"JDC" (space) message & send to 7575

غزہ جنگ کے دوررَس اثرات

متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ تعلقات معطل کرنے کی فوری وجہ انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والے سات رضاکاروں کی ہلاکت ہے‘ جو ورلڈ سنٹرل کچن نامی فلاحی تنظیم کے لیے کام کرتے ہوئے غزہ میں خوراک تقسیم کر رہے تھے۔ ان کی تمام گاڑیوں پر تنظیم کا نام جلی حروف میں لکھا ہوا تھا لیکن اسرائیلی بربریت سے نہ بچ سکے۔
دنیا میں سب سے زیادہ اسرائیل مخالف مظاہرے مغربی ممالک میں ہوئے ہیں اور مغربی شہروں میں بھی لندن سرفہرست ہے‘ اس کے بعد واشنگٹن ہے۔ اسرائیل مخالف نعرے لگانے والوں میں مسلمان‘ عیسائی اور یہودی‘ سب شامل ہوئے۔ یہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں۔ ناحق قتل ہونے والے بچوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی آستین کا لہو دن رات پوری دنیا پر آشکار کر رہا ہے کہ ان معصوم ننھے منے بچوں کا قاتل وہی ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ اکتوبر میں جب یہ جنگ شروع ہوئی تو امریکہ نے حسبِ معمول اپنی مکمل حمایت اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں اگر کسی بات پر ہم خیال ہیں تو وہ اسرائیل کی حمایت ہے۔ صدر جوبائیڈن نے تو یہاں تک کہا تھا کہ میں بھی صہیونی ہوں۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ صہیونی کون ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عہد نامہ قدیم یعنی Old Testament کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فلسطین میں واپس آ کر آباد ہونا یہودیوں کا حق ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ ہر یہودی ضروری نہیں کہ صہیونی ہو۔ عیسائیوں میں صہیونیوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔ فلسطین‘ شام‘ لبنان‘ مصر اور عراق میں عیسائی کافی بڑی تعداد میں آباد ہیں اور ان میں شاید ہی کوئی صہیونی ہو۔
غزہ کی جنگ کے اثرات امریکی سیاست تک گئے ہیں۔ جب بائیڈن حکومت نے گزشتہ سال اکتوبر میں غزہ پر اسرائیلی بمباری کی حمایت کی تو ڈیمو کریٹک پارٹی کے کم عمر اراکین نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے حامیوں میں نووارد امریکیوں کی بڑی تعداد شامل ہے یعنی وہ انڈین‘ پاکستانی‘ عرب اور لاطینی امریکہ کے لوگ جو ماضی قریب میں امریکہ میں آباد ہوئے۔ صومالیہ سے آنے والی الہان عمر اور فلسطینی نژاد راشدہ طلیب ڈیمو کریٹک ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر ایوانِ نمائندگان تک پہنچیں اور ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی‘ لیکن اب امریکہ میں صرف مسلم یا عرب ہی فلسطینی حقوق کے حامی نہیں بلکہ یہ ہمدردی اب سفید فام امریکیوں کے کچھ حلقوں میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ مغربی دنیا میں رائے عامہ کی خاص اہمیت ہے۔ اسی رائے عامہ کا اعجاز تھا کہ بائیڈن حکومت کو بھی جنگ بندی کے سوال پر بار بار اپنا ویٹو استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرنا پڑی۔ تل ابیب میں انتہا پسند صہیونی حکومت اس بات پر خاصی سیخ پا ہے۔
غزہ جنگ پر مسلم دنیا کا ردِعمل مایوس کن رہا ہے۔ کسی عرب ملک نے اسرائیلی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود کو بند نہیں کیا۔ کسی مسلم ملک نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1969ء میں جب صہیونیوں نے مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگائی تھی تو اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم او آئی سی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ تنظیم آج بھی موجود ہے لیکن غزہ کی جنگ بندی کے لیے اس کا کردار قراردادوں کے پاس کرنے سے زیادہ نہیں رہا۔ مسلم ممالک اس ساری صورتحال میں خاصے بے بس نظر آئے۔
