ممبر ممالک نے چند سالوں سے ہمیں جی ایس پی پلس سٹیٹس دیا ہوا ہے جس سے یورپ کو ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا۔ یورپ کی طرف سے پاکستان کیلئے یہ دوستانہ اقدام تھا۔ہمارا فارن آفس اچھی خاصی باصلاحیت وزارت ہے اور ڈار صاحب اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں۔ میرا مشورہ ہو گا کہ نئے وزیر خارجہ فارن آفس کی پروفیشنل آرا کو مکمل اہمیت دیں بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ ملک کی بیرونی تشہیر بھی فارن آفس کے فرائض میں شامل ہونی چاہئے۔ اس وقت یہ کام انفارمیشن منسٹری کرتی ہے اور External publicity wing خاصا کمزور ہو گیا ہے۔ اسطرح اکنامک افیئرز ڈویژن کا فنکشن بھی فارن آفس کے پاس ہونا چاہئے۔ تجارت کے فروغ میں بھی فارن سروس ایک فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔ ڈار صاحب اقتصادی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے پانچ سال میں فارن سروس کی تنظیم نو ہونی چاہئے۔ یہ بات یقین سے کہہ رہا ہوں کہ کسی بھی ملک کی عزت اس کی اقتصادی قوت کی بدولت ہوتی ہے اور ڈار صاحب کو اس بات کا بخوبی ادراک ہوگا۔ اقتصادی ترقی نئی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور فارن سروس اس میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔ بھارت کی متاثر کن اقتصادی ترقی کی بڑی وجہ بیرونی سرمایہ کاری ہے جس میں بھارتی سفارتکاروں کا کردار فعال رہا ہے۔ تو ہمیں بھی فارن آفس کا مینڈیٹ وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے اور اس کیساتھ ہی ہمیں اپنے سفارتکاروں کی تربیت پر بھی نظر ثانی کرنی چاہئے۔ ہمارے ہر سفارتکار کو تجارتی امور پر مکمل عبور ہونا چاہئے۔ اسے یہ بھی پتا ہونا چاہئے کہ پاکستان کی کلچرل پروجیکشن کیسے کرنی ہے۔ بدقسمتی سے دنیا آج ہمیں دہشت گردی کا گہوارہ سمجھتی ہے۔ ہمارے سفارتکار دنیا کو بتائیں کہ پاکستان اقبالؔ اور فیضؔ جیسے عالمی لیول کے شعرا بھی پیدا کر چکا ہے اور صادقین جیسے مصور بھی۔ خلیج سے لے کر افغانستان تک عالمی امن کیلئے پاکستان کا کردار مسلمہ ہے۔
ہمارے تربیتی اداروں میں تھیوری پر زیادہ زور رہتا ہے اور پریکٹیکل پر کم۔ ہمارے ہر نئے سفارت کار کو سائفر اور ڈی سائفر کی تربیت ہونی چاہئے‘ اسے سفارت خانے کا ماہانہ کیش اکائونٹ بھی بنانا آنا چاہئے تاکہ وہ بطور تھرڈ سیکرٹری اکائونٹنٹ کی مؤثر نگرانی کر سکے۔ ہر نئے سفارت کار کو کم از کم ایک ماہ وزارتِ تجارت یا ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کیساتھ منسلک کیا جائے اور بعد میں امتحان بھی لیا جائے۔ فارن سروس کیلئے اول تو پبلک سروس کمیشن کا امتحان ہی علیحدہ ہونا چاہئے‘ اگر یہ نہ ہو سکے تو کم از کم فارن سروس میں آنے والوں کا نفسیاتی ٹیسٹ علیحدہ سے کیا جائے۔ یہاں ایسے افسر کامیاب رہتے ہیں جو ملنسار ہوں‘ اچھی بات چیت کو نہ صرف انجوائے کریں بلکہ اسے ملکی مفاد کے لیے استعمال کریں اور میزبان ملک کے لیڈر‘ وزرا اور سینئر افسر اُن کی گفتگو سے متاثر ہوں۔فارن پالیسی کے تطبیقی عمل میں ہمسایوں سے اچھے تعلقات استوار کرنا ڈار صاحب کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔ بھارت‘ افغانستان اور ایران سے تعلقات بہتر بنانا اس حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اس میں وقت ضرور لگے گا‘ محنت اور یکسوئی بھی درکار ہوگی اور پھر بطور قوم ہماری عزتِ نفس بھی ہے۔ اپنی آزادی اور آزاد فیصلہ سازی کا دفاع ہمارا فرض ہے لیکن یہ بات بھی حتمی ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ ٹینشن کے ماحول میں اقتصادی ترقی خاصی دشوار ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری بھی وہاں آتی ہے جہاں سیاسی استحکام ہو اور بارڈر محفوظ ہوں۔ حال ہی میں ایک گریڈ بیس کے اچھے افسر کو انڈیا بطور سی ڈی اے بھیجا گیا ہے اور یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی کا عمل پھر سے چلنا چاہئے۔ تجارت کے بارے میں ایک ایکسپرٹ کمیٹی فوری تشکیل دی جائے جو اس بات کو سٹڈی کرے کہ بھارت کے ساتھ براہِ راست تجارت میں ہمیں کتنا فائدہ ہو گا اور کتنا نقصان۔ اسی طرح اگر ہم بھارت کو افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک تجارتی راہداری دیتے ہیں تو بھی نفع و نقصان کی صورت حال کیا ہو گی۔افغانستان کی حکومت چاہتی ہے کہ اس کے شہریوں کی واپسی کا سلسلہ ذرا سست کر دیا جائے اور پاکستان چاہتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو اپنے ملک میں دہشت گردی کے لیے کابل سے نہ کوئی حوصلہ افزائی ہو اور نہ امریکی ہتھیار اس کے ہاتھ لگیں بلکہ کابل حکومت پاکستان میں دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کرے اس ضمن میں ڈائیلاگ کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال کو روکنا بھی ضروری ہے۔
ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہمارے لیے بے حد ضروری ہیں۔ بارڈر کے دونوں جانب دہشت گرد تنظیموں کی مکمل حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں مشترکہ بارڈر گشت کی تجویز جو عرصے سے چل رہی ہے‘ اس پر عمل ہونا چاہئے۔ ہم نے امریکہ اور چین‘ دونوں کیساتھ تعلقات رکھنے ہیں۔ سی پیک کا فیز ٹو شروع ہوا چاہتا ہے۔ ڈار صاحب کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے کہ فیز ٹو میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے۔بدقسمتی سے پاکستانی حکومت اب بھی تقریباً بیس فیصد نان کیریئر سفیر باہر سفارت خانوں میں متعین کرتی ہے۔ کسی اناڑی کو بھاری خرچ کرکے باہر دو‘ تین سال اہم اور حساس عہدے پر رکھنا قومی مفادات سے چشم پوشی بھی ہے اور قومی خزانے پر بوجھ بھی۔ بھارت کب کا یہ روش ترک کر چکا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ بھارت والے ہمارے سفارتکاروں کو رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے‘ اب معاملہ الٹ ہے۔ ڈار صاحب کو اس کی تصحیح کرنی چاہئے۔
یہ وزارتِ خارجہ کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ڈار صاحب کی صورت میں سیاسی اعتبار سے ایک معتبر شخصیت ملی ہے۔ انہیں اپنے دورِ وزارت میں فارن الائونس پر بھی نظر رکھنی چاہئے اور اچھی کارکردگی کیلئے سروس کا اچھا مورال بھی ضروری ہے۔ہر وزارت میں پالیسی وزیر کا شعبہ ہوتا ہے جبکہ انتظامی امور سیکرٹری کا استحقاق ہوتے ہیں۔ اس حد بندی کو تحریک انصاف کی حکومت میں شاہ محمود قریشی نے خاصا ڈسٹرب کیے رکھا۔ وزارت کو احسن طریقے سے چلانے کیلئے اس حد بندی کی پاسداری ضروری ہے۔
شنید ہے کہ موجودہ فارن سیکرٹری سائرس سجاد قاضی ریٹائر ہونے والے ہیں‘ انہوں نے میرے ساتھ کبھی کام تو نہیں کیا لیکن ہر کسی سے ان کی تعریف ضرور سنی ہے۔ بہتر ہوگا کہ نئے فارن سیکرٹری کی آمد میں چندے تاخیر کر دی جائے‘ ویسے تو طارق فاطمی وزیراعظم آفس میں موجود ہوں گے لیکن ڈار صاحب کو ابھی کچھ عرصہ ہمہ وقت مشورے کی ضرورت ہوگی۔اسحاق ڈار بطور وزیر خزانہ بیرونی ممالک سے ڈیل کر چکے ہیں لیکن اب زاویہ بدل گیا ہے۔ سنا ہے کہ وہ محنتی شخص ہیں لہٰذا ان کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں