ہم مری کے پرل کانٹی نینٹل ( پی سی) بھوربن میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک غیر ملکی کمپنی نے اپنے سیمینار میں مدعو کیا تھا۔ شرکا کو اجازت تھی کہ بیگمات بھی ساتھ آ سکتی ہیں۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ ہوٹل کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔کراچی‘ فیصل آباد اور دیگر امیر شہروں کے صنعتکار اور تاجر مری کا لطف اٹھانے کے لیے ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ سیمینار جس شام ختم ہوا اس کے دوسرے دن صبح میں اور اہلیہ ہوٹل کے اندر چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک بڑا ہال نظر آیا۔اس کے باہر بینر تھا یا بورڈ‘ اس پر لکھا تھا ''قسمت کا حال معلوم کیجیے‘‘۔ ہال کے اندر داخل ہوئے تو ایک کونے میں اس قسمت کا حال بتانے والے نے سٹال لگایا ہوا تھا۔ اس سے گپ شپ ہوئی۔ پوچھا: اتنے بڑے ہوٹل میں تم اچھا خاصا کرایہ دیتے ہو گے لیکن کیا آمدنی بھی اُسی حساب سے ہو جاتی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ کرایہ واقعی زیادہ ہے مگر آمدنی بھی خاصی معقول ہے۔ پھر پوچھا کہ یہاں آخر کون لوگ ہیں جو قسمت کا حال جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ وہ مسکرایا اور کہنے لگا: یہ جو دولت مند لوگ یہاں امیر شہروں سے آتے ہیں اور پورے پورے کنبوں کے ہمراہ ہفتوں ٹھہرتے ہیں‘ یہی بہت بے تابی اور تجسس سے مستقبل کا حال پوچھتے ہیں۔ میں نے اُس وقت کھدر کی عام سی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ پَیروں میں ہوائی چپل تھی۔ اہلیہ نے سر پر بڑی سی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ میں نے اپنا ہاتھ قسمت بیچنے والے اس دکاندار کے سامنے رکھا اور کہا کہ میں مولوی ٹائپ آدمی ہوں۔ انگریزی پڑھنے اور جاننے کا بہت شوق ہے مگر کامیابی نہیں ہو رہی۔ ذرا بتاؤ کہ کیا میری یہ خواہش پوری ہو گی؟ کیا میں انگریزی پڑھ لکھ سکوں گا؟ اس نے میرا ہاتھ دیکھا‘ ادھر ادھر سے دبایا۔ پھر کچھ دیر خاموش رہا جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔ پھر بولا ''مولوی صاحب! تمہاری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ ہاں اگر میں پڑھاؤں تو سیکھ جاؤ گے!‘‘۔ میری اہلیہ کچھ کہنے والی تھیں کہ میں نے انہیں اشارے سے روک دیا۔ اس کے بعد اس سے مزید گپ شپ ہوئی۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ وہ مظہر علی اظہر کا پوتا ہے۔ اب یہ اس نے بتایا نہ میں نے پوچھا کہ کیا وہ سگا پوتا ہے یا رشتے میں پوتا ہے۔ دادا کے بھائی یا کزن کو بھی ہماری ثقافت میں دادا ہی کہا جاتا ہے۔ اگر وہ اصل میں مظہر علی اظہر کے بھائی‘ یا بہن یا کزن کا پوتا تھا تو ایک لحاظ سے مظہر علی اظہر کا بھی پوتا ہوا۔ ہو سکتا ہے وہ مظہر علی اظہر کا سگا پوتا ہو۔ بہرطور میں نے یہ سن کر عبرت پکڑی اور قدرت کے کاموں پر حیران ہوا۔ مظہر علی اظہر احراری لیڈر تھا۔ اسی شخص نے قائداعظم کو 'کافرِ اعظم‘ کہا تھا۔ اس کا جس مسلک سے تعلق تھا اس میں پیروں فقیروں‘ نجومیوں‘ پامسٹوں سے قسمت کا حال پوچھنے اور اسے ماننے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ آج اسی کا پوتا یہ دھندا کر رہا تھا۔ اور یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایسے پیشے سے حاصل ہونے والی آمدنی جائز بھی ہے یا نہیں؟
پندرہ بیس سال پرانا یہ واقعہ اب کیوں یاد آ رہا ہے ؟ ایک خاتون مختلف ٹی وی چینلوں پر مستقبل کا حال بتاتی ہیں۔ کافی عرصہ سے وہ یہ کام کر رہی ہیں۔ کل پرسوں ایک وڈیو کے ذریعے معلوم ہوا کہ انہوں نے شادی کی۔ میاں کے ساتھ حج پر تشریف لے گئیں۔ وہاں میاں بیمار پڑ گئے۔ ڈاکٹروں نے خاتون کو بتایا کہ ان کے میاں کا دل کا مسئلہ تو پہلے سے چل رہا ہے۔ سٹنٹ‘ پیس میکر (Pace maker) وغیرہ دل میں پہلے سے لگے ہوئے ہیں۔ قدرت کو یہی منظور تھا۔ وہ انتقال کر گئے۔ اب وہ نجومی خاتون اینکر کو بتا رہی تھیں کہ انہیں افسوس اس بات کا ہے کہ شادی کرتے وقت انہیں میاں کے دل کی بیماری کے حوالے سے سچ نہیں بتایا گیا بلکہ چھپایا گیا۔ واقعی افسوس کا مقام ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ موصوفہ ساری دنیا کو ماضی اور مستقبل سے آگاہ کرتی ہیں تو شادی طے کرتے وقت میاں کا ماضی ستاروں کی مدد سے کیوں نہ معلوم کر لیا؟
ہم یہ نہیں کہتے کہ پامسٹری‘ ستارہ شناسی وغیرہ علوم نہیں ہیں۔ ہوں گے! لیکن اگر یہ علوم ہیں بھی تو محض ظنّی علوم ہیں۔ محض اندازے‘ ظن اور تخمین پر مشتمل!! ان کی بنیاد پر آپ کوئی منصوبہ‘ کوئی پلان نہیں بنا سکتے! شاہ عباس صفوی بہت طاقتور بادشاہ تھا۔ اسے عباس بزرگ یا عباس دی گریٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے پاس کچھ نئے پودے آئے۔ اُس وقت باغبان حاضر نہ تھا۔ اس نے نجومی کو بلا کر حکم دیا کہ اپنا حساب کتاب لگا کر انہیں باغ میں ایسی جگہوں پر لگاؤ جہاں یہ ہمیشہ رہیں۔ نجومی نے تعمیلِ حکم کر دی۔ دوسرے دن باغبان آیا اور نئے پودوں کو دیکھا تو اس کے علم اور تجربے کی رُو سے یہ بالکل غلط مقامات پر لگائے گئے تھے‘ اس نے انہیں اکھاڑ کر پھینک دیا۔ شاہ کو معلوم ہوا تو اسے بلایا اور کہا کہ تم نے کتنا بڑا نقصان کیا۔ نجومی نے تو حساب کر کے لگائے تھے کہ ہمیشہ رہیں گے۔ باغبان نے کمال کا جواب دیا۔ جہاں پناہ! اس نے کیا حساب لگایا! پودے تو دو دن نہیں نکال سکے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ایک نجومی نے بادشاہ کو بتایا کہ وہ صرف ایک سال زندہ رہے گا۔ وزیر دانا تھا۔ اس نے نجومی سے پوچھا: تم خود کتنا عرصہ جیو گے؟ نجومی نے کہا: بارہ سال۔ وزیر نے تلوار نکالی اور اس کا سر قلم کر دیا۔ پھر بادشاہ کو بتایا کہ جسے اپنی عمر کی خبر نہ تھی‘ وہ آپ کی عمر کیا جانتا۔
نجومیوں‘ پامسٹوں اور اس قسم کی مخلوقات کے پاس جانے والے‘ عام طور پر دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اول ضعیف الاعتقاد‘ دوم دولت اور اقتدار کے حریص! ویسے ہوتے یہ بھی ضعیف الاعتقاد ہی ہیں۔ جنرل ضیا اس قسم کے ''ماہرین‘‘ سے رابطہ رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک ''ماہر‘‘ سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ کہنے لگا: سورہ ''اشقاق‘‘ میں ہاتھ دیکھنے کا ذکر ہے۔ جہلم سے تھا۔ مرحوم ہو چکا۔ اشقاق نام کا کوئی سورہ ہی نہیں‘ ہاں سورۃ الانشقاق ضرور ہے۔ اس میں ہاتھ کا ذکر قیامت کے حوالے سے یوں آیا ہے ''پھر جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا‘‘۔ بہت سے سیاستدان بھی مستقبل کی خبریں بتانے والوں کے دروازے باقاعدگی سے کھٹکھٹاتے ہیں۔ منہ کی بھی کھاتے ہیں اور پیٹھ پر چھڑیاں بھی کھاتے ہیں۔ اس ضمن میں جو آخری بات ہے اس کا سمجھنا بہت آسان ہے۔ غیب کی خبر بتانے والا میرا ماضی بتائے گا یا مستقبل۔ اپنا ماضی مجھے پہلے سے معلوم ہے۔ رہا مستقبل‘ تو جہاں قدرت نے انسان کو بے پناہ اور محیر العقول صلاحیتوں سے نوازا ہے‘ اگر مستقبل جاننا انسان کے لیے مفید ہوتا تو اسے یہ صلاحیت بھی ضرور دیتی۔ اس لیے میں مستقبل کا حال جاننا ہی نہیں چاہتا۔ کسی کو بتائیں کہ تم بس کے حادثے میں مروگے تو بقیہ زندگی بس سے دور بھاگتا پھرے گا۔ کسی کو معلوم ہو کہ اس نے دو سو سال جینا ہے تو ابھی سے ماتم شروع کر دے گا کہ ہائے ایک دن اور کم ہو گیا۔ ایسی صورت میں دنیا کا کوئی کام نہیں ہو سکتا۔
مگر اینکر حضرات کی دکانداری کے اور ہی تقاضے ہیں۔ کبھی جنّات پکڑنے والے بابوں کو چینل پر لے آتے ہیں‘ کبھی نجومیوں اور جوتشیوں کو! انسان کی فطرت ہے کہ ایسی چیزوں میں بہت زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔ ریٹنگ کی لالچ میں کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لالچ دولت کی ہو یا اقتدار کی یا ریٹنگ کی‘ بُری ہے اور ذہنی پستی پر دلالت کرتی ہے۔