روزگار بذریعہ انٹرنیٹ

چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ مجھے ایک دوست نے کہا کہ تم صحافی اور اینکر ہر وقت تنقید کرتے رہتے ہو اور امید کے بجائے ناامیدی کو ہوا دیتے ہو۔ اس بے تکلف ہمدم دیرینہ نے مجھے کہا کہ اپنے شہر سرگودھا کی ایک چھوٹی سی تحصیل جاؤ اور فلاں نوجوان سے ملو پھر دیکھو کہ پاکستان میں کیا کیا کرشمے رونما ہو رہے ہیں۔
کوٹ مومن موٹروے پر لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے بھیرہ سے پہلے کوئی ڈیڑھ سو کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ یہاں کی مٹی بڑی زرخیز ہے۔ ہر طرف میٹھے رسیلے کینوؤں کے باغات ہیں۔ کوٹ مومن میں آئی ٹی کے اس فری لانسر نوجوان سے مل کر اور اس کی باتیں سن کر مجھے احساس ہوا کہ کوٹ مومن کی مٹی ہی نہیں‘ وہاں کے ذہن بھی بڑے زرخیز ہیں۔ میرے ساتھ میرا بیٹا سلمان تھا‘ جو آج کے ہر تعلیم یافتہ نوجوان کی طرح آئی ٹی فرینڈلی ہے۔ کوٹ مومن کے فری لانسر نے اپنا آئی ٹی مرکز دکھایا اور پھر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ان کرشموں اور ان کے ثمرات کی تفصیل ہمیں بتائی اور سمجھائی جو اس کی رہنمائی میں اس زرعی دیہاتی علاقے میں انجام دیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے ادارے اخوت کے تعاون سے کام کرنے والے اس سنٹر میں تقریباً 30سے 40نوجوان دن رات کام کرتے ہیں اور ہر کوئی ماہوار تین‘ چار لاکھ روپے زرِمبادلہ کی شکل میں کماتا ہے۔
اُس نوجوان فری لانسر نے یہ بھی بتایا کہ اس دیہاتی علاقے کے کلچر کے مطابق آئی ٹی سے واقفیت رکھنے والی بچیاں بھی اپنے گھروں میں بیٹھ کر ہماری رہنمائی میں دو اڑھائی لاکھ روپے ماہانہ کما لیتی ہیں۔ بعض نوجوان تو چار پانچ لاکھ کی حد کو بھی چھو لیتے ہیں۔ میں نے اُس نوجوان سے حیرت زدہ ہو کر پوچھا کہ بیٹا آپ ان دل خوش کن معلومات میں مبالغہ آرائی سے تو کام نہیں لے رہے؟ اس کا جواب تھا: سر! میں محتاط اندازہ بتا رہا ہوں۔ جس آمدن کے لیے ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں‘ ایجنٹوں کی دھوکا بازیوں کا شکار ہوتے ہیں‘ وہ کمائی اگر انہیں اپنے گھر بیٹھے بٹھائے باوقار طریقے سے حاصل ہو جائے تو اس سے بڑی بات کیا گی۔ لوگوں کو ان کے خوابوں کا دبئی اور لندن کوٹ مومن میں مل جائے تو انہیں خراب و خوار ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ ایوارڈ یافتہ فری لانسر نوجوان نے ہمیں بتایا کہ ہم بین الاقوامی کمپنیوں کی آن لائن مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم امریکی ڈاکٹروں کیلئے روزمرہ کی بنیاد پر بلنگ اور اکاؤنٹس تیار کرتے ہیں۔ نیز ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان فارن یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس کے لیے اسائنمنٹس تیار کرتے ہیں اور اس طرح کی دیگر بہت سی خدمات ستر ممالک کیلئے انجام دیتے ہیں۔ ان سب آن لائن پروجیکٹس کیلئے تیز رفتار انٹرنیٹ سروس لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے ای روزگار والے اور فری لانسرز چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ انٹرنیٹ کے سست ہونے سے ان کے کام بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف فوری طور پر ان کی آمدنی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ دنیا میں پاکستانی آئی ٹی سنٹرز کی ساکھ بھی بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انٹرنیٹ کی سست رفتاری کی وجہ سے 23 لاکھ افراد کی آمدن متاثر ہوئی ہے۔ پاکستانی فری لانسرز پاکستان کے لیے اندازاً 90 کروڑ ڈالر سالانہ کی ترسیلات کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مالی سال 2023-24ء میں پہلی مرتبہ آئی ٹی میں پاکستان کو 3.2 ارب ڈالر زرِمبادلہ ملا جبکہ اسی عرصے میں بھارت نے آئی ٹی سے 199 ارب ڈالرز زرِمبادلہ کمایا۔ موجودہ حکومت کافی عرصے سے آئی ٹی پارٹس بنانے اور نوجوانوں کو حیران کن آمدنی والے ای روزگار فراہم کرنے کی خوشخبری سنا رہی ہے۔ 18 اگست کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت آئی ٹی شزہ فاطمہ خواجہ نے اعتراف کیا کہ انہیں انٹر نیٹ کی سست رفتاری کی بنا پر عوام میں پائے جانے والے غم و غصے کا اندازہ ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انٹرنیٹ بند کیا اور نہ ہی اس کی رفتار کم کی ہے۔ نیٹ پر دباؤ بقول ان کے ''وی پی این‘‘ کی وجہ سے ہے۔ محترمہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں آئی ٹی سٹی اور ملک بھر میں 250 ای روزگار سنٹرز بنائیں گے۔ گوگل اور میٹا سے 10 ہزار بچوں کو آئی ٹی کی ٹریننگ دلوائیں گے۔ ایک طرف یہ دل خوش کن کہانیاں ہیں اور دوسری طرف آن لائن روزگار سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت انٹرنیٹ کنٹرول کر رہی ہے اور الزام VPN پر ڈالا جا رہا ہے۔ ان صارفین کا کہنا ہے کہ فائر وال لگانے سے انٹرنیٹ کی رفتار سست ہو رہی ہے۔
میں نے کچھ ایکسپرٹ اور وطن کی محبت سے سرشار فری لانسرز سے رابطہ کیا تاکہ حقیقتِ حال معلوم کر سکوں۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الحقیقت سست رفتار انٹرنیٹ سے ان کے ای کاروبار بہت متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب ملک میں آن لائن بزنس کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے جس کے لیے سوشل میڈیا ایپس اور انٹرنیٹ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک فری لانسر نے ہمیں بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر مشہور ایک فری لانسنگ پلیٹ فارم‘ جو فری لانسرز اور بزنس کمپنیوں کے درمیان بطور کمیشن ایجنٹ کام کرتا ہے‘ جب پاکستان میں انٹر نیٹ سست ہوا تو اس فری لانسنگ پلیٹ فارم نے اپنے ساتھ منسلک کئی کمپنیوں کو بتایا کہ پاکستان میں نیٹ سروس بہت سست ہو گئی لہٰذا وہاں کے فری لانسرز کو بزنس نہ دیا جائے۔ فری لانسرز کا کہنا ہے کہ نیٹ کرائسس کے بعد ہمارے کلائنٹس کی تعداد بھی بہت کم ہو گئی ہے۔ VPN کے بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ آن لائن پرائیویٹ نیٹ ورک ہے۔ یہ بالعموم تیز رفتار نیٹ والے ملکوں میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ صارفین اسے مجبوری میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کی نوبت نہیں آنی چاہیے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ اس کے استعمال سے انٹرنیٹ کی رفتار پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
میں نے سوچا کہ آج لگے ہاتھوں ہم بھی ''انٹرنیٹ ایکسپرٹ‘‘ بن جائیں۔ میں نے ایک آئی ٹی ماہر سے معلوم کیا کہ یہ ''فائر وال‘‘ کیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہم جو اپنا ڈیٹا‘ کمیونیکیشن یا تصویری معلومات آگے کلائنٹ کو بھیجتے ہیں وہ ڈیٹا فوراً چھوٹے چھوٹے پیکٹس کی شکل میں ''آئی ٹی سرور‘‘ تک چلا جاتا ہے۔ فائروال ایک ایسا آئی ٹی گیٹ وے ہے کہ جو آگے جانے والے سارے مواد کو فلٹر کرتا ہے۔ اس سے کاروباری اور پرسنل پرائیویسی متاثر ہوتی ہے‘ نیز اس فلٹریشن سے انٹرنیٹ سست ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر جو طوفانِ غیر ذمہ داری برپا ہے وہ انتہائی نامناسب اور قابلِ گرفت ہے۔ اداروں کے خلاف کوئی دشنام طرازی ہونی چاہیے اور نہ ہی بنا ثبوت کسی پر کیچڑ اچھالا جانا چاہیے۔ ایسی باتوں کو فی الفور روکنے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس کام کے لیے فائر وال کے بجائے داخلی قانون سازی کا راستہ اپنانا زیادہ مناسب ہوگا۔ فی الواقع ای اکانومی کا فیوچر وژن ہمارے ملک کو مستقل بنیادوں پر خوشحالی سے ہمکنار کر سکتا ہے‘ تاہم سرِدست تاجر آئی ٹی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی رفتار معمول سے 40 فیصد کم ہے۔ اس سست رفتاری سے معیشت کی بحالی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
جناب وزیراعظم‘ شہباز شریف صرف دو ہفتوں میں تمام وفاقی دفاتر کی فائلنگ اور کمیونیکیشن کو آن لائن کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر انٹرنیٹ اور دوسری ایپس تیز رفتاری سے کام نہیں کریں گی تو وزیراعظم کا خواب کیسے پورا ہوگا؟ جناب وزیراعظم تیز رفتار انٹرنیٹ کا 24گھنٹے چھوٹے بڑے شہروں میں حصول یقینی بنائیں تاکہ ای اکانومی کے ثمرات ساری قوم تک پہنچ سکیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں