"JDC" (space) message & send to 7575

لاہور: تب‘ اب اور آئندہ

1947ء سے پہلے انڈیا میں اکثر لوگ لاہور کی انفرادیت کے قائل تھے۔ لاہور کے علاوہ حیدر آباد دکن اور لکھنؤ کو بھی منفرد شہر کہا جاتا تھا جو مختلف روایات‘ کلچر‘ طرزِ تعمیر اور افکار میں ممتاز تھے۔ لاہور میں ایک عجب تنوع تھا۔ پنجاب کا دل لاہور میں دھڑکتا تھا‘ یہ پنجاب کا دارالحکومت تھا لیکن اس شہر نے تب بھی اردو زبان کی ترقی اور ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ علامہ اقبال کا مسکن تھا اور سرگنگارام نے یہاں رہ کر اپنے تعمیری شاہکاروں سے لاہور کو اور بھی خوبصورت بنا دیا۔ ''لاہور لاہور ہے‘‘ کا جملہ عرصے سے ہم سنتے آئے ہیں۔ پنجابی کا ایک مقولہ ہے کہ جس شخص نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔
میں نے 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں دس سال لاہور میں گزارے۔ چھ سال گورنمنٹ کالج میں تعلیم حاصل کی‘ تین سال اسلامیہ کالج سول لائنز میں پڑھایا اور پھر ایک سال سول سروس اکیڈمی مال روڈ میں زیر تربیت رہا۔ لاہورمیں گزارے ہوئے یہ سال میری زندگی کا سنہری دور تھا۔ پچھلے ماہ چند ذاتی کاموں کے لیے لاہور جانا ہوا اور دو ہفتے وہاں قیام رہا تو یوں لگا جیسے پرانا لاہور کہیں گم ہو گیا ہے۔ 1961ء میں لاہور کی آبادی صرف 16 لاکھ تھی۔ آج اس شہر کی آبادی ایک کروڑ 44لاکھ ہے‘ یعنی 63سالوں میں آبادی تقریباً سو گنا ہو گئی ہے‘ اور یہی لاہور کی ٹریجڈی ہے۔ نیا لاہور پرانے لاہور کو کھا گیا ہے اور ایک عجیب دیوہیکل اور بے ہنگم شہر نے جنم لیا ہے جس میں اشرافیہ کی بستیاں اب بھی خوبصورت ہیں لیکن یہ بستیاں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین ہڑپ کر چکی ہیں۔
1960ء کی دہائی کے لاہور میں ایک ٹھہراؤ تھا۔ پیدل چلنے والوں پر زمین تنگ نہیں ہوئی تھی۔ شہر میں باغات تھے۔ ارزاں مگر اعلیٰ تعلیمی ادارے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہم تقریباً 20 روپے ماہانہ فیس دیتے تھے۔ لاہور میں لائبریریاں‘ کتب خانے‘ کھیلوں کے میدان عام تھے۔ مڈل کلاس تانگے‘ سائیکل اور بس کا استعمال عام کرتی تھی۔ ہمارے کالج میں طالب علموں کی اکثریت سائیکلوں پر آتی تھی۔ متعدد پروفیسر صاحبان بھی سائیکل کا استعمال کرتے تھے۔ یونیورسٹی گراؤنڈ‘ قذافی سٹیڈیم‘ منٹو پارک (اب گریٹر اقبال پارک) اور لارنس گارڈن کھیلوں کے معروف گراؤنڈ تھے۔ موہنی روڈ کے اکھاڑے نہ صرف آباد تھے بلکہ انٹرنیشنل لیول کے پہلوان بھی پیدا کرتے تھے۔ سموگ یا آلودگی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
1960ء کی دہائی والے لاہور میں شاندار تنوع تھا۔ اینگلو پاکستانی کمیونٹی خاصی تعداد میں موجود تھی۔ ریلوے‘ ٹریفک پولیس اور آرمڈ فورسز میں ملازمت انہیں بڑی مرغوب تھی۔ ایف سی کالج‘ سینٹ انتھونی اور کیتھڈرل سکول اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے تھے۔ لاہوری خوش باش اور زندہ دل لوگ تھے اور شاید کسی حد تک اب بھی ہیں۔ میلہ چراغاں کئی روز تک چلتا تھا۔ بسنت کا تہوار آتا تو آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے سج جاتا۔ یہ رنگ موسم بہار کے رنگ تھے۔ موچی گیٹ میں سیاسی جلسہ ہوتا یا دینی خطاب‘ لوگ کثرت سے آتے تھے۔ سماجی تنوع اور برداشت لاہور کا طرۂ امتیاز تھا۔ برٹ انسٹیٹیوٹ گڑھی شاہو میں بیڈ منٹن بھی ہوتی تھی اور باکسنگ بھی۔ گریفن کلب میں ہفتے میں ایک دن ڈانس ہوتا تھا لہٰذا اس کا دوسرا نام ناچ گھر پڑ گیا تھا۔ ریلوے گالف کلب جم خانہ گالف کلب کے علاوہ تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کی کرکٹ ٹورنامنٹ میں اکثر ہمارا کالج اور اسلامیہ کالج فائنل میں ہوتے۔ یہ میچ یاد گار ہوتا تھا۔ دونوں جانب سے دلچسپ نعرے لگتے تھے۔ گورنمنٹ کالج والے نعرہ لگاتے 'گامے ماجے ہائے ہائے‘ تو اسلامیہ کالج والے جواب دیتے 'سرخی پاؤڈر ہائے ہائے‘۔ تین چار دن یونیورسٹی گراؤنڈ میں میلے کا سا سماں ہوتا تھا۔
اُس زمانے کا لاہور ایک غریب پرور شہر تھا۔ تانگے والا دن میں پندرہ بیس روپے کما کر بڑا خوش ہوتا تھا۔ پانچ چھ روپے میں وہ اپنے جانور کی سیوا کرتا۔ شام کو لکشمی چوک سے ایک روپے میں دال چاول کی پلیٹ کھاتا اور بارہ آنے کی ٹکٹ خرید کر کسی سینما میں اپنی پسند کی فلم دیکھتا۔ اسے سکرین کے بالکل سامنے بیٹھ کر فلم دیکھنا پسند تھا۔ اشرافیہ گیلری کا ٹکٹ لیتی تھی‘ جو دو روپے دس آنے کا ہوتا تھا۔
شہر میں درجنوں سینما گھر تھے۔ انڈین فلمیں 1965ء تک لاہور میں خوب چلتی رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ دلیپ کمار کی فلم 'آن‘ رتن سینما میں لگی تو مہینوں تک چلی۔ ریگل اور پلازہ سینما صرف انگریزی فلمیں لگاتے تھے۔ بعد میں الفلاح اور اوریگا سینما بھی انگلش فلمیں دکھانے لگے۔ انگریزی کی فلمیں دیکھنے اشرافیہ کے پڑھے لکھے لوگ آتے تھے یا وہ طالب علم جو فرفر انگریزی بولتے بھی اور سمجھتے بھی تھے۔ دوسری قسم ان طالب علموں کی تھی جو ہماری طرح کے تھے‘ یعنی مشکل سے آدھے ڈائیلاگ سمجھ آتے تھے لیکن دوستوں کو متاثر کرنے کیلئے ضرور بتاتے تھے کہ انگلش فلم دیکھ کر آئے ہیں۔ انگلش فلمیں دیکھنے والے اکثر لوگ بیگمات کے ساتھ آتے تھے اور خوش لباس ہوتے تھے۔ اشرافیہ نے ابھی شلوار قمیص پہننا شروع نہیں کی تھی۔
لاہور علم و ادب‘ موسیقی اور ثقافت کا مرکز تھا۔ ہم پنجاب پبلک لائبریری کے علاوہ برٹش کونسل اور امریکن سنٹر بھی جاتے تھے۔ گرمیوں میں ٹھنڈے ٹھار امریکن سنٹر میں بیٹھ کر پڑھنے کا بڑا مزہ آتا تھا۔ فلم سازی لاہور میں خوب ہوتی تھی۔ ہم کئی دفعہ سائیکل چلا کر ملتان روڈ پر واقع فلم سٹوڈیوز میں شوٹنگ دیکھنے گئے۔ سمن آباد کے بعد خال خال آبادی تھی۔ واپسی بھی سائیکل چلا کر ہوتی تھی اور رات کو کوئی دو تین بجے واپس ضلع کچہری کے سامنے نیو ہاسٹل پہنچتے تھے۔ سکیورٹی حالات مکمل کنٹرول میں تھے۔
لاہور کی ادبی زندگی وائی ایم سی اے‘ پاک ٹی ہاؤس‘ کافی ہاؤس کے گرد گھومتی تھی۔ حلقۂ اربابِ ذوق کا ہفتہ وار اجلاس باقاعدگی سے وائی ایم سی اے میں ہوتا تھا۔ میں وہاں باقاعدگی سے جاتا تھا۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر میں حلقہ دائیں اور بائیں بازو کے ادیبوں میں تقسیم ہو گیا اور یہ ادب کے لیے ایک المیہ تھا۔ نقوش اور فنون مشہور ادبی مجلے تھے۔ ہمارے کالج کا مجلہ 'راوی‘ بھی بڑے پائے کا میگزین تھا۔ 1965ء تک انڈین اخبار اور رسالے بھی آتے رہے۔ ان میں سے آئی اے جوہر کا فلم فیئر خاصا مقبول تھا۔ لاہور کی زندگی میں ایک فکری حسن تھا۔ ادبی محفلوں کے علاوہ لوگ مٹر گشت کرتے ہوئے بھی سیاسی اور ادبی مضامین پر بحث کرتے تھے۔ ریگل سے لے کر چیئرنگ کراس تک ہم باقاعدگی سے واک کرتے تھے۔ یہ 1969ء کی بات ہے جب میں اسلامیہ کالج میں پڑھاتا تھا۔ شاہ حسین کالج سرخوں کی آماجگاہ تھا۔ ان میں سے اکثر لوگ شام کو مال روڈ پر آکر انقلاب کے خواب دکھایا کرتے تھے۔ ریگل سینما کو جانے والی گلی کے آغاز میں ایک چائے کا کھوکھا تھا جس کے سامنے گاہکوں کے لیے مُوڑھے رکھے ہوئے تھے۔ اسے عرف عام میں کیفے ڈی مُوڑھا کہا جاتا تھا۔ یہاں ایک روپے کی ہاف سیٹ چائے منگوا کر لوگ گھنٹوں بیٹھتے تھے۔
تصوف کی پیاس بجھانے والے داتا صاحبؒ اور حضرت میاں میرؒ جاتے تھے۔ دینی مسائل سمجھنے والے مولانا مودودیؒ اور مولانا احمد علی (شیرانوالہ گیٹ) کی محافل میں جاتے تھے۔ 1968ء کے بعد دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم شدید تر ہونے لگی تھی۔ گانے اور موسیقی کے رسیا ٹکسالی کے قرب و جوار کی گلیوں میں رات گئے جاتے تھے۔ لاہور میں چند مے خانے موجود تھے اور انہیں قانونی تحفظ حاصل تھا۔ زاہد اور رِند ایک ہی شہر میں رہتے تھے اور ایک دوسرے کو برداشت کرتے تھے۔ مال روڈ سے واپسی پر پان کھانا لازمی تھا۔ پان کے لیے مولا بخش اور انور پان والا مشہور تھے۔ لاہور کے کھانے اور بیکریاں تب بھی مشہور تھیں۔ بسکٹ اور پیسٹری کے لیے محکم دین اور خطائی کے لیے دہلی گیٹ والے خلیفہ مشہور تھے۔ دودھ دہی کی دکانیں اکثر پہلوانوں کی تھیں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں