کسی بھی سابق پاکستانی وزیراعظم کو سزا ہو تو یہ دکھ اور تشویش کی بات ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان کے کئی وزرائے اعظم کو سزائیں سنائی جاتی رہی ہیں۔ یہ نہ تب خوشی منانے‘ مٹھائیاں بانٹنے اور بھنگڑے ڈالنے کی بات تھی‘ نہ اَب ہے۔
انتہائی شدید سزا سے ایک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو یوں گزرنا پڑا کہ وہ جاں سے گزر گئے۔ پھر دوسرے وزیراعظم میاں نواز شریف کو 14سال قید بامشقت‘ دو کروڑ روپے جرمانہ اور اکیس سال کیلئے نااہل قرار دیے جانے کی سزائیں سنائی گئیں۔ اب کرپشن کے ایک کیس میں احتساب عدالت نے عمران خان کو 14سال اوراُن کی اہلیہ کو 7سال قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 190 ملین پاؤنڈ کیس میں احتساب عدالت کے فیصلے کو تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا ارادہ کر لیا ہے‘ لہٰذا اب اس مقدمے کے بارے میں زیادہ طبع آزمائی نامناسب ہوگی۔ البتہ کیس کی نوعیت سمجھنے کیلئے ہم مختصراً اتنا عرض کر دیتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ جب وہ وزیراعظم تھے اُس وقت انہیں برطانیہ کی نیشنل کرائمز ایجنسی نے ملک ریاض حسین سے ایک مقدمے میں190 ملین پاؤنڈ پاکستانی قومی خزانے میں جمع کروانے کیلئے ارسال کرنے کیلئے رابطہ کیا تھا ۔ یہ رقم قومی خزانے میں جمع کروانے کی بجائے برطانوی حکومت کو وہ اکاؤنٹ نمبر دیا گیا کہ جس میں قسط وار ملک ریاض پر زمین کے ایک اور مقدمے میں عائد کردہ جرمانے کی رقم قسط وار جمع ہونا تھی۔ پی ٹی آئی والوں کا کہنا ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کی رقم میں سے کوئی پاؤنڈ خان صاحب کے ذاتی اکاؤنٹ میں نہیں گیا اور بالآخر یہ رقم قومی خزانے میں ہی جمع کروا دی گئی جبکہ نیب کا مؤقف یہ ہے کہ ابتدا میں یہ رقم ملک ریاض حسین پر عائد کردہ جرمانے کی مد میں سپریم کورٹ میں ایڈجسٹ کیوں کروائی گئی؟ اس کے بدلے میں ملک صاحب سے جہلم میں ایک یونیورسٹی کے نام پر 458کینال زمین کیوں حاصل کی گئی؟ تحریک انصاف کے وکلا کو یہی دو باتیں اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں ثابت کرنا ہوں گی کہ انہوں نے قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کا اکاؤنٹ نمبر برطانیہ کو کیوں دیا‘ نیز القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کیلئے زمین کے حصول کے معاملے کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔
جہاں تک تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) اور دیگر کئی پارٹیوں کی متحدہ حکومت کا تعلق ہے تو انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین افہام و تفہیم کی فضا قائم ہو گی تو ملک سیاسی و معاشی طور پر آگے بڑھے گا۔ یہاں استحکام اور امن ہو گا تو بیرونی سرمایہ کاری آئے گی‘ پاکستان کے صنعتکار غیر یقینی حالات سے مایوس ہو کر اپنے سرمائے سمیت دبئی یا دیگر ملکوں کا رُخ نہیں کریں گے۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک یہاں صنعت و حرفت کا پہیہ تیز رفتاری سے نہیں چلے گا اس وقت تک ملک کے اندر خوشحالی آئے گی اور نہ ہی بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکے گا۔
اسی طرح تحریک انصاف کو یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ان کے لیے کوچۂ سیاست میں باعزت واپسی کا جو رستہ بھی کھلے گا وہ مذاکرات کی گلی سے ہی ہو کر گزرے گا۔پی ٹی آئی اور حکومتی ٹیموں کے مابین قومی اسمبلی میں پہلا اجلاس ہوا تو دوطرفہ طور پر نہایت خوشگوار تاثرات کا اظہار کیا گیا۔ تحریک انصاف کے ذرائع سے ہمیں معلوم ہوا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان جناب عرفان صدیقی کا طرزِ گفتگو نہایت مثبت تھا۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کیلئے اُن کا رویہ خوشگوار حیرت کا باعث ہوا کیونکہ صدیقی صاحب ماضی قریب میں پی ٹی آئی کی سیاست پر ناقدانہ کالموں اور تجزیوں کی شہرت کھتے تھے۔ اسی طرح ہمیں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ایک دو ممبران سے معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کے سبھی ممبران کا رویہ بالعموم مفاہمت پسندانہ تھا۔ خاص طور پر چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان اور علی امین گنڈاپور کی کوشش یہ رہی کہ بات بننے کی طرف آئے اور بگڑنے کی طرف نہ جائے۔
مذاکرات کی کامیابی میں کلیدی کردار مذاکراتی ٹیموں کے ارادے ہو اکرتے ہیں۔ اگر فریقین فی الواقع یہ چاہتے ہوں کہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا ہے تو پھر بات چیت کے دوران انہیں ایسی فضا قائم رکھنی چاہیے جو مثبت ہو اور ہر طرح کے منفی تبصروں اور طعنوں سے پاک ہو ۔ اندر نرم دم گفتگو ہو اور باہر گرم گفتاری سے سوشل میڈیا بھڑکتا ہوا الاؤ دکھائی دے تو اس طرح دوطرفہ معاملات آگے نہیں بڑھتے۔
ہماری معلومات کے مطابق جب پی ٹی آئی نے دومطالبات کے بجائے 24مطالبات کا چارٹر آف ڈیمانڈ تیسرے اجلاس میں پیش کیا تو اس کا اسلوبِ بیان اور الفاظ کا انتخاب نہایت تلخ اور ناروا تھا۔ جب بات بنانی ہو تب سخت مطالبات کو بھی نرم الفاظ کے غلاف میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ تلخ نوائی کے بغیر اصل بات فریقِ ثانی تک پہنچ جائے۔
جب تحریک انصاف کی طرف سے آرمی چیف کے ساتھ بیرسٹر گوہر علی اور علی امین گنڈا پور کی بات چیت کو بانی پی ٹی آئی کی طرف سے خوش آئند قرار دیا تو اس ملاقات پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہونے لگیں۔ کچھ نے اسے بیک ڈور چینل کہا۔ اس پر حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان جناب عرفان صدیقی نے ایک زور دار بیان میں کہا کہ بیک وقت دو دو‘ تین تین دروازوں پر مذاکرات نہیں چلتے۔ اگر پی ٹی آئی کیلئے بڑا دروازہ کھل گیا ہے تو کھڑکی اور روشندانوں میں جھانکنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ 20 جنوری پیر کے روز کسی پرائیویٹ چینل نے یہ خبر دی کہ اُن کے ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت نے نو مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پر چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی نے ایک رپورٹر کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر مذاکرات کا چوتھا اجلاس نہیں ہوگا۔ تاہم حکومتی ترجمان صدیقی صاحب نے بلاتاخیر اس خبر کی تردید کی کہ ہم نے جوڈیشل کمیشن کو مسترد کرنے کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ تحریک انصاف کے مطالبات کا ہماری طرف سے باقاعدہ جواب آنے میں کم از کم ایک ہفتہ لگ جائے گا۔ واجب الاحترام سیاستدان جناب مولانا فضل الرحمن اور سابق وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنی خدمات پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ہم نے ایک بار پہلے بھی لکھا تھا اب پھر بہ تاکید مزید عرض کریں گے کہ اگر فریقین مذاکرات کی کامیابی کیلئے سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں اپنے اپنے غیر مذاکراتی تیر اندازوں کی زبان بندی کرنا ہوگی۔ اگر بانی پی ٹی آئی بھی اس حوالے سے اگلے تین چار ہفتوں کیلئے رضاکارانہ طور پر خود بھی تبصروں سے گریز کر لیں تو پھر نہایت مثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کچھ کہتی ہے اور بانی سے پس دیوارِ زنداں ملاقات کر کے آنے والے اس سے بالکل مختلف بات کہہ دیتے ہیں۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ بانی کی اصل منشا کیا ہے۔ بقول داغؔ:
کس کا یقین کیجئے کس کا یقیں نہ کیجئے
لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ
پی ٹی آئی کے دوستوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے تو رہائیاں بھی ہوں گی اور سیاسی رونقیں بھی لوٹ آئیں گی۔