"JDC" (space) message & send to 7575

منتخب لوکل گورنمنٹ‘ جمہوریت کی روح

آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے سیاسی لیڈر روزانہ ٹاک شوز میں جمہوریت کے حُسن کی باتیں کرتے نہیں تھکتے لیکن جب ان کے حلقے یا صوبے میں یونین کونسل‘ میونسپل کمیٹی‘ تحصیل کونسل وغیرہ میں الیکشن کرانے کی بات آتی ہے تو ان کی سیاسی جماعتیں الیکشن کی راہ میں روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ بڑی وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں دو خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کے بزرگ بادلِ نخواستہ ریٹائر ہو بھی جائیں تو اقتدار اگلی نسل کو منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں خاندان عوام کے ساتھ اقتدار شیئر کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن غور سے دیکھیں تو تحریک انصاف بھی لوکل سطح پر الیکشن کو زیادہ پسند نہیں کرتی۔ اپنے دورِ حکومت میں وعدوں کے باوجود پی ٹی آئی نے پنجاب میں لوکل باڈی الیکشن نہیں کرائے۔ انہی جماعتوں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز زیادہ تر قابلِ انتخاب لوگ ہیں ‘جو اپنے حلقے میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق اشرافیہ سے ہوتا ہے‘ الیکشن میں دو چار کروڑ خرچ کر دینا ان کیلئے بڑی بات نہیں ہوتی۔ یہ لوگ منتخب ہو کر ترقیاتی فنڈز کے نام پر حکومت سے بھاری رقوم وصول کرتے ہیں۔ گویا الیکشن کے اخراجات ٹیکس دہندہ سے وصول کر لیتے ہیں‘ لیکن ان میں خال خال ایسے نمائندے ضرور نظر آتے ہیں جو ترقیاتی فنڈز کو ایمانداری کے ساتھ حلقے کی بہبود کیلئے خرچ کرتے ہیں مگر اس میں بھی ایک مقصد ووٹروں کو خوش کرکے اگلے الیکشن میں اپنی سیٹ پکی کرنا ہوتا ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ سڑکیں اور نالیاں بنانے کا کام صرف پاکستانی ایم این اے کرتا ہے‘ جمہوری دنیا میں یہ کام لوکل سطح کی منتخب حکومتیں کرتی ہیں۔
انگلینڈ میں یہ کام اور اس طرح کے بہت سے لوکل فرائض کائونٹی انجام دیتی ہے۔ کائونٹی کا دائمی سٹاف بھی ہوتا ہے لیکن اصل پاور منتخب نمائندوں کے پاس ہوتی ہے۔ امریکہ میں Countiesکی تعداد تین ہزار سے زائد ہے۔ کاؤنٹی کے ہیڈ کو میئر کہتے ہیں۔ کاؤنٹی کے فرائض مختلف ریاستوں میں مختلف ہیں لیکن عمومی طور پر سڑکوں کی تعمیر اور مرمت‘ ٹریفک چالان‘ پراپرٹی ٹیکس کی وصولی‘ پراپرٹی سے متعلق کاغذات کی تصدیق کاؤنٹی کے کرنے کے کام ہیں۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ کاؤنٹی ہماری تحصیل کی طرح ہے لیکن ہمارا تحصیل دار منتخب نمائندہ نہیں ہوتا۔
امریکی لوکل گورنمنٹ میں ایک اور دلچسپ عہدہ موجود ہے اور وہ ہے شیرف‘ جو کہ منتخب ہوتا ہے مگر اس کے فرائض پولیس سے ملتے جلتے ہیں مثلاً کاؤنٹی میں لاء اینڈ آرڈر‘ ٹریفک چالان اور عدالتوں کو سکیورٹی فراہم کرنا شیرف کی ذمہ داری ہے۔ ہر کائونٹی میں ایک شیرف ہوتا ہے جو ریگولر پولیس کی اہم کاموں میں مدد بھی کرتا ہے لیکن جب ایک کام دو دفتروں میں تقسیم ہو تو مسئلے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ امریکہ میں کاؤنٹی شیرف اور پولیس کے مابین اختیارات پر پرابلم رہتے ہیں لیکن بسا اوقات انہیں حل بھی کر لیا جاتا ہے۔
امریکہ سے ہی متاثر ہو کر جنرل پرویز مشرف نے ضلع کے ایس پی کو ضلع ناظم کے ماتحت کر دیا تھا لیکن ہمارا کلچر اور سیاسی پختگی امریکہ سے مختلف ہے۔ امریکہ میں کوئی برادری سسٹم نہیں ہے۔ ہمیں امریکہ والا سسٹم سوٹ نہیں کرتا۔ آپ خود ہی تصور کریں کہ اگر کسی ضلع میں بڑا بپھرا ہوا جلوس نکلتا ہے۔ ایس پی کا خیال ہے کہ مسئلے کا حل صرف فائرنگ سے ممکن ہے ‘وہ ضلع ناظم سے کہتا ہے کہ میری فورس کو گولی چلانے کا حکم دیا جائے ‘ادھر ہجوم میں ناظم کی برادری کے لوگ بھی ہیں اور اس کے ووٹر بھی‘ تو کیا ان حالات میں وہ مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دے گا؟ یہ ممکن ہی نہیں تھا‘ لہٰذا مشرف کے جاتے ہی یہ نظام بھی ختم ہو گیا۔ مگر مشرف کا لوکل حکومت کا پورا نظام تو خراب نہیں تھا‘ البتہ ہر ضلع میں ایک بااختیار ناظم ہماری ٹاپ لیڈر شپ کو سوٹ نہیں کرتا۔ وہ جمہوریت کے حُسن کا دن رات تذکرہ ضرور کرتے ہیں لیکن مقامی سطح پر اصل جمہوریت کے خلا ف ہیں۔ یہ سیاستدانوں کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس میں تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے کم نہیں۔ سندھ میں 2022ء میں لوکل باڈیز الیکشن ہوئے بلکہ کرانا پڑے کیونکہ سپریم کورٹ کا حکم تھا۔ اختیارات کی ہوس تینوں سیاسی جماعتوں کو لوکل باڈی الیکشن کرانے سے دور رکھتی ہے اور اس سلسلہ میں بیورو کریسی تینوں سیاسی جماعتوں کی ہم نوا نظر آتی ہے کیونکہ ایک منتخب ضلع ناظم کے آنے سے ڈپٹی کمشنر بہادر کی شان بھی وہ نہیں رہے گی۔ حکومتی ایم این اے جواَب اپنی پسند کا ڈی سی اور ایس پی لگواتا ہے‘ کچھ کمزور ہو جائے گا۔ اس لیے سیاسی جماعتوں اور بیورو کریسی کا مکمل اتفاق ہے کہ ملک میں ''ضرورت سے زیادہ‘‘ جمہوریت نہ آنے دی جائے۔
مقامی حکومتیں جمہوریت کی نرسریاں ہیں جہاں سے مضبوط قومی قیادت ابھرتی ہے۔ احمدی نژادایران کا صدر بننے سے پہلے تہران کے میئر تھے۔ ترکیہ کے صدر طیب اردوان استنبول کے میئر رہے۔ اگر ہماری لیڈر شپ بھی اسی طرح عوام میں سے اٹھتی تو موجودہ قیادت سے کردار اور صلاحیتوں میں کہیں بہتر ہوتی۔آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت ہر صوبائی حکومت کو مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لانے کا پابند کیا گیا ہے۔2010 ء میں اٹھارہویں ترمیم پاس کی گئی‘ یہ صوبائی خود مختاری کی جانب بڑا قدم تھا۔ اسی ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنے اختیارات مقامی حکومتوں کے ساتھ بانٹیں گی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور ہر صوبائی حکومت نے لوکل باڈیز الیکشن کی راہ میں روڑے اٹکائے۔
میں نے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو قریب سے دیکھا ہے۔ میرے والد مرحوم ایک عرصہ تک میونسپل کمیٹی کے سیکرٹری رہے۔ اسی عہدہ کو بعد میں چیف آفیسر کہا جانے لگا۔ کہنے کو گوجرہ 1950ء کی دہائی میں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا لیکن میونسپل کمیٹی کے اعلیٰ انتظام نے اسے ماڈل شہر بنا دیا تھا۔ ایک ہائی سکول‘ درجنوں پرائمری سکول‘ اعلیٰ ہاکی گرائونڈ‘ ٹینس کلب‘ اچھی لائبریری‘ فٹ پاتھ‘ صفائی کا فعال انتظام یہ سب کام میونسپل کمیٹی کرتی تھی۔ سول ہسپتال کو کچھ گرانٹ بھی دیتی تھی جہاں آنکھوں کے آپریشن کیلئے دور دراز سے لوگ آتے تھے۔ یہ تمام کام میونسپل کمیٹی اپنے وسائل اور ٹیکسوں سے کرتی تھی جن میں سب سے اہم چنگی ٹیکس تھا جو گائوں سے منڈی لانے والے اپنی اجناس پر ادا کرتے تھے۔ اسی شہر میں ہاکی گرائونڈ کی وجہ سے آل پاکستان ٹورنامنٹ ہونے لگے۔ یہاں کے لڑکے اولمپکس میں گئے۔ کمیٹی کے آفیسر ‘کارندے اور عوام کے منتخب نمائندے مل کر سارے کام کرتے تھے۔ عوام کی لوکل منتخب نمائندوں تک رسائی آسان تھی جبکہ ایم این اے یا ڈپٹی کمشنر کو ملنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ لوکل حکومت کا یہی کام ہے کہ لوکل کام وہیں حل کر لیے جائیں۔ ایک شہر یا گائوں کے لوگ اپنے مسائل کو بخوبی جانتے ہیں۔ باہر سے آیا ہوا ڈپٹی کمشنر یا دور رہنے والا ایم این اے ان مسائل کا ادراک نہیں رکھتے۔ ویسے بھی سڑکیں بنانا‘نالیاں بنانا یا بھل صفائی کرانا ایم این اے کا کام نہیں۔ علاقائی سطح کی جمہوریت کی اپنی افادیت ہے لیکن ہماری فیڈرل اور صوبائی حکومتیں چاہتی ہیں کہ اختیارات صرف ان کے ہاتھوں میں رہیں۔ یہاں اگر بلدیاتی نظام کے ذریعے احمدی نژاد یا رجب طیب اردوان پیدا ہو گئے تو شریف خاندان‘ بھٹو فیملی اور عمران خان کہاں جائیں گے؟
مدت ہوئی اسلام آباد میں لوکل باڈیز الیکشن نہیں ہوئے۔ یہی صورتحال پنجاب میں بھی ہے۔ ہم جمہوریت کے حسن کا راگ تو الاپتے ہیں لیکن حقیقی جمہوریت سے محروم ہیں اور ذمہ دار ہمارے نام نہاد سیاسی لیڈر ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں