قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی وفات‘ آئین سازی میں مسلسل تاخیر‘ وزیراعظم لیاقت علی خان کے ناگہانی قتل اور گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے بلا وجہ اور بلا مقصد دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کیے جانے کے بعد جس ایشو نے پاکستان میں سیاست کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا‘ وہ اسکندر مرزا کی ریشہ دوانیاں تھیں۔ اسکندر مرزا جنگ پلاسی کے غدار میر جعفر کے پڑپوتے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو کردار میر جعفر نے جنگ پلاسی میں ادا کیا تھا‘ ویسا ہی حال اسکندر مرزا نے پاکستان کی سیاست کا کیا۔
اسکندر مرزا فوج میں اعلیٰ عہدے تک کیسے پہنچے‘ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ اسے مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اسکندر مرزا کا تعلق نوابینِ بنگال سے تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کو 1757ء میں شکست دی تھی۔ اس جنگ میں سراج الدولہ کے جنرل میر جعفر علی خان نے غداری کرتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کا ساتھ دیا تھا۔ اسی خدمت یعنی نمک حرامی کے صلے میں میر جعفر علی خان کو بنگال کا نواب بنا دیا گیا تھا اور اس کا خاندان بعد میں نوابینِ بنگال کہلایا۔ اسکندر مرزا کا تعلق انہی نوابینِ بنگال سے تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانوی حکومت نے ہندوستان کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو فوج کی قیادت میں شامل کرنے کے لیے انہیں برطانیہ کیRoyal Military Academy Sandhurst سے تربیت دلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے جن پانچ نوجوانوں کا انتخاب کیا گیا ان میں اسکندر مرزا بھی شامل تھے۔ ان پانچوں میں صرف اسکندر مرزا ہی فوج میں کمیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اسکندر مرزا نے 1930ء میں فوج کو خیرباد کہہ دیا اور سول سروس میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس عرصے میں وہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ 1951ء تک سیکرٹری دفاع رہے اور پھر ہوتے ہوتے صدرِ پاکستان بن گئے۔
اسکندر مرزا کو سیاسی جوڑ توڑ کا بادشاہ مانا جاتا تھا۔ انہوں نے پاکستان کی سیاست کا رخ تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا‘ لیکن پھر ان سے ایک ایسا اقدام سرزد ہو گیا جس نے نہ صرف انہیں بلکہ پاکستان کی سیاست کو بھی ڈی ریل کرنے کر دیا۔ تب سے ڈی ریل ہوئی پاکستانی سیاست کبھی پوری طرح سے پٹڑی پر نہیں چڑھ سکی۔ اسکندر مرزا نے اُسی آئین کو معطل کر دیا جس کے تحت وہ صدارت کے عہدے پر براجمان ہوئے تھے۔ آئین معطل کرنے کی وجہ وہ انتخابات تھے جو اسکندر مرزا مسلسل ملتوی کرتے چلے آ رہے تھے۔ آئین معطل کر کے دراصل انہوں نے وہی شاخ کاٹ دی تھی جس پر وہ خود بیٹھے تھے۔ اسکندر مرزا کس طرح صدارت سے الگ کیے گئے اور کیسے جلا وطن کر دیے گئے‘ جس کے بعد صدر ایوب خان کا گیارہ سالہ دور شروع ہوا‘ یہ اب قومی تاریخ کا حصہ ہے۔ ایوب خان کت دور میں ملک نے کچھ ترقی تو کی‘ لیکن سیاسی لحاظ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ صدر ایوب خان نے بھی انتخابات کرا کے اقتدار کسی منتخب سیٹ اَپ کے حوالے کرنے کے بجائے ایک اور آمر کے سپرد کر دیا۔ اسی دوران عام انتخابات‘ مشرقی پاکستان میں آپریشن اور 'یہاں ہم وہاں تم‘ جیسے معاملات نے سیاست اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر نہ چڑھنے دیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 'نئے پاکستان‘ میں انتخابات اور آئین سازی کا مرحلہ کسی نہ کسی طرح طے ہو گیا تو چھ سال بعد ہی ایک اور آمر نے جمہوریت کا راستہ مسدود کر دیا جس کے نتیجے میں ایک نئے گیارہ سالہ آمرانہ دور کا آغاز ہو گیا۔ یہ گیارہ سالہ دور ختم ہوا تو اگلے گیارہ سال سیاسی حکمرانوں کی باریوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ ایک بار کرپشن کے الزام میں الگ کیا گیا وزیراعظم‘ سیاسی جماعت اور حکومت اگلے الیکشن میں قابلِ قبول بنتی رہی۔ ''ڈکٹیشن لوں گا‘‘ اور ''ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کا یہ کھیل ابھی جاری تھا کہ پرویز مشرف ایک نئی طرز کا مارشل لاء لے کر آ گئے اور نو سال تک اس ملک کے انتظامی مالک و مختار بنے رہے۔ 2008ء کے بعد سے اگرچہ ملک میں جمہوریت ہے اور منتخب حکومتیں برسرِ اقتدار چلی آ رہی ہیں لیکن سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اس کے باوجود شاکی ہیں کہ معاملات شفاف نہیں ہیں۔
میرے خیال میں معاملات کے شفاف نہ ہونے‘ بار بار حکومتیں بدلنے اور کسی وزیراعظم کے اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکنے کی بظاہر وجہ سیاستدانوں کا بالغ النظر نہ ہونا ہے۔ 1947ء کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے سیاست دان تغیر پذیر حالات و واقعات کی نبض پر ہاتھ نہ رکھ سکے۔ وہ اس امر کا ادراک نہ کر سکے کہ آزادی کے بعد وقت کے تقاضے کیا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نو سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود وہ ملک کے لیے ایک قابلِ قبول آئین مرتب کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ لگتا ہے کہ 77سال پہلے والا قحط الرجال اب بھی قائم ہے کہ کوئی یہ سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ دنیا کس رفتار سے بھاگتی چلی جا رہی ہے اور ہماری بے ڈھنگی چال کیا اور کیسی ہے۔ تب بھی اجتماعی پر انفرادی فیصلوں کو ترجیح دی جاتی رہی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سب اسی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں کہ مخالف سیاستدان یا سیاسی جماعت کو نیچا کیسے دکھانا ہے۔ قومی معیشت کیسے سدھرے گی‘ معاشرت کے تانے بانے کیسے ٹھیک ہوں گے‘ زراعت اور صنعت کے شعبے کیسے فروغ پا سکتے ہیں‘ ملکی قرضے کیسے کم ہو سکتے ہیں اور برآمدات کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے‘ ان معاملات پر کسی کی کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ ایک دوسرے پر بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ نگران سیٹ اَپ کے تحت انتخابات منعقد ہونے کے باوجود کوئی الیکشن نتائج کو تسلیم نہیں کرتا۔ جس طرح کا اس خطے کا سیاسی نظام اور انتخابی عمل ہے‘ دھاندلی کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن ان معاملات کو لے کر ہر چیز مفلوج بنا دینے اور ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کو کھلا چھوڑ دینے کو بھی کوئی بہتر صورتحال قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ہمارے ہاں سیاست میں انتقامی معاملات کے در آنے نے سیاست کو پُرتشدد بنا دیا ہے۔ مخالفین کو دبانے اور دبائے رکھنے کے لیے نیب جیسے ادارے قائم کیے گئے۔ مخالفین کے خلاف مقدمے بازی اور اقتدار کے دوران حزبِ مخالف والوں کا ناطقہ بند کیے رکھنے جیسے اقدامات نے سیاست کی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مختصراً یہ کہ یہ سیاستدان ہی ہیں جنہوں نے ناکام سیاست کی‘ کسی حکومت کی میعاد کو پورا نہ ہونے دیا‘ ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا اور نیب جیسے اداروں کے قیام کے باوجود کرپشن میں کوئی کمی نہ لا سکے۔ یہ سلسلہ سدھرے گا نہیں اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے اور بدلتے حالات کے تقاضوں کو پیشِ نظر نہ رکھا گیا۔
سدھار ممکن ہے لیکن تب جب انفرادی کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دینے کا سلسلہ ترک کیا جائے گا۔ میرے خیال میں تو دو جماعتوں کے مابین ہونے والے میثاقِ جمہوریت کا دائرہ وسیع کرنے سے اس ادراک کو پیدا کیا اور بڑھایا جا سکتا ہے جو حالات کو سمجھنے اور ملک کو درست سمت میں لے جانے کے لیے ضروری ہے۔ اور پھر میثاقِ جمہوریت کریں یا نہ کریں‘ میثاقِ پارلیمنٹ ہو یا نہ ہو‘ آپس کی لڑائیوں اور چپقلش کو ضرور ختم کریں۔ جب تک سیاستدان سیاست اور جمہوریت کے لیے ایک نہیں ہوں گے‘ مینڈیٹ چوری ہونے کے حوالے سے ان کے خدشات کم نہیں ہو سکتے۔ اگرچہ 77برسوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا‘ پھر بھی اگر سیاستدان مل کر آگے بڑھنے کا پختہ قصد کر لیں تو یہ بات پورے تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ کوئی ان کا راستہ نہیں روک سکے گا‘ کوئی ان کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکے گا‘ اور کوئی ان کا مینڈیٹ چوری نہیں کر سکے گا۔