"JDC" (space) message & send to 7575

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

آج کے مایوس سے موضوع کو پڑھ کر زیادہ پریشان نہ ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارا ملک پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ میں نے 1960ء کی دہائی کا زمانہ بھی دیکھا ہے جب ہمارا گروتھ ریٹ بھارت سے زیادہ تھا۔ پاکستان ترقی پذیر ممالک کے لیے ماڈل ہوا کرتا تھا۔ صدر ایوب کی صنعت کے فروغ کی پالیسیاں اپنا رنگ دکھا رہی تھیں۔ ہمارے دونوں بڑے ڈیم بھی اُس زمانے میں بنے اور پھر موصوف سے دو بڑی غلطیاں یعنی بلنڈرز ہو گئے۔ ایک 1965ء کی جنگ اور دوسری صدارتی انتخاب میں مادرِ ملت کو دھاندلی سے ہرانے کی مذموم حرکت۔ ایک غلطی نے دفاعی اخراجات بہت بڑھا دیے اور دوسری سے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک نے فروغ پایا اور پھر 1972ء کی نیشنلائزیشن نے تو معیشت کی چولیں ہلا دیں۔
اور اب آتے ہیں ماضی بعید سے ماضی قریب کی طرف۔ سب جانتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات میں سیاسی عدم استحکام کا ہاتھ ہے‘ جو اپریل 2022ء میں شروع ہوا۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا زمانہ پاکستان کا سنہری دور نہیں تھا لیکن پی ڈی ایم کے عہدِ حکومت سے کہیں بہتر تھا اور پھر عبوری حکومت آئی جو آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کی بدترین مثال قائم کر گئی۔ قومیں آئین اور قانون کے احترام سے آگے بڑھتی ہیں‘ آئین شکنی سے نہیں۔ اگر 90دن میں الیکشن ہو جاتے تو آئین شکنی نہ ہوتی اور صورتحال اس قدر خراب بھی نہ ہوتی۔
چند روز پہلے سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور مسلم لیگی لیڈر حنیف عباسی کے مابین جو مکالمہ ہوا وہ اب بھی میڈیا میں زیر بحث ہے۔ ہوا یوں کہ حنیف عباسی نے کسی ٹی وی چینل پر کہا کہ گندم سکینڈل کی ذمہ دار نگران حکومت تھی۔ پھر جب حنیف عباسی اور انوار الحق کاکڑ‘ دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اس ساری گفتگو کا سب سے اہم جملہ کاکڑ صاحب نے بولا کہ اگر فارم 47کی حقیقت واضح ہو جائے تو آپ اور (ن) لیگ والے منہ چھپاتے پھرو گے۔ آٹھ فروری کے انتخابات پر لگنے والے دھاندلی کے اعتراضات کے حوالے سے یہ بیان نہایت اہم ہے۔
وطنِ عزیز میں عبوری حکومت لانے کا مقصد ہی صاف شفاف الیکشن کو یقینی بنانا تھا لیکن یہاں سابق نگران وزیراعظم اپنی ہی حکومت کے تحت ہونے والے الیکشن کی شفافیت پر بہت بڑا سوال اُٹھا رہے ہیں۔ ان سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ جب آپ کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو آپ نے اسے روکنے کے لیے کیا کیا؟ میرے خیال میں ان کا جواب ہو گا کہ الیکشن کرانا تو الیکشن کمیشن کا کام تھا‘ اگر کوئی بے قاعدگی ہوئی ہے تو الیکشن کمیشن سے استفسار کریں۔ لیکن بات اتنی سیدھی بھی نہیں ہے۔ الیکشن والے روز سارا عملہ وفاق اور صوبائی حکومتیں مہیا کرتی ہیں۔ اگر عبوری حکومتیں غیر جانبدار اور ایماندار ہوں تو دھاندلی ہونے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ دوسروں لفظوں میں کاکڑ صاحب اپنی ہی حکومت کو چارج شیٹ کر رہے ہیں۔ بھارت میں الیکشن سے پہلے کوئی عبوری حکومت نہیں بنتی اور وہاں فارم 47والی دھاندلی بھی نہیں ہوتی۔ہم لیکن 1970ء کے انتخابات کے علاوہ ایک بھی صاف ستھرا الیکشن نہیں کرا سکے۔ وجہ یہ ہے کہ بھارت میں کسی اعلیٰ پائے کے شخص کو چیف الیکشن کمشنر لگایا جاتا ہے اور وہ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں سے رولز کی پابندی کراتا ہے۔ اسی وجہ سے بھارتی الیکشن کمیشن وہاں کے عوام اور خواص‘ دونوں کے لیے معتبر ادارہ ہے۔ بھارت میں منوہر سنگھ گل اور ٹی این سیشان جیسے چیف الیکشن کمشنر گزرے ہیں جنہیں لوگ ان کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے آج بھی یاد کرتے ہیں‘ مگر مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان میں ایسے دبنگ اور ایماندار چیف الیکشن کمشنر کیوں نہیں آ سکے۔
تین ماہ گزر جانے کے بعد بھی آٹھ فروری کے الیکشن کے حوالے سے گرما گرم گفتگو آج بھی جاری ہے۔ ہمارے اسلام آباد کے حلقے میں اصل مقابلہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے مابین تھا مگر جیت کوئی اور گیا۔ حلقے کے ووٹرز میں غم و غصہ ہے اور انوار الحق کاکڑ اور حنیف عباسی کے مکالمے سے اس تاثر کو مزید تقویت ملتی ہے کہ درجنوں امیدوار فارم 47 کے کرشمے کی وجہ سے جیتے ہوں گے اور انہیں اس حقیقت کا بخوبی علم ہے‘ مگر کمال ڈھٹائی سے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پورے ملک میں صرف دو امیدواروں نے کہا کہ ہمیں جعلی وکٹری قبول نہیں‘ ایک ہیں جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن اور دوسرے (ن) لیگ کے ڈاکٹر نثار احمد چیمہ‘ جنہیں مبینہ طور پر جتوانے کی آفر کی گئی مگر انہوں نے انکار کردیا۔ ہمارے ملک میں قحط الرجال تو تھا ہی لیکن اخلاقیات بھی کا فور ہو چکی ہیں۔
پچھلے دنوں لیڈر شپ کو ادراک ہوا کہ آئی ایم ایف کا وفد آنے والا ہے اور ایف بی آر اپنے ریونیو کے اہداف پورے نہیں کر سکا۔ ایک انکشاف یہ بھی ہوا کہ چند افسران کرپشن کی وجہ سے بری شہرت رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہی افسران اہداف حاصل نہ کرنے کا سبب بنے ہوں۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ انہیں سائیڈ لائن کر دیا جائے یعنی غیر اہم عہدوں پر لگا دیا جائے۔ بعد میں پتا چلا کہ انہی افسران میں سے چند ایک شاندار کارکردگی کی بنا پر سول ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ ہمارا جزا اور سزا کا نظام بھی ناقص ہے اور جس معاشرے میں سزا اور جزا میرٹ پر نہ ہو وہ معاشرہ بانجھ ہو جاتا ہے‘ ترقی نہیں کر سکتا۔
اس وقت گندم سکینڈل حکومت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس چکا ہے۔ کسان اتحاد نے آج یعنی 10مئی سے ملک گیر احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ آغاز ملتان سے کیا جائے گا۔ حکومت نے فیڈرل سیکرٹری کابینہ کے زیر نگرانی گندم سکینڈل کے حوالے سے جس انکوائری کمیٹی کا اعلان کیا ہے وہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے یعنی یہ صرف دکھاوے کی کارروائی ہے۔ فیڈرل سیکرٹری صاحب محتاط قسم کے بیورو کریٹ لگتے ہیں‘ انہیں سکینڈل کے بڑے کرداروں کو طلب کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔
اُدھر سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ فرماتے ہیں کہ گندم تو چار سال سے درآمد ہو رہی ہے‘ ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کو اجازت دی کہ گندم درآمد کرے تاکہ حکومتی زرِمبادلہ بچ جائے۔ ان دونوں باتوں میں وزن نہیں۔ جب آپ بار بار حکومت بدلیں تو اناڑی لوگوں کے ہاتھوں میں زمامِ اقتدار آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بقول کاکڑ صاحب گندم کی فصل پر نظر رکھنا وزیراعظم کا کام نہیں تو پھر آپ کا کام کیا تھا؟ یہ سکینڈل تین حکومتوں پر محیط ہے اور اس میں پی ڈی ایم‘ نگران اور موجودہ حکومت‘ تینوں کی نالائقی یا کرپشن شامل ہے کیونکہ آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت میں بھی گندم درآمد ہوئی ہے۔ فارسی کہاوت ہے کہ 'خود کردہ را علاجے نیست‘ یعنی اپنے پیدا کیے ہوئے مسائل کا علاج مشکل ہوتا ہے۔ اپنے پاؤں پر کلہاڑا ہم نے خود مارا ہے۔ معاف کیجئے‘ کالم کچھ بوجھل ہو گیا۔ آپ پاکستانی مشن کے چاند کی طرف جانے کی مبارک باد قبول کیجئے۔
اعلیٰ عدلیہ کے کچھ جج عدلیہ کی آزادی کا پرچم بلند کر رہے ہیں اور یہ نیک شگون ہے۔ قوم کا قبلہ اب بھی درست ہو سکتا ہے اگر قیادت صالح اور باصلاحیت ہو‘ بصورت دیگر مرزا غالب کی طرح نوحہ گر کی ضرورت رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں