"JDC" (space) message & send to 7575

ہمارا معکوس سفر

تقریباً تین ماہ پہلے خود نوشت کا عذر کرکے کالم نگاری کا سلسلہ منقطع کیا تھا۔ دریں اثنا چند قارئین نے استفسار کیا کہ لکھنا کیوں ترک کر دیا؟ بارہ سال کی کالم نگاری کے بعد استراحت کا جواز بھی تھا اور آرام کا لطف بھی آ رہا تھا مگر جب بھی کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا تو دوستوں کے فون آنے لگتے کہ غزہ کی دلخراش صورتحال کے بارے میں لکھو۔ پاک ایران تعلقات میں دشوار مرحلہ آیا تو پھر چند قارئین نے کہا کہ اس اچانک گولہ باری کی تشریح کر دی جائے تو اچھا ہوگا اور آئندہ تناؤ کے تدارک کی تجاویز بھی لکھ دی جائیں تو بہتر ہوگا اور پھر آٹھ فروری کا الیکشن ہوا جو اپنے عقب میں کئی تنازعات چھوڑ گیا تو یار لوگوں نے پھر کہا کہ اب تو خاموش نہ رہیں کہ درایں حالات خاموشی جرم ہے؛ چنانچہ فیصلہ کیا کہ ہفتہ وار نہ سہی مگر اہم واقعات پر کبھی کبھار خامہ فرسائی میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔
زندہ قوموں کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنا نظامِ تعلیم بہتر بنائیں۔ اقتصادی ترقی کے ذریعے اپنے عوام کا معیارِ زندگی خوب تر کریں۔ غربت کم کریں۔ اقوامِ عالم میں اپنی عزت بڑھائیں۔ آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے شہریوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کریں۔ فیصلہ سازی میں سویلین برتری کو یقینی بنائیں۔ دور رَس منصوبہ سازی سے اپنے داخلی اور خارجی معاملات میں بہتری لائیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی اور جاپان کا کیا حال تھا لیکن دونوں تباہ شدہ قومیں پھر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئیں اور آج اقوامِ عالم میں باوقار ہیں۔اس کے برعکس ایسی قومیں بھی ہوتی ہیں جہاں جذباتیت منطق پر غالب رہتی ہے‘ اقتدار کی رسہ کشی ہمہ وقتی مشغلہ ہوتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کوئی طویل مدت کی فیصلہ سازی نہیں ہوتی۔ امتحانوں میں نقل سے لے کر انتخابات میں دھاندلی تک‘ صریحاً بے ایمانی ہوتی ہے مگر ہر کوئی پارسائی کا دعویدار بھی ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت اور خوراک میں ملاوٹ کی وجہ سے لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہونے لگتے ہیں مگر آبادی بڑھتی ہی جاتی ہے۔ ملازمتوں کے مواقع محدود ہونے کی وجہ سے نوجوان قانونی اور غیرقانونی ذرائع سے دوسرے ممالک جانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ خواہ اس کوشش میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ رویے سخت ہو جاتے ہیں۔ برداشت کم ہو جاتی ہے۔ گورننس کمزور ہو جاتی ہے‘ اس لیے کہ ٹاپ لیڈرشپ آئین اور قانون کی پاسداری نہیں کرتی۔
اس تمہید کے بعد آئیے ملک کے معکوس سفر کی مثالوں سے وضاحت کرتے ہیں۔ اکانومسٹ برطانیہ کا موقر مجلہ ہے جو عشروں سے سیاست‘ اقتصادیات اور فارن پالیسی کے شعبوں میں تجزیہ نگاری کرتا رہا ہے اور سنجیدہ طبقے اس کی آرا کو غور سے پڑھتے ہیں۔ حال ہی میں اکانومسٹ نے گلوبل ڈیموکریسی انڈیکس کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں مختلف ممالک کی درجہ بندی کی ہے۔ بھارت اور پاکستان کی درجہ بندی خاصی دلچسپی کے حامل ہے۔ بھارت اور پاکستان بیک وقت آزاد ہوئے اس طرح دونوں ممالک کا سیاسی شعور کم و بیش ایک جیسا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کانگریس سیاسی تجربے میں مسلم لیگ سے آگے تھی لیکن ہمارے صوبے مشرقی پاکستان میں سیاسی شعور کسی صورت باقی ماندہ بھارت سے کم نہیں تھا۔ برصغیر میں مسلم علیحدگی کا آغاز بنگال سے ہوا تھا اور مسلم لیگ کا جنم بھی ڈھاکہ میں ہوا تھا۔اکانومسٹ کی درجہ بندی کے مطابق بھارت اس وقت Flawed Democracyہے یعنی جمہوریت کے اعتبار سے آئیڈیل صورتحال وہاں بھی نہیں ہے لیکن بھارت میں الیکشن وقت پر ہوتے ہیں‘ وہاں کوئی عبوری حکومت نہیں بنتی۔ الیکشن کمیشن خاصا مؤثر ہے۔ عمومی طور پر اکثر پارٹیاں الیکشن کے نتائج تسلیم کرتی ہیں۔ عوام میں سے اُٹھنے والا لیڈر نریندر مودی بڑے سیاسی خانوادے کے وارث راہول گاندھی کو شکست دیتا ہے اور راہول گاندھی سڑکوں پر نہیں آتا۔ وہاں کے چند الیکشن کمشنر کئی ادوار گزرنے کے بعد اب بھی یاد کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے شاندار کام کیا۔ یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ بھارت میں چند جرائم پیشہ لوگ بھی لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوتے رہے لیکن دنیا بہرحال بھارت کو جمہوری ملک کے طور پر جانتی ہے گو کہ اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ نقائص والی جمہوریت ہے۔اکانومسٹ کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان جمہوری ملک نہیں بلکہ Authoritarianنظام کا حامل ہے یعنی ہمارے ہاں اہم قومی فیصلے عوام کے منتخب نمائندے نہیں کرتے بلکہ چند غیرمنتخب لوگ کرتے ہیں۔ رپورٹ میں اپریل 2022ء کے بعد کے سیاسی حالات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گزشتہ دو سال میں رونما ہونے والے سیاسی احداث عالمی سطح پر ہمارے امیج کو گہنا گئے ہیں۔
اور اب آتے ہیں آٹھ فروری کے الیکشن کی جانب جس کے نتائج کے بہت زیادہ متنازع ہونے کا سرٹیفکیٹ پلڈاٹ جیسے غیر جانبدار ادارے نے بھی دیا ہے۔ اس ادارے کے سربراہ کو میں گزشتہ چالیس سال سے جانتا ہوں۔ ہم سعودی عرب میں اکٹھے تھے۔ ان کے ادارے کی آرا جمہوریت‘ الیکشن اور پارلیمنٹ کے حوالے سے نپی تلی ہوتی ہیں۔ اس ادارے کی تازہ ترین رپورٹ میں 2013ء‘ 2018ء اور 2024ء کے انتخابات کا تقابلی جائزہ موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 2013ء کا الیکشن اتنا خراب نہیں تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں بنائے گئے کمیشن نے بھی کہا تھا کہ بے باقاعدگیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے۔ دھاندلی کے الزامات 2018ء کے الیکشن پر بھی لگے مگر آٹھ فروری کے الیکشن سے پہلے کئی ماہ جو کچھ ہوا اور نو فروری کے بعد جو ہوا‘ اس سے تو لوگوں کا جمہوریت سے بھروسا اٹھتا نظر آ رہا ہے۔ میں یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ اس مرتبہ میں پی ٹی آئی کا ووٹر نہیں تھا۔
زوال کی علامات ہر شعبے میں واضح ہیں۔ 1989ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ وزیراعظم نے حکم دیا کہ بلقیس قریشی کو بطور کونسل جنرل نیویارک تعینات کیا جائے۔ بلقیس قریشی اسلام آباد کا معروف پرائیویٹ سکول چلاتی تھیں۔ فارن آفس نے رائے دی کہ کونسل جنرل بننے کے لیے حاضر سروس سول سرونٹ ہونا ضروری ہے۔ میاں نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں بریگیڈیئر (ر) جاوید حسن کو بطور کونسل جنرل دبئی تعینات کیا گیا تو فارن آفس نے بالکل رولز کا حوالہ نہیں دیا۔ پرانے بیورو کریٹس کے جسم میں جو ریڑھ کی ہڈی تھی وہ قواعد اور قوانین کے حوالے سے تھی‘ اب وہ ریڑھ کی ہڈی موجودہ بیورو کریٹس میں نظر نہیں آتی۔ ہمارا معکوس سفر جاری ہے۔
چند روز پہلے اسلام آباد کے ایک معروف ہوٹل میں رؤف حسن صاحب نے فارن پالیسی پر غورو فکر کی ایک نشست کا اہتمام کیا تھا۔ میں بھی مدعو تھا۔ ہوٹل کے ارد گرد اکثر راستے بند تھے۔ ٹریفک پولیس نے بتایا کہ واحد راستہ کنونشن سنٹر کی طرف سے ہے؛ چنانچہ کنونشن سنٹر سے ہوتے ہوئے ہوٹل پہنچے تو پتا چلا کہ ہوٹل کے آس پاس گاڑی پارک کرنے کی سخت ممانعت تھی۔ سخت سکیورٹی الرٹ کی وجہ یہ تھی کہ PSLوالی کرکٹ ٹیمیں اُس ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ ڈپلومیٹک انکلیو کے گرد کنٹینرز تھے۔ یہ وہی اسلام آباد ہے جہاں سفارت خانوں میں عام آدمی کا جانا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا تھا۔آٹھ فروری کے بعد ملک میں بے یقینی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور یہ صورتحال ہم نے خود تخلیق کی ہے۔ ہمارا ہر الیکشن پہلے والے سے بدتر ہو رہا ہے۔ عوام کا یہ زعم بھی ختم ہوتا جا رہا ہے کہ ہم ووٹ سے حکومت بدل سکتے ہیں۔ ایک عجیب قسم کی فرسٹریشن اور بے چارگی چاروں سمت پھیل گئی ہے مگر اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ ایک انتہائی اہم ادارے کے بارے میں منفی ردعمل نے جنم لیا ہے۔ اُلٹا چلنے میں ایک امکان یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی وقت بھی گہرے گڑھے میں گر سکتے ہیں۔ کیا ہمیں اس بات کا ادراک ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں