مذہب پر بات کرتے ہوئے اب خوف آنے لگا ہے۔ کیا معلوم کب کوئی کسی جملے کو اپنے معنی پہنا کر توہین کا مرتکب قرار دے دے۔ یہ خوف اب اُن گھروں کو لوٹ رہا ہے جہاں سے یہ چلا تھا۔
ایک مفتی صاحب برسوں سے سوشل میڈیا پر اپنے فہم کے مطابق دین بیان کر رہے ہیں۔ دین کے مسلمات پر ان کا ایمان ہے اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں۔ ضروریاتِ دین میں سے وہ کسی ایک کا بھی انکار نہیں کرتے کہ ان کے اسلام پر سوال اٹھایا جائے۔ ایک عصبیت بھی ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ اس کے باوصف وہ آج توہینِ مذہب کے مرتکب قرار دیے جا رہے ہیں۔ اگر وہ اس الزام سے محفوظ نہیں تو کون ہے‘ اس الزام سے جس کی حفاظت کی ضمانت دی جا سکتی ہے؟
پاکستان میں الزام کا مطلب الزام نہیں ہوتا‘ الزام خود ایک ثبوت ہے۔ گلی بازار میں جو عدالتیں لگتی ہیں‘ وہ اسی 'ثبوت‘ کی بنیاد پر فیصلہ سناتیں اور اسی 'عدالت‘ کے 'منصف‘ اپنا یہ فیصلہ اپنے ہاتھوں سے نافذ کر دیتے ہیں۔ چونکہ الزام ہی ثبوت ہے اس لیے برأت کا تو کوئی امکان نہیں۔ اس سے بچنے کی ایک ہی صورت باقی ہے۔ وہ یہ کہ مذہب پر بات کرنے ہی سے گریز کیا جائے۔
مفتی صاحب نے اپنے کہے پر معافی مانگ لی ہے لیکن اُس عدالت کی طرف سے ان کی معافی کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے جس عدالت کا ابھی ذکر ہوا۔ سوشل میڈیا پر بہت سے جانے پہچانے چہرے انہیں قابلِ گردن زدنی قرار دے رہے ہیں۔ مفتی صاحب اب کسی عوامی جگہ پر جانے کے قابل نہیں رہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ہجوم میں سے کوئی کیا کر گزرے۔ اب اس صورتحال کا سامنا کسی کو بھی ہو سکتا ہے۔ ان کو بھی جو اس وقت مفتی صاحب کے تعاقب میں ہیں۔ اس میں مسلکی تعصب صاف جھلک رہا ہے۔ تو کیا ان علما اور مفتی صاحبان کو یہ مشورہ دیا جائے کہ جان کی امان چاہتے ہیں تو مذہب پر بات کرنے سے گریز کریں؟
کسی مفتی‘ کسی عالم یا کسی سکالر کو یہ مشورہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی نہ رہے جو لوگوں کو دین بتائے۔ دین ایک نجی معاملہ بن جائے۔ کوئی کسی عالم سے سوال پوچھے اور وہ جواب دینے سے گریز کرے کہ کیا معلوم کوئی اس سے کیا مفہوم کشید کرے۔ ہر طرف ہیجان اور جنون کا غلبہ ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ سب ہی اس جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔ جو ہدف ہیں وہ بھی اس رویے کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے لیے آمادہ نہیں۔ انہیں اپنے ہم مسلک کو بچانا ہے اور بس۔ وہ یہ نہیں جان سکے کہ مسئلہ مسلک کے دفاع کا نہیں‘ اس رویے اور تفہیمِ دین کا ہے جو آج خوف کی علامت بن چکے۔
اہلِ مذہب کا ایک دوسرے کو گستاخ اور توہین کا مرتکب قرار دینے کا چلن نیا نہیں ہے۔ پہلے کی بات مگر اور تھی۔ ایک تو یہ الزام کسی مضمون یا کتاب کی صورت میں سامنے آتے تھے۔ یہ تحریر ایک مخصوص طبقے تک محدود رہتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ لوگ کسی جلسے میں بیان کر دیتے تھے۔ فتویٰ لگا دیا جاتا تھا اور بات اس سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔ اب معاملہ یہ نہیں رہا۔ سوشل میڈیا پر بات اس طرح پھیلتی ہے جس طرح جنگل میں آگ۔ معاشرتی ہیجان کے باعث لوگ ردِ عمل کے لیے اب کسی فتوے کا بھی انتظار نہیں کرتے۔
عوام کے جان و مال کی حفاظت‘ ریاست کی بنیادی ذمہ داری بلکہ اس کے وجود کا حقیقی جواز ہے۔ میں تکرار کے ساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ جب ریاست عوام کے جان و مال کی حفاظت نہ کر سکے تو اس کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ ریاست اس سارے معاملے سے اتنی لاتعلق کیوں ہے؟ مذہب کے نام پر لگائی گئی عوامی عدالتوں کے خاتمے کے لیے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا جا رہا؟ پارلیمان میں کوئی بحث کیوں نہیں ہو رہی؟ کوئی قانون کیوں نہیں بن رہا۔ عدالت از خود کوئی نوٹس کیوں نہیں لے رہی؟
مذہب اور سیاست دو بڑی قوتیں ہیں۔ دونوں میں ہیجان کا غلبہ ہے۔ دونوں سماج کو خانہ جنگی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان ہی دو عنوانات نے سماج کو بنایا بھی ہے اور بگاڑا بھی ہے۔ ان کو اگر درست رخ نہ دیا جائے تو سماج جنگل بن جاتا ہے۔ یہ کوئی کتابی بات نہیں۔ انسان کی ساری تاریخ اس کی گواہ ہے۔ یورپ میں اس وقت امن آیا جب اہلِ مذہب کو ریاست وسماج کے امور سے لا تعلق کر دیا گیا۔ مسلم تاریخ میں تہذیبی اور سیاسی ارتقا اس وقت ہوا جب مذہب و سیاست کو فطری انداز میں آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ یہ ہماری ترقی کا سنہری دور تھا۔ اُمویوں کے دور میں ایسا نہیں تھا۔ مذہب کے نام پر ایک ہیجان تھا جس نے مسلمانوں کو خانہ جنگی کے عذاب میں مبتلا کیے رکھا۔
دورِ حاضر میں اگر کوئی مسلم معاشرہ اس کا درست ادراک کر سکا ہے تو انڈونیشیا ہے۔ کسی حد تک ملائیشیا اور پھر ترکیہ۔ تیونس میں راشد غنوشی نے اس بات کو سمجھا مگر تاخیر کے ساتھ۔ اس کے اثرات سامنے آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ انڈونیشیا میں مذہب اخلاقی اور سماجی بہتری میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ وہاں مذہب خیر کی ایک قوت ہے۔ اس کے علاوہ ہر جگہ مذہب ایک ہیجان کا نام ہے۔ کہیں سیاست کا حصہ بن کر‘ کہیں کسی اور عنوان سے۔
پاکستان ان معاشروں میں سرِ فہرست ہے۔ مجھے اس پر حیرت ہے کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ریاست اس معاملے میں مکمل خاموش ہے۔ اس کے آثار کہیں دکھائی نہیں دیتے کہ وہ مذہب کے سوئے استعمال کو روکنے کے بارے میں سنجیدہ ہے جس نے لوگوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ سنجیدگی تو دور کی بات‘ اس کا ادراک کہیں موجود نہیں۔ یہ حیرت کے ساتھ خطرے کی بات ہے۔ اب تو حکومتی اداروں کے اندر بھی یہ خوف سرایت کرتا جا رہا ہے۔ پولیس کے لوگ بھی جنونی ہو رہے ہیں اور عوام ان پر پھول پھینک رہے ہیں۔ چند سال پہلے جب اسی طرح پھول برسائے جا رہے تھے تو اس وقت بھی متنبہ کیا گیا تھا کہ یہ ہیرو سازی سماج کو ایک عذاب میں مبتلا کر دے گی۔ کل کا یہ اندیشہ آج کی حقیقت ہے۔
اس سوال پر غور کرنا ہو گا کہ 'پیغامِ پاکستان‘ کیوں اپنے نتائج نہیں دکھا سکا؟ پانچ ستارہ ہوٹلوں میں منعقد کی جانے والی مجالس کیوں سماجی تبدیلی لانے میں ناکام رہیں؟ ان سوالات کی مخاطَب ریاست ہے۔ چونکہ لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہے‘ اس لیے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطرے کا تدارک کرے۔ ان سوالات کے جواب علما کے پاس ہیں نہ کسی اور کے پاس۔ یہ جواب صرف ریاست ہی دے سکتی ہے۔
جب تک ریاست ان سوالوں کے جواب تلاش نہیں کرتی‘ میرا علما اور مفتی صاحبان کو مشورہ ہو گا کہ وہ دینی معاملات پر خاموشی اختیار کر لیں۔ وہ چپ کا روزہ رکھ لیں۔ کوئی پوچھے تو 'لا اَدری‘ (میں نہیں جانتا) کہہ کر اپنی جان بچائیں۔ جو مفتی صاحب اس وقت زیرِ عتاب ہیں‘ ان کی پشت پر ایک مسلکی عصبیت موجود ہے۔ اس کے باوجود ان کی جان خطرات میں گھر گئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک دوسری مسلکی عصبیت اب ان کے درپے ہے۔ صرف عصبیت ہی نہیں بلکہ گروہی مفادات بھی‘ جو مسالک کے اندر تک سرایت کر چکے ہیں۔
یہ ایک خوفناک منظر ہے۔ میرے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ ریاست اس کی سنگینی کا ادراک نہیں کر پا رہی۔ اس کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا صرف ریاست کے درپے ہے‘ درآں حالیکہ وہ سماج کو اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ مذہب ایک سماجی قوت ہے اور اس کا سوئے استعمال آگ کا دریا بنتا جا رہا ہے۔