دونوں منظر سامنے تھے۔ ایک منظر دن کی روشنی میں لمحۂ موجود کا منظر۔ دوسرا جگمگ روشنیوں اور گہرے پُراسرار اندھیرے میں گندھا ہوا قریبی یادوں کا جلتا بجھتا منظر۔ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں اس جگہ موجود تھا جہاں چند دن قبل تک مونال اور دیگر طعام گاہیں لذتِ نگاہ اور لذتِ کام و دہن اکٹھے فراہم کیا کرتی تھیں۔ اب ان اُجاڑ عمارتوں میں اگر کچھ آواز تھی تو ویرانی اور سناٹے کی۔ مارگلہ ہلز کے اصل رہائشی جانوروں‘ درختوں اور پودوں نے دو پایہ انسانوں سے اپنی جائیداد کا قبضہ چھڑا لیا تھا۔ اس لڑائی میں کچھ دو پایہ انسانوں نے بھی ان کا دکھ محسوس کیا تھا۔
لمحۂ موجود میں دوپہر کی روشنی میں منظر روشن تھا۔ میں نے ہاتھوں کا چھجا بنا کر اسلام آباد کو دیکھا۔ نیچے دائیں طرف فیصل مسجد سفید براق ستارے کی طرح دن میں بھی روشن تھی۔ شاہراہ دستور کی لمبی سڑک ایک رَن وے کی طرح تھی اور سامنے اسلام آباد کی عمارتوں کے پار راول جھیل کا پانی جھلملاتا تھا۔ جھیل کے پار سرمئی دھند تھی اور منظر بتدریج اسی پردے میں گم ہوتا جاتا تھا۔ یہ منظر بہت حسین تھا لیکن رات کے وقت اسی جگہ سے منظر حسین تر ہو جاتا ہے۔ میں نے گزری ہوئی وہ راتیں یاد کیں جب ہم اس مبہوت کن منظر اور خوشگوار ہوا کی ہمراہی میں شکم سیری کیلئے آتے تھے۔ طعام گاہ پر پہنچ کر گاڑی سے اُترتے ہی سیخوں پر لگے‘ انگاروں پر بھنتے گوشت کی اشتہا انگیز خوشبو مدہوش کرتی تھی۔ کھچا کھچ بھری ہوئی اس طعام گاہ میں آپ انتظار کی گھڑیاں گزارتے اور جگہ میسر آجانے پر بالآخر شکر کرتے تھے۔ ایک نیم دائرے کی سرحد پر کھڑے ہوکر اسلام آباد کی رنگا رنگ روشنیاں ہوا کی لہروں کے ساتھ جھلملاتے دیکھتے تھے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا تھا کہ اس منظر کو دیکھتے رہیں یا معدے کی پکار پر لبیک کہیں۔ تمام ملکوں کے سفارت کار اور غیرملکی خود اور اپنے مہمانوں کے ساتھ یہاں خوشی سے آتے تھے۔ یہاں موسیقی کی لہریں اٹھتی تھیں اور قہقہے بلند ہوتے تھے۔ یہ جگہ سٹیٹس سمبل تھی جہاں اپنے مہمانوں کو لاکر گزارا ہوا وقت یادگار بنایا جاتا تھا اور یہاں بیٹھنے کی جگہ نہ ملتی تھی۔ جنگلی جانور اپنی زمین پر یہ قبضہ بھی چھپ چھپ کر دیکھتے تھے کہ یہ قبضہ ان سے زیادہ طاقتوروں نے کیا تھا۔ لیکن اب چند دن گزریں گے جب تیندوے‘ لومڑیاں اور مارگلہ ہرن اس جگہ بسرام کریں گے جہاں میزیں اور کرسیاں لگتی تھیں۔ حق بہ حقدار رسید۔
لاکھوں سال پہلے برصغیر پاک و ہند آسٹریلیا کے قریب ایک جزیرے کی شکل میں موجود تھا۔ نجانے اس سمندر سے اس کا دل اُچاٹ کیوں ہوا لیکن اس نے طے کیا کہ اب یہاں نہیں رہنا۔ اسے براعظم ایشیا کی کشش کھینچتی تھی چنانچہ وہ آہستہ آہستہ چھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرکے شمال میں ایشیا تک پہنچا اور اس سے پیوست ہو گیا۔ اس ٹکراؤ نے شمالی برصغیر میں اس عظیم پہاڑ کو جنم دیا جو اَب تین ہزار کلو میٹر لمبی ایک فصیل کی طرح بر صغیر کی حفاظت کرتا ہے اور جسے ہمالیہ کہتے ہیں۔ اس دیوکے پاؤں کی طرف نسبتاً چھوٹی پہاڑیوں نے ابھار بنائے اور انہی میں مارگلہ پہاڑیاں بھی ہیں۔ یہ ہمالیہ کا نچلا سرا ہے۔ ایشیا میں اولین انسانی آبادی کے آثار یہاں موجود ہیں اور دریائے سوان کے کنارے پانچ ہزار سال قبل کی سوان تہذیب کی باقیات عجائب گھروں کی زینت ہیں۔ 1959ء میں جب اس علاقے کو پاکستان کے نئے دارالحکومت کیلئے منتخب کیا گیا تو یہ اونچی نیچی گھاٹیوں‘ جنگلی شہتوتوں‘ نیم پہاڑی درختوں‘ پہاڑی پگڈنڈیوں اور کہیں کہیں چھوٹی بستیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اسلام آباد بسنے لگا تو جنگلی حیات نقل مکانی کرکے مارگلہ پہاڑیوں کی طرف منتقل ہو گئی جو شمال سے جنوب میں اسلام آباد پر ایک دیوار کی طرح سایہ کرتی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ دور سے دیکھیں تو یہ گہرے ہرے پہاڑ اسلام آباد کاخوبصورت تاج ہیں۔ ایک سبز سانس لیتے زمرد کی طرح جو اپنی شادابی اور ہریالی سے شہر کو زندگی فراہم کرتا ہے۔ اس پُرسکون‘ تروتازہ فضا میں آپ پہنچ جائیں تو بل کھاتی پگڈنڈیاں‘ گھنے سائے‘ پھولدار جھاڑیاں‘ کہیں کہیں بہتے چشمے اور ایک دو برساتی آبشاریں ملتی ہیں۔ وہ بیش قیمت ماحول ملتا ہے جو کسی قیمت پر کہیں سے خریدا نہیں جا سکتا۔ ان پہاڑیوں میں فطرت کیساتھ چہل قدمی کرنے والوں کیلئے پہاڑی راستے ہیں۔ ای9 اور ای8 سے پھوٹتا ٹریل نمبر1‘ مرغزار چڑیا گھر سے نکلتا ٹریل 2‘ ایف 6 کا ٹریل 3‘ 3 اور 5 کو جوڑتا ٹریل 4‘ مارگلہ روڈ کا خوبصورت ٹریل 5اور دیگر پہاڑی راستے مہم جوؤں اور فطرت کے ہم نشینوں کیلئے نہایت قیمتی تحفے ہیں۔ یہ سب سے بڑے بادشا ہ نے ہمیں تحفے دیے تھے لیکن ہمارے سردار انہیں توشہ خانے میں جمع کرانے کے بجائے اپنی جیبوں میں بھرنے لگے۔
وقت کے ساتھ شہر کی آبادی بڑھتی گئی اور انسانی بستیاں مارگلہ پہاڑیوں کے دامن تک پہنچنے لگیں تو کچھ لوگوں کو خطرے کا احساس ہوا۔ 1980ء میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا اعلان کیا گیا جس میں مارگلہ پہاڑیوں کے ساتھ شکر پڑیاں پہاڑی اور راول جھیل بھی شامل تھی۔ نیشنل پارک کا کل رقبہ 42960 ایکڑ طے کیا گیا۔ یہ پاکستان کا تیسرا بڑا نیشنل پارک تھا۔ 5263فٹ بلند ''ٹلہ چرونی‘‘ ان میں سب سے بلند پہاڑی تھی۔ نیشنل پارک اسلام آباد کے حدود اربعہ میں رکھنا طے ہوا۔ خیبرپختونخوا کا ہری پور ضلع اس سے ملحق ہے۔ چنانچہ درحقیقت جنگلی اور نباتاتی حیات کیلئے یہ تمام پہاڑیاں نہیں بلکہ صرف اسلام آباد کی حدود کی پہاڑیاں رہ گئیں۔ یہ نیشنل پارک اسلام آباد جنگلی حیات انتظامی بورڈ کے تحت رکھا گیا۔ ہر غیر آباد مگر خوبصورت منظر پر قبضہ کرنا انسان اپنا حق سمجھتا ہے؛ چنانچہ 2006ء میں پہاڑیوں پر اس نیشنل پارک میں طعام گاہیں بننا شروع ہوئیں جو بہت جلد مقبول ہو گئیں۔ جنگلی اور نباتاتی حیات‘ جو پہلے ہی سمٹ چکی تھی‘ اب اس ہاؤ ہو سے مزید گوشہ نشین یا ہجرت پر مجبور ہونے لگی۔ مگر ہجرت؟ کس طرف؟ کون سا علاقہ ان کیلئے باقی تھا؟ کچھ لوگ اس ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ طعام گاہوں کے مالکان آخری عدالتوں میں نظر ثانی درخواست تک گئے لیکن بالآخر عدالتی حکم پر 11 ستمبر 2024ء کو یہ جگہ خالی ہی کرنا پڑی۔ 16 ستمبر کو جب میں یہاں تھا‘ یہ جگہ ایک ویران اور اُجڑی سرائے کی طرح تھی۔
سارے منظر سلائیڈ شو کی طرح آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے تھے لیکن میں خوش تھا کہ اس نیلے سیارے پر انسانوں نے اس مخلوق کا احترام کیا جن کا حق اس زمین پر اتنا ہی ہے‘ جتنا دو پاؤں پر چلنے والوں کا۔ دوسری خوشی یہ تھی کہ طاقتور اور بااثر طبقے کو تمام تر مزاحمت کے بعد بے دخل کیا گیا‘ ایک امید کی کرن جگمگائی کہ اگر درختوں اور جانوروں کا خیال کیا گیا ہے تو شاید کبھی انسانوں کی حق تلفی ختم ہونے کی باری بھی آجائے۔ اگر یہ فیصلہ نہ ہوتا تو جلد ہی اسی بنیاد پر کئی اور ریسٹورنٹ اور کئی ہوٹل وجود میں آجاتے اور ہر ایک اپنے لیے وہی جواز تلاش کر لیتا جو اس سے پہلے کیے گئے تھے۔
ہم آگے پیر سوہاوہ کی طرف بڑھے۔ یہ سارا جنگل شہر کے ہنگاموں سے دور قدرت نے اپنے حسن کے ساتھ بسایا ہے۔ دائیں بائیں بھورے بندروں کی ٹولیاں موجود تھیں۔ یہ اس جنگل کے اصل مکین اور حقدار ہیں جو طاقتوروں کے سامنے پسپا ہوتے ہوتے دیوار کے ساتھ لگ چکے ہیں۔ دیوار سے لگے ہوؤں کی طرف سے میری یہ تحریر عدالتِ عظمٰی کے اسی فیصلے کی تحسین ہے۔ یہ ان بے زبانوں کی ترجمانی بھی ہے جن کا گھر یہی پہاڑیاں ہیں اور ان کیلئے ہجرت کی کوئی جگہ نہیں بچی۔ اگر مارگلہ کے تیندوؤں‘ چیتوں‘ چنکارا ہرنوں‘ بندروں‘ لومڑیوں اور گلہریوں کو انسانی زبان ملتی‘ عقابوں‘ شکروں‘ سفید کانوں والی بلبلوں‘ پیلے پروں والی فاختاؤں‘ نیلے سبز کبوتروں اور سرخ چڑیوں کو ہم سے کلام کرنا آتا‘ اگرشاہ بلوط‘ پڑتل دیودار‘ چیڑ‘ پھلائی کے درختوں کو تکلم ملتا‘ اگرگل بنفشہ‘ گل سرنجان اور ڈیزی کے پودے بول پاتے تو ہم سنتے کہ وہ کس طرح شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ ہم سنتے کہ شکریہ! اے ہمارا گھر بچانے میں مدد کرنے والو! اے منصفو! آپ سب کا شکریہ۔ آپ زندہ رہیں۔ آپ کا گھر بھی ہمیشہ محفوظ رہے۔