جب اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بمباری شروع کی تو دنیا کے نو ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات معطل کیے‘ ان میں سے چھ غیرمسلم ممالک تھے اور بیشتر کا تعلق لاطینی امریکہ سے تھا۔ کسی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ انسانی قتلِ عام کے الزام میں اسرائیل کو عالمی عدالت میں لے جاتا۔ یہ فریضہ بھی جنوبی افریقہ کو ادا کرنا پڑا۔
اس جنگ نے اب تک لگ بھگ34 ہزار فلسطینیوں کی جان لے لی ہے۔ اس وقت بھی ہزاروں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ غزہ کی فضا میں چاروں طرف بارود کی بُو ہے۔ 70 فیصد گھر رہنے کے قابل نہیں رہے۔ بچے صرف گولیوں اور بموں سے نہیں مرے‘ بہت سی ہلاکتیں خوراک کی کمی اور آلودہ پانی سے ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت تک پیدا ہونے والی فضائی آلودگی ڈیڑھ لاکھ ٹن کوئلہ جلانے کے برابر ہے۔ بموں میں استعمال ہونے والے سفید فاسفورس سے زرعی زمین پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ غزہ کے 23لاکھ شہری پہلے بھی 365مربع میل میں قید تھے‘ اب بہت سے لوگ شمال سے جنوب کی جانب ہجرت کر گئے ہیں۔ اس سے جنوب میں آبادی کی کثافت مزید بڑھ گئی ہے جس سے نت نئے سماجی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
غزہ کی جنگ کا واضح اثر ابراہیمی معاہدوں پر ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں۔ بحرین نے یہ قدم پہلے ہی اٹھا لیا تھا۔ اردن کی حکومت اس وقت شدید دباؤ میں ہے اور وہاں روزانہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اردن کی ستر فیصد آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔
غزہ کی جنگ کا عالمی تجارت پر بھی بڑا منفی اثر پڑا ہے۔ نہر سویز سے گزرنے والے جہاز بہت کم رہ گئے ہیں۔ حوثی میزائلوں کے ڈر سے اب بحری جہاز جنوبی افریقہ کے راستے سے یورپ جا رہے ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے درمیان سمندری سفر لمبا اور مہنگا ہوگیا ہے جہازوں کے کرائے اور انشورنس کا خرچ بھی بڑھ گیا ہے۔ سب سے دلچسپ پوزیشن بھارت کی رہی ہے۔ مودی اور نیتن یاہو میں سالوں سے دوستی ہے۔ دونوں انتہا پسند ہیں۔ بی جے پی اور اسرائیل کی لیکود پارٹی میں بھی بہت سی اقدار مشترک ہیں۔ دونوں مسلم دشمن سیاسی جماعتیں ہیں۔ بھارت نے 7 اکتوبر کے فوراً بعد اسرائیل کی مکمل حمایت کی اور پھر عالمی رائے عامہ کو دیکھ کر فلسطینی حقوق کی بات کرنا شروع کر دی۔ فلسطین کے معاملہ پر بھارت کی فارن پالیسی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہی ہے۔
میرے خیال میں غزہ کی جنگ پاکستان کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ کل کواگر مقبوضہ کشمیر میں غزہ کی طرح مزاحمت شروع ہوتی ہے تو بھارت بھی مقبوضہ کشمیر پر بے رحمانہ بمباری کرے گا۔ ہزاروں کشمیری بے گھر ہو کر پاکستان کا رُخ کریں گے۔ اُس صورت میں پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی‘ ہم مصر کی طرح سنگدلانہ رویہ اختیار کریں گے یا کشمیری بھائیوں کو گلے لگائیں گے؟ فلسطینیوں نے شہادتیں دے کردنیا کے دل جیت لیے ہیں‘ کیا ہم عالمی سطح پر کشمیر کی مؤثر وکالت کر سکیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں