دنیا بھر میں جمہوری ممالک کے حکمران جمہوریت کے ذریعے فتح حاصل کرکے اقتدار میں آتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں حکمران اقتدار میں آنے کے بعد جمہوریت کو فتح کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں منظور کرائی جانے والی چھبیسویں ترمیم اسی شوقِ فتوحات کا ایک تازہ ترین نمونہ ہے۔ ابھی اس ترمیم کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ایک ہی روز میں حکومت نے اتنے بل پاس کیے کہ ان بلوں کے بوجھ سے پہلے سے نیم مردہ جمہوریت بلبلا اٹھی ۔پارلیمنٹ نے ایک ہی ہلے میں سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد سترہ سے بڑھا کر 34کر دینے کا بل پاس کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی افواج کے سربراہان کی مدت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر سمیت کئی ترمیمی بلز پاس کر دیے۔ نہ ان بلوں کو کسی قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا گیا‘ نہ ان پر کوئی بحث ہوئی اور نہ ہی ان بلوں کے بارے میں ہمارے پیارے مولانا فضل الرحمن سے ہی مشورہ کرنے کی زحمت گوارا کی گئی۔ اور ان بلوں کو ایسے شتابی سے منظور کیا گیا جیسے ایک محاورے کے مطابق‘ بندے کے پیچھے کتا لگا ہو تو بھاگم دوڑ میں کام کیا جاتا ہے۔
افواج کے سربراہان کی مدتِ سربراہی تین سال سے پانچ سال کرنے پر مجھے ایک پرانی بات یاد آ گئی۔ میرے پھوپھی زاد ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہیں اور انہیں ریٹائر ہوئے بھی اب تو بہت سال ہو گئے ہیں۔ وہ کبھی کبھی میرے پاس کافی پینے اور گپیں مارنے آ جاتے ہیں۔ ان کی یادداشت ماشاء اللہ بڑی شاندار ہے اور واقعات کا ایک خزانہ ہے جو اُن کے پاس ہے۔ جب کبھی میرے پاس آتے ہیں پرانے واقعات سناتے ہیں۔ ان کی ساری عمر فوج میں گزری ہے لہٰذا ان کے واقعات کا مرکز و محور بھی فوج ہی ہوتی ہے۔ ایک روز بتانے لگے کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو کا زمانہ تھا جب پاک فوج کے سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ نے وزیراعظم کو خط لکھا کہ پاک افواج کے سربراہان کی مدت تین سال سے بڑھا دی جائے کہ ان کے خیال میں افواجِ پاکستان میں پالیسیوں کے تسلسل اور ان کے دوررس نتائج کے حصول کیلئے تین سالہ مدت کم ہے کہ ایک آدھ سال تو گزشتہ دور کے معاملات کو دیکھنے‘ سمجھنے اور سنبھالنے میں ہی گزر جاتا ہے اور پھر حالات و واقعات کے مطابق نئی حکمت عملی بنانے اور اسے لاگو کرنے میں وقت لگتا ہے اور ابھی اس کے نتائج اور ثمرات سامنے بھی نہیں آتے کہ تین سال گزر جاتے ہیں‘ لہٰذا افواج کے سربراہان کیلئے تین سالہ مدت کم ہے اس لیے ان عہدوں کی مدت بڑھا کر چار سال کردی جائے۔ بینظیر بھٹو نے جنرل کاکڑ کی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ ان کی سربراہی کا دورانیہ تین سے بڑھا کر چار سال کر دیتی ہیں۔ اس پر جنرل وحید کاکڑ نے ان سے قطعی طور پر کہا کہ ان کی طرف سے افواج کے سربراہوں کی مدت میں توسیع کی تجویز کا تعلق ان کی ذات سے نہیں بلکہ وہ یہ تجویز اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد لاگو کرنے کے متمنی ہیں‘ یعنی چار سالہ مدت ان کے بعد آنے والے آرمی چیف سے شروع کی جائے کیونکہ ان کے بعد بہت سے لوگ اس منصب کو سنبھالنے کے اہل ہیں۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ اپنی تین سالہ مدت پوری کرکے بارہ جنوری1996ء کو ریٹائر ہو گئے اور ان کی تجویز حسبِ معمول فائلوں اور تجاویز کے سمندر میں کہیں کم ہو گئی۔
ہمارے ہاں عدل و انصاف کی صورتحال کے بارے میں مجھ جیسے کم علم کی کچھ کہنے نہ کہنے کی بھلا کیا اوقات ہے لیکن دنیا بھر کے نظام عدل کے بارے میں عالمی سطح کے مختلف معتبر اداروں کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بنائی گئی فہرست میں پاکستان کے عدالتی نظام کو جس نچلے درجے میں رکھا کیا گیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ ہمارا عدالتی نظام کس حد تک پست ہو چکا ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق تنخواہیں اور سہولیات طے کرنے کے باوجود اس سارے نظام میں شفافیت کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور اس پر جو لطائف زبان زدِ عام ہیں گو کہ وہ لکھے نہیں جا سکتے مگر انہیں سینہ بہ سینہ منتقل ہونے سے روکنا بھی کہاں ممکن ہے؟
ہمارے ہاں جسٹس منیر کا ایجاد کردہ نظریۂ ضرورت جس تسلسل اور ثابت قدمی سے ہمارے نظامِ عدل و انصاف میں جڑیں پکڑ چکا ہے اس کے خاتمے کے امکانات تو رہے ایک طرف‘ معاملات اب ادارہ جاتی طور پر مزید خرابی کی طرف رواں دواں ہیں کیونکہ ہمارے نام نہاد جمہوری حکمران عدالتوں کو اپنے ڈھب پر لانے کے لیے آمروں کی مانند ایل ایف او‘ یا پی سی او جیسے وقتی حربے اختیار کرنے کے بجائے اس سارے نظام کا مکو ٹھپ کر مستقل بنیادوں پر اپنے نیچے لگانے کے لیے بڑے بھائیوں کی آشیرباد سے اپنی مرضی کی قانون سازی پر اتر آئے ہیں۔
ایک طرف ججوں کی تعیناتی کے عمل میں آنکھیں بند کر کے اپنے لیڈر کے حکم کی تعمیل پر ہاتھ کھڑے کرنے والے ارکانِ اسمبلی کی شمولیت کے بعد جس معیار کے ججوں کی کھیپ متوقع ہے اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ملک کا سارا نظام اس قسم کی سیاسی تعیناتیوں سے جس طرح برباد ہو چکا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ دوسری جانب ججوں کی تعداد بڑھانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں بھی فارم 47کو متعارف کراتے ہوئے اپنی مرضی کے مزید سترہ عدد جج تعینات کیے جائیں اور سپریم کورٹ کو بھی قومی اسمبلی بنا دیا جائے جس میں عدل و انصاف اور آئین و قانون پر بحث ہونے کے بجائے ہاتھ کھڑے کرا کر فیصلے کیے جائیں اور من کی مرادیں پائی جائیں۔ چھبیسویں ترمیم میں پروٹوکول اور آئو بھگت کے مزے لوٹنے والے مولانا فضل الرحمن اب اس نئی صورتحال کا سامنا کرنے کے بجائے دل لگانے کیلئے لندن روانہ ہو گئے ہیں۔ ویسے چند دن پہلے جس گھر کا دروازہ صاحبانِ اقتدار کی مسلسل آمدورفت کے باعث ایک لمحے کیلئے بھی بند نہ ہوتا تھا اور جس گھر کے سامنے فلیگ لگی گاڑیوں کی قطار ختم ہونے میں نہ آتی تھی‘ اب وہاں الو بول رہے ہیں تو بھلا ایسے میں کس کافر کا جی اسلام آباد میں لگتا ہوگا۔
آج اپوزیشن والے چھبیسویں ترمیم‘ ججوں کی تعداد بڑھانے اور افواج کے سربراہوں کی مدت میں توسیع پر چیخ و پکار کر رہے ہیں اور اس کے خلاف عدالتوں میں جانے کے اعلان کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ وہ ان قوانین کو اقتدار میں آکر ختم کر دیں گے مگر یاد رکھیں پاکستان میں ایسا کبھی ہوتا نہیں ہے۔ کیونکہ جو قوانین آج اپوزیشن کو خلافِ آئین اور غلط لگ رہے ہیں جب وہ اقتدار میں ہوں گے تو یہی قوانین انہیں بھلے لگیں گے کہ تب وہ ان قوانین کے بینی فشری ہوں گے اور اُن کی اپوزیشن‘ جو یقینا آج کے حکمران ہیں‘ اس جگہ کھڑی ہو گی جہاں آج اپوزیشن والے موجود ہیں۔ تو بھلا کون ان قوانین اور ترامیم کو واپس کرائے گا ؟ اس ملک میں آئین و قانون کا یہ حال اسی لیے ہوا ہے کہ معاملہ آئین و قانون کی حکمرانی کا نہیں‘ صاحبانِ اقتدار کی بالادستی اور لامحدود خواہشات کی تکمیل کا ہے۔ یہاں جو بھی حکمران بنتا ہے وہ من و عن وہی کچھ کرتا ہے جو سابقہ حکمران کرتے آ رہے ہیں۔ قوم کو اطلاع دی جاتی ہے کہ ملک میں عشروں سے رائج سیاسی نظام میں‘ جو اب مزید روبہ انحطاط ہے کسی جوہری تبدیلی کے بغیر نہ صرف حالات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں بلکہ مزید خرابی متوقع ہے۔ حالات کی خرابیوں کے پیشِ نظر فی الحال مجھے اس کالم کا عنوان نہیں سوجھ رہا۔ قارئین کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ اس کالم کا جو چاہیں عنوان تصور کر لیں۔ میری طرف سے اجازت ہے۔