اقوام متحدہ کے پینل برائے انسانی حقوق نے حال ہی میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو فوری طور پر رہا کرنا چاہئے کیونکہ ان کی قید کا کوئی منطقی جواز نہیں بنتا۔ اس پر پاکستانی فارن آفس کا ردِعمل توقع کے عین مطابق تھا۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پینل کی رپورٹ غیر ضروری اور جانبدار ہے اور یہ کہ رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ متعلقہ اشخاص پاکستان کے قانونی اور عدالتی نظام سے پوری طرح باخبر نہیں۔ میرے نزدیک یو این پینل کی رپورٹ میں سب سے اہم نکتہ عمران خان کی قید کو بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دینا ہے۔
اس رپورٹ پر سب سے پہلے جو سوال ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ کہ یو این پینل کی رپورٹ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تو نہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس بات کا جوب نفی میں ہے۔ یقینا ہمارے فارن آفس کو بھی اس بات کا ادراک ہو گا۔ انٹرنیشنل لاء ماضی قریب میں خاصا بدل چکا ہے‘ خاص طور پر انسانی حقوق کے حوالے سے۔ پاکستانی سیاست میں عمران خان کی آمد روایتی