اس ملک کے اداروں اور اس کے نتیجے میں پورے سسٹم کی تباہی اور بربادی کی درجنوں وجوہات میں سے شاید سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے پسند ناپسند‘ اقربا نوازی‘ سیاسی تعلق‘ رشوت‘ سفارش‘ پیداگیری میں حصہ داری اور کسی زور آور کو خوش کرنے کی بنیاد پر تعیناتیاں کر کے پہلے اداروں کو اور پھر آہستہ آہستہ پورے سسٹم کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کبھی کسی کو اس پر شرمند ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ نہ لگانے والا شرمسار ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی تعینات ہونے والے کے ماتھے پر شرمندگی سے پسینہ آتا دکھائی دیا ہے۔ نااہلیت کی بنیاد پر تعینات کرنے اور ہونے والے دونوں فریقوں کو نہ صرف مطمئن پایا بلکہ اپنا یہ کارنامہ نہایت فخریہ طور پر بیان کرتے بھی دیکھا ہے۔
سرکاری نگرانی میں چلنے والے خود مختار ادارے اس سلسلے میں سفارشیوں‘ زور آوروں‘ سیاسی حواریوں اور پیسے کے زور پر آنے والوں کا سب سے آسان اور پسندیدہ ہدف ہیں۔ ان اداروں پر سب سے پہلا اور فائق حق سول ملٹری ریٹائرڈ افسروں کا سمجھا جاتا ہے ۔ جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے اس پر اسی حساب سے بڑا ریٹائرڈ افسر تعینات کردیا جاتا ہے‘ بلکہ اب تو حاضر سروس بھی حاضر ہیں۔ ان ساری تعیناتیوں کیلئے صرف ایک ہی دلیل کافی وشافی سمجھی جاتی ہے کہ موصوف کو ایڈمنسٹریشن کا وسیع تجربہ ہے۔ ہر سرکاری خود مختار ادارے کی سربراہی و دیگر بڑے عہدوں کیلئے درکار قابلیت میں ''انتظامی تجربہ‘‘ ایک ایسا امرت دھارا ہے کہ اس کے سامنے کسی شریف آدمی کی تعلیمی قابلیت اور عملی تجربے کا چراغ جلنے سے پہلے ہی بجھ جاتا ہے اور ہمارے بڑے بھائی اپنی انتظامی توپ سے باقی لوگوں کی قابلیت کے پرخچے اڑاتے ہوئے فاتح قرار پاتے ہیں۔ رہے سہے عہدوں پر وہ لوگ فائز ہو جاتے ہیں جن کی پشت پر کوئی زور دار رشتہ داری‘ سیاسی دھکا‘ نوٹوں کا پہیہ یا کسی بڑے کو خوش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس قسم کی تعیناتیوں کا نتیجہ ہمارا سامنے ہے۔ ادارے برباد اور سسٹم تباہ ہو چکا ہے اور اس میں کسی قسم کی بہتری کا کوئی امکان کم ازکم ہماری زندگی میں تو دکھائی نہیں دے رہا۔
چند روز گزرے اس عاجز کے بارے میں کسی بیرونِ ملک بیٹھے ہوئے سوشل میڈیا توپچی نے‘ جو اپنی حرکتوں سے پٹواری لگتا تھا‘ خبر اڑائی کہ (ن) لیگ کی مرکزی اور پنجاب کی صوبائی حکومت چن چن کر ''یوتھیوں‘‘ کو عہدوں سے نواز رہی ہے اور اس کی تازہ مثال خالد مسعود خان جو کالم نگار‘ مزاحیہ شاعراور تھرڈ ڈگری یوتھیا ہے‘ کو پی پی ایم سی (پاور پلاننگ اینڈ مینجمنٹ کمپنی) جو بجلی کی تمام ڈسکوز کو کنٹرول کرتی ہے‘ کا ایم ڈی لگا رہی ہے۔ آج کل (ن) لیگ کی قیادت گلیوں میں آوازیں لگاتی پھر رہی ہے کوئی یوتھیا رہ تو نہیں گیا جسے نوازنا ہو۔میں سوشل میڈیا پر نہیں ہوں اس لیے اول تو ایسی خبروں سے لاعلم رہتا ہوں تاہم جن قریبی دوستوں کو میری سوشل میڈیا سے دوری کا علم ہے وہ مجھے خبر کر دیتے ہیں۔ یہ خبر بھی ایسے ہی چند دوستوں کے ذریعے مجھ تک پہنچی تو میری ہنسی نکل گئی۔ برادرم باسط نے مجھے اس سوشل میڈیائی خبر کا سکرین شاٹ بھیجا اور لکھا کہ (ن) لیگ آپ کے خلاف گھٹیا مہم چلا رہی ہے‘ آپ اس جھوٹ کے خلاف آواز اٹھائیں۔ میں نے جواب دیا کہ میں تو سوشل میڈیا پر ہی نہیں ہوں تو بھلا میں اس کا جواب کیا اور کیسے دوں؟ بلکہ جھوٹ کا جواب دوں ہی کس لیے؟ برادرم باسط نے خبر کے موجد سوشل میڈیا کے پٹواری توپچی کا پروفائل بھی بھیجا۔ جس کے مطابق موصوف ڈنمارک میں رہتے ہیں اور اپنے تئیں فزیالوجسٹ ریسرچر اور کنسلٹنٹ وغیرہ ہونے کی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ ریسرچر ہونے کا عالم یہ ہے کہ جس کمپنی میں میری متوقع تعیناتی کے خلاف احتجاجی عَلم بلند کر رہے ہیں‘ اس کا درست نام بھی موصوف کو نہیں آتا اور اپنی اندر کی خبر کو طشت ازبام کرتے ہوئے پی پی ایم سی کو پاور پلاننگ اینڈ مانیٹرنگ کمپنی کے بجائے پاور پلاننگ اینڈ مینجمنٹ کمپنی لکھا اور مجھے یوتھیا بنا دیا۔ اللہ مجھ پر ایسا برا وقت نہ لائے۔ مجھے ان کے پیٹ میں اٹھنے والے درد کا بخوبی اندازہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ کسی لڑکی کو ملنے کیلئے کسی دوسرے محلے کا کوئی عاشق لڑکا آ جائے تو اس لڑکی کے غیرت مند محلے دار نوجوان اس باہر سے آنے والے کی ٹھکائی کرتے ہوئے دل ہی دل میں یہ جملہ ضرور دہراتے ہیں کہ ''اسی مر گئے آں‘‘ یعنی ہم مر گئے ہیں جو تم باہر سے آکر عاشقی معشوقی فرمانے لگ گئے ہو۔ سو ڈنمارک کے اس محقق کا اصل درد یہی ہے کہ کیا ہم مر گئے ہیں؟
اسلام آباد سے ایک نہایت عزیز دوست صحافی نے اس خبر کی حقیقت پوچھی تو میں نے کہا کہ اس ملک میں کچھ بھی‘ حتیٰ کہ یہ خبر بھی سچی ہو سکتی ہے مگر آپ کم از کم یہ ضرور تسلی رکھیں کہ آپ کا بھائی آپ کو کسی طور شرمسار نہیں کرے گا۔ وہ کہنے لگے: مجھے علم ہے کہ آپ ایک عرصے تک میپکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن اور چیئرمین رہے ہیں اور گزشتہ کئی سال سے پی پی ایم سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن چلے آ رہے ہیں اور اس ملک کو درپیش بجلی کے مسائل سے کماحقہٗ طور پر آگاہ بھی ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں‘ اس لیے مجھے یقین ہے کہ آپ ہمیں شرمندہ نہیں کرائیں گے۔ میں نے اس دوست سے کہا کہ میں یہ بات دوسرے تناظر میں کہہ رہا ہوں۔ میں یہ عہدہ قبول کرکے آپ کو اور اس سے زیادہ خود کو شرمسار نہیں کر سکتا۔ وہ دوست حیرانی سے پوچھنے لگا: خیر ہے؟ میرے خیال میں آپ اس عہدے کیلئے نہایت مناسب ہیں۔ آپ بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز ڈگری کے ساتھ ساتھ پاور سیکٹر کا دس بارہ سال کا تجربہ بھی رکھتے ہیں‘ بھلا اس سے بڑھ کر اور کیا قابلیت درکار ہو گی؟ میں نے کہا کہ اگر پی پی ایم سی کے منیجنگ ڈائریکٹر کیلئے مجھ جیسی قابلیت اور تجربے کا حامل کوئی امیدوار انٹرویو دینے کیلئے آئے اور انٹرویو پینل میں مَیں بھی بیٹھا ہوں تو یقین کریں میں ایک لمحہ لگائے بغیر اس امیدوار کو مسترد کر دوں کہ یہ عہدہ جتنا تکنیکی علم اور تجربہ مانگتا ہے میں اس پر پورا نہیں اترتا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن ہونا ایک بالکل مختلف چیز ہے اور منیجنگ ڈائریکٹر ہونا اس سے بالکل مختلف معاملہ ہے۔ میں بذات خود سمجھتا ہوں کہ پاور سیکٹر خرابی کی جس نہج تک پہنچ چکی ہے اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم نے ہر بات کا حل محض انتظامی صلاحیتوں سے جوڑ رکھا ہے اور ہمارے سول اور ملٹری بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والے افسران خود کو اس معاملے میں ماہرِ اعظم تصور کرتے ہوئے ہر ادارے کے سر پر بیٹھ جاتے ہیں اور اسے برباد کر دیتے ہیں۔ پاور سیکٹر کی اس کمپنی کو چلانے کیلئے صرف ایڈمنسٹریشن کی نہیں اس سیکٹر کیلئے درکار تعلیم کے ساتھ ساتھ جس عملی تجربے کی ضرورت ہے اس پر نہ تو میں پورا اترتا ہوں اور نہ ہی کوئی بیورو کریٹ یا ریٹائرڈ فوجی افسر پورا اترتا ہے۔
اس عہدے کیلئے جس قابلیت اور اہلیت کی ضرورت ہے‘ کم ازکم مجھے اپنے متعلق اس بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں۔ ہاں! البتہ دوسروں کے بارے میں مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بورڈ کا کام پالیسی بنانا اور اس کی نگرانی کرنا ہے لیکن ادارے کو عملی طور پر چلانے کیلئے ''جس کا کام اسی کو ساجے‘‘ والا معاملہ ہے۔ ادارے پہلے ہی جس وجہ سے برباد ہو رہے ہیں اس میں یہ عاجز اپنا حصہ نہیں ڈال سکتا۔
میں چونکہ سوشل میڈیا پر نہیں ہوں اس لیے میں اس سوشل میڈیائی پٹواری کو بذریعہ کالم ہذا اطلاع دے رہا ہوں کہ میری طرف سے انکار کے بعد پی پی ایم سی کے ایم ڈی کی سیٹ خالی پڑی ہے‘ وہ چاہے تو اپنے لیے کوشش کر سکتا ہے۔ اگر وہ اوپر سے براہِ راست اپنی تعیناتی کا آرڈر کرا لے تو اور بات ہے‘ تاہم اگر بات قابلیت پر جا ٹھہری تو بورڈ آف ڈائریکٹرز یہ تعیناتی ان شاء اللہ خالصتاً میرٹ پر کرے گا۔ الحمدللہ میں بھی اس بورڈ میں شامل ہوں۔