علیمہ خان کہتی ہیں کہ عمران خان نے جیل میں ملاقات کے وقت شیر افضل خان مروت کو گلے نہیں لگایا تھا۔ انہیں غلط بات نہیں کرنی چاہیے۔علیمہ خان نے باقی پارٹی لیڈروں کی بھی کلاس لی اور کہا کہ بچگانہ حرکتیں بند کریں اور عمران خان کو کسی طرح باہر نکالنے کا بندوبست کریں۔ ساتھ ہی شیر افضل خان کو بھی اِن ڈائریکٹ سنا دیا کہ یہ کسی کا کمال نہیں ہے کہ لوگ پی ٹی آئی کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ کہا کہ لوگ بھیڑ بکریاں نہیں کہ چرواہا بلائے گا تودوڑی چلی آئیں گی۔ شایدوہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ شیر افضل کا اتنا قد کاٹھ نہیں کہ عمران خان انہیں گلے لگائے یا وہ تن تنہا بڑی تعداد میں بندے باہر نکال سکیں۔ کہتی ہیں ‘لوگ خان کیلئے باہر نکلتے ہیں۔
انسانی مزاج ہے کہ جب وہ مشکل سے نکل جاتا ہے تو اسے وہ لوگ یاد نہیں رہتے جنہوں نے مشکل میں ساتھ دیا تھا۔ انہیں لگتا ہے سارا وزن وہ خود اٹھا کر چلے تھے۔ جب سے آٹھ فروری کا الیکشن ہوا اور عمران خان کی پارٹی کو پارلیمانی سپورٹ ملی تو صاف نظر آتا ہے کہ کچھ رویے بدل گئے ہیں‘ حالانکہ پچھلے سال تک کوئی بھی بندہ باہر نکلنے کو تیار نہ تھا۔شیر افضل مروت ہی بندوں کو باہر نکال لایا اور خوف کا بت توڑا۔نو مئی کے واقعات کے بعد جس طرح ریاست نے سختی کی تھی اس سے خوف کی فضا پیدا ہوگئی تھی۔جس طرح چھاپے مارے گئے اس نے لوگوں کو ڈرا دیا۔ میں خود گواہ ہوں کہ کچھ دوستوں نے اپنے قریبی عزیزوں کیلئے رعایت لینے کی کوشش کی لیکن انہیں نہ ملی۔ جس طرح پنجاب پولیس نے دہشت پھیلائی اس نے رہی سہی کسر نکال دی۔ جب پولیس گھروں میں داخل ہوتی تھی تو دہشت پھیلانے کے لیے خواتین اور مردوں کی چیخ و پکار کی وڈیوز اس خوف کو بڑھاوا دیتیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت جیل جا بیٹھی۔ کچھ انڈر گراؤنڈ ہو گئی تو بقیہ ڈر کے مارے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔
یہ بات لیکن ماننا پڑے گی کہ شیر افضل مروت نے جب پی ٹی آئی کو جوائن کیا تو پارٹی میں جان پڑنے لگی۔ نوجوان اس کے گرد اکٹھے ہونے لگے۔ انہیں لگا کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں شیر افضل شاید سسٹم کو ٹکر دے سکتا ہے۔ شیر افضل کا ٹک ٹاک پر بولا گیا ایک ڈائیلاگ اسے ہیرو بنا گیا کہ 'پروگرام تو وڑ گیا‘۔ عمران خان کو بھی اس وقت کسی ایسے بندے کی ضرورت تھی جو نتائج کی پروا کیے بغیر اس کی پارٹی میں نئی جان ڈال سکے۔ اگرچہ خان کی پارٹی میں نیا خون آگیا تھا لیکن اُن میں زیادہ تر لوگ وکیل تھے‘ سیاسی نہیں تھے لیکن خان کو ان کی ضرورت تھی کیونکہ وکیلوں کے ساتھ پولیس وہ سلوک کرنے سے ڈرتی تھی جو عام ورکرز کے ساتھ کررہی تھی لہٰذا خان کو وکیلوں کی ضرورت تھی کیونکہ اس کی اپنی سیاسی پارٹی کے لوگ تو غائب تھے۔ دوسرے خان اور بشریٰ بیگم پر درجنوں مقدمات قائم ہوچکے تھے۔ اب وہ کہاں سے ان درجنوں وکیلوں کی فیسوں کا بندوبست کرتے۔یہی کام آصف زرداری اور نواز شریف بھی کر چکے تھے‘ انہوں نے بھی مفت کے وکیل رکھ لیے اور انہیں اپنے سکینڈلز اور مقدمات کے دفاع پر لگا دیا۔ بدلے میں سینیٹر بنا دیا اور کچھ بعد میں وزیر بن گئے یا اٹارنی جنرل۔ انہوں نے اپنی فیسیں وہاں سے پوری کر لیں۔
مجھے ایک دفعہ پاکستان میں ایک بڑے ہوٹل کے مالک نے بڑے فخر سے چند لوگوں کے موجودگی میں بتایا تھا کہ بینظیر بھٹو نے انہیں کئی دفعہ اصرار کیا کہ آپ ہماری پارٹی ٹکٹ پر سینیٹر بن جائیں لیکن میں نے ہر دفعہ معذرت کر لی۔میں نے کہا: آپ محترمہ کی سمجھداری نہیں سمجھے۔ وہ بولے :وہ کیا؟ میں نے کہا: رہنے دیں‘ اگر آپ کا دل خوش ہے کہ محترمہ نے بہت اصرار کیا اور وہ آپ کی قابلیت سے متاثر ہوگئیں تو آپ اسی خوش فہمی میں رہیں ورنہ وہ وہی کام آپ کے ساتھ کرنا چاہتی تھیں جو وکیلوں کے ساتھ کیا ۔ خان صاحب کو بھی بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی طرح سوٹ کرتاتھا کہ وکیلوں کی فوج بھرتی کریں جو ان کے مقدمات مفت لڑے اور پولیس کا بھی سامنا کرے۔ وکیل بھی کوئی بچے نہ تھے انہیں علم تھا کہ خان اس وقت پھنسا ہوا ہے لہٰذا انہوں نے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے وکیلوں کی طرز پر مقدمات کی فیس cash کے بجائے kind میں لینے کا فیصلہ کیا۔ ان سب کی نظریں قومی اسمبلی اور سینیٹ پر تھیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی۔ خان کو قومی اسمبلی کی چند سیٹوں کے بدلے وکیل مل رہے تھے جو مقدمات مفت لڑیں گے۔ یوں ہم نے دیکھا کہ تحریک انصاف کے اصلی نسلی بندے جو مفرور تھے یا جیلوں میں تھے ان کی جگہ وکیلوں نے لے لی۔ اب اس وجہ سے ان وکیلوں میں لڑائیاں چلتی رہتی ہیں۔ ہر کوئی خود کو خان کے زیادہ قریب سمجھتا ہے اور کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرتا۔ خان بھی سمجھدار ہے۔ ہر ایک کے غباروں میں ہوا بھرتا رہتا ہے کہ بس تم ہی اہم ہو۔وہ ان سب کی لڑائیاں انجوائے کرتا ہے کہ وہ اسے خوش کرنے کیلئے زیادہ محنت کرتے ہیں‘ بڑھ چڑھ کر مقدمے لڑتے ہیں‘ خان سے ملنے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہیں تاکہ بتا سکیں کہ خان کے کتنے قریب ہیں اور خان صرف ان پر ہی اعتماد کرتا ہے۔ جبکہ خان ایک سمجھدار سیاستدان کی طرح سب کو یقین دلاتا ہے کہ صرف وہی اس کا لاڈلا ہے باقی تو بس پارٹی کی مجبوری ہیں۔ یوں سب خود کو اپنی اپنی جگہ اہم سمجھ کر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے اور خان کے مقدمے لڑتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگر شیر افضل نے کہہ دیا کہ خان نے اسے گلے لگایا تو یہ بات پارٹی کے اندر باقی گروپس کو ہضم نہیں ہوئی اور علیمہ خان سے اس کی وضاحت کرائی گئی بلکہ شیر افضل کو ایک طرح سے snub کرایا گیا۔ اب شیر افضل بھی علیمہ خان کے احترام میں جواب نہیں دے سکتا‘ جیسے وہ عمر ایوب کو دیتا آیا ہے۔
پہلے تو اگر خان نے گلے نہیں لگایا تو شیر افضل مروت کو کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس کے بغیر بھی پی ٹی آئی کا نوجوان طبقہ خصوصاً پشتون اسے اس کے جارحانہ انداز کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔ اپنا قد مزید اونچا کرنے کیلئے یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ خان نے مجھے گلے لگایا۔چلیں مان لیا کہ شیر افضل نے فرط ِجذبات میں کہہ دیا کہ میں نے اپنا ہاتھ خان کے آگے کیا تو خان نے کھینچ کر گلے لگا لیا تو اس پر وضاحت یا تردید کی کیا تُک بنتی تھی؟ اس سے عمران خان کا قد بڑا ہوا تھا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے ایک ناراض بندے کو عزت دی۔ اس کو گلے لگایا اور ٹاسک دیا۔ لیکن لگتا ہے کہ عمران خان کی اَنا کو ٹھیس پہنچی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ خان نے شیر افضل کو ہاتھ ملانے کی بجائے گلے لگا لیا۔ لگتا ہے یہ باتیں علمیہ خان سے بھی برداشت نہ ہوئیں کہ ان کے بھائی کی شان میں گستاخی ہوگئی کہ وہ شیر افضل مروت کو گلے لگائے گا۔
میں حیران ہوں یہ قیمتی آئیڈیا کس کا ہوگا کہ علمیہ خان سے ہی تردید کرائیں اور شیر افضل کو اس کے مقام پر رکھا جائے۔ کیا کریں ہمارے سیاستدان پاور لینے کے نام پر سب کچھ سننے اور برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ شیر افضل خان مروت بارے مشہور ہے کہ وہ کسی کی ایسی بات کو اگنور نہیں کرتا اور پلٹ کر سخت جواب دیتا ہے۔ وہ قوم کا مروت ضرور ہے لیکن سیاسی زندگی میں مروت کا مظاہرہ کم ہی کرتا ہے کہ اپنے اوپر ہونے والے زبانی حملوں پر چپ رہے‘ لیکن شیر افضل نے علیمہ خان کو جواب نہیں دیا۔
شیر افضل خان اتنا سمجھدار تو ضرور ہے کہ عمر ایوب کو سخت جواب دینا ہے لیکن علیمہ خان کے سامنے چپ رہنا ہے۔