ڈنمارک چونکہ شینگن معاہدے کا ممبر ہے‘ لہٰذا ڈینش ویزہ پر آپ یورپ کے دو درجن سے زائد ممالک میں جا سکتے ہیں۔ کوپن ہیگن سے سویڈن جانا بہت آسان ہے‘ درمیان میں سولہ کلومیٹر سمندر ہے جس پر 2000ء میں پل بنا کر دونوں ممالک کے درمیان سفر کو نہایت آسان کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ ہم نے سویڈن میں بھی چند روز گزارے۔ سویڈن رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ڈنمارک سے بڑا ہے۔ کوپن ہیگن سے سویڈن کا نزدیک ترین شہر مالمو (Malmo) ہے جہاں جانے میں صرف ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
سویڈن میں ہم نے ٹرین سے بھی سفر کیا۔ ٹرین میں داخل ہوتے ہی دلچسپ ہدایات پر نظر پڑی۔ پہلی ہدایت تھی Please Avoid Conversation‘ اور دوسری ہدایت تھی کہ اپنے موبائل فون خاموش کر دیں۔ پتا چلا کہ یہ لوگ سکون پسند اور ٹھنڈے مزاج کے ہیں‘ ہر شخص اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ یہاں پر لوگ آپ کو گروہوں میں بہت کم ملیں گے۔ مل بیٹھ کر گپ شپ کرنے کا رواج یہاں نہیں ہے۔ لوگ صحت کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ پیدل چلنا‘ جاگنگ یعنی ایک متواتر سپیڈ پر دوڑنا اور سائیکل چلانا لوگوں کے پسندیدہ مشغلے ہیں۔ مے خانے جگہ جگہ موجود ہیں لیکن میں نے کسی شخص کو نشے میں دُھت نہیں دیکھا۔
یہ ممالک انرجی کے نئے ذرائع کی جانب جا رہے ہیں۔ یہاں ہوا چونکہ خاصی تیز چلتی ہے لہٰذا ڈنمارک اور سویڈن‘ دونوں ممالک میں ہوائی چرخیاں عام ہیں۔ سولر سے بھی بجلی بنانے کا رواج عام ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ تمام کی تمام بجلی پر چلتی ہے لہٰذا شہر کی ہوا صاف اور صحت بخش ہے۔ واک کرنے کا مزہ آ جاتا ہے۔ پیدل چلنے والے اور سائیکل سوار کا احترام کار والے پر فرض ہے۔ ہارن بجانا یہاں بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ شہر کے اندر بہت کم کار ڈرائیور ایک دوسرے کو اوورٹیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حکومتی پالیسی ہے کہ کاغذی کرنسی کو اگلے دو‘ تین سال میں مکمل ختم کر دیا جائے اور تمام ادائیگیاں ڈیجیٹل ہوں۔ اب بھی بینکوں میں چیک نہیں چلتے‘ جسے کرنسی لینی ہو وہ اے ٹی ایم سے لیتا ہے۔ ٹرین ٹکٹ اور بس ٹکٹ کریڈٹ کارڈ سے ہی لیے جا سکتے ہیں‘ وہ لوگ کرنسی نوٹ لینے سے انکاری ہیں۔
ڈینش حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کوپن ہیگن شہر میں کم سے کم کاروں کو آنے دیا جائے‘ لہٰذا اس مقصد کے حصول کے لیے شہر میں پارکنگ فیس خاصی بڑھا دی گئی ہے۔ چونکہ بس اور ٹرین کے کرائے نہایت معقول ہیں‘ لہٰذا لوگ کار کا کم سے کم استعمال کرنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ سائیکل کے ساتھ دو پہیے والی مختصر سی ٹرالی لگا لیتے ہیں۔ اس طرح بائیسکل‘ ٹرائی سائیکل بن جاتا ہے۔ اس کے ذریعے بچوں کو سکول چھوڑا جا سکتا ہے۔ شاپنگ کا سامان بھی ٹرالی میں رکھا جا سکتا ہے۔
کوپن ہیگن کے درمیان میں ایک لمبی اور وسیع گلی ہے‘ جسے واکنگ سٹریٹ کہا جاتا ہے۔ یہاں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس صاف ستھری گلی میں دنیا جہاں کے برانڈ موجود ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ سیاحوں کا مرغوب شاپنگ ایریا ہے۔ اس سڑک کے اردگرد اعلیٰ قسم کے ریسٹورنٹس اور مشرب یعنی Bars ہیں۔
واکنگ سٹریٹ کے مدخل کے سامنے ہی ایک وسیع و عریض سکوائر ہے اور اس کے پچھواڑے سے وہ کشتیاں چلتی ہیں جو نہر میں چلتے چلتے ایک گھنٹے میں آپ کو شہر کی متعدد اہم عمارتوں کا دور سے نظارہ کرا دیتی ہیں۔ ایک کشتی میں تقریباً اسی لوگ بیٹھ جاتے ہیں۔ سامنے اوپرا ہائوس ہے آگے پرانی بندرگاہ ہے جس کا بہت سا کام اب سویڈن شفٹ ہو چکا ہے اور اب ایک تاریخی چرچ ہمارے سامنے ہے۔ اس سے آگے نیوی کا بیس ہے۔ کشتی میں رواں تبصرہ دلچسپ ہے۔ ایک گھنٹے کا سفر یوں لگتا ہے کہ جیسے چند منٹوں میں تمام ہوا۔
Tivoli کوپن ہیگن میں سیاحوں کے لیے ایک پُرکشش مقام ہے۔ یہاں انواع واقسام کے پھول ہیں۔ مختلف کیفے اور ریسٹورنٹس ہیں۔ بچوں کے طرح طرح کے بجلی سے چلنے والے جھولے ہیں۔ اس کی وجۂ شہرت لکڑی کا رولر کوسٹر ہے۔ رولر کوسٹر تیز ہوتا ہے تو بچوں کے چیخنے کی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ تین‘ چار جگہ موسیقی اور گانوں کے کنسرٹس ہو رہے ہیں۔ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک‘ سب کی تفریح کا بندوبست ہے۔
ڈنمارک کا شہر Aarhus حال ہی میں دنیا کا سب سے خوش مزاج شہر قرار پایا ہے لیکن کوپن ہیگن میں بڑے بوڑھے تنہائی کا شکار بھی ہیں۔ اولاد اپنی راہ لیتی ہے تو پالتو کتا یا بلی ان کے رفیق رہ جاتے ہیں مگر خوشحالی ایسی ہے کہ شاید ہی کوئی چھت کے بغیر ہو۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا تو پاکستان میں لیکن اس کی عملی صورت میں نے ڈنمارک اور سویڈن میں دیکھی ہے۔ کسی نوجوان کو فکر نہیں کہ اس کی جاب کا کیا بنے گا۔ قانون اور میرٹ کی حکمرانی ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ ایک پاکستان نژاد شخص ڈنمارک کی اعلیٰ عدلیہ کا جج ہے۔
کوپن ہیگن جیسی صاف ستھری منظم اور وقت کی پابند انڈر گرائونڈ ٹرین میں نے بہت کم دیکھی ہے۔ ایک ہی وقت میں شہر کے نیچے درجنوں ٹرینیں چل رہی ہیں۔ ہر ٹرین وقت پر ہے۔ ٹرین کے اندر پُراسرار سی خاموشی ہے۔ کیا مجال کہ فرش پر آپ کو کاغذ کا ٹکڑا بھی نظر آ جائے یا کسی نے ٹکٹ پھاڑ کر پھینکا ہو۔ لندن کی مشہور ٹیوب کے مقابلے میں کوپن ہیگن کی انڈر گرائونڈ بہت صاف ستھری ہے۔
Tivoli گارڈن سے باہر نکلے تو بھوک خوب لگی ہوئی تھی۔ گارڈن کے اندر کھانا اس لیے نہیں کھایا کہ وہاں ریسٹورنٹس بہت مہنگے ہیں۔ قریب ہی ایک پیزا ریسٹورنٹ تھا۔ اتفاق سے وہاں کا منیجر پاکستانی تھا۔ اس نے پوچھا کہ پاکستان کے کس شہر سے آئے ہیں؟ میں نے جواب دیا: اسلام آباد سے۔ تو شرارت سے بھرپور مسکراہٹ لیے بولا: تو پھر آپ چوروں کے شہر سے آئے ہیں۔ یہ بڑا سخت‘ سیاسی قسم کا بیان تھا اور اس بات کا غماز تھا کہ سمندر پار پاکستانی ملک کی موجودہ صورتحال سے خاصے نالاں ہیں۔ یہاں پاکستانی کمیونٹی تقریباً پچاس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثریت ٹیکسی ڈرائیونگ کا کام کرتے ہیں‘ جو خاصا نفع بخش پیشہ ہے۔ اکثر پاکستانی گجرات‘ کھاریاں اور منڈی بہاء الدین سے تعلق رکھتے ہیں۔
تجارتی لحاظ سے ڈنمارک پاکستان کے لیے اہم ملک ہے۔ ڈنمارک کو ہماری برآمدات تقریباً اڑھائی سو ملین ڈالر ہیں جو زیادہ تر ٹیکسٹائل سے متعلق ہیں۔ کورونا کی وبا کے بعد ہماری برآمدات خاصی بڑھی ہیں لیکن بڑی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ ڈنمارک کی حکومت کی رائے کے مطابق پاکستان سفر کرنا خطرناک ہو سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈینش تاجر پاکستان نہیں جاتے۔
کوپن ہیگن سے باہر نکل جائیں‘ تو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے۔ بڑے بڑے جنگلات ہیں‘ ہرے بھرے کھیت میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں جہاں کوئی کسان یا مزدور نظر نہیں آتا۔ زراعت میں مشینری کا استعمال عام ہے۔ یورپ کا یہ شمالی کونہ خاصا مختلف اور دلچسپ ہے۔ (جاری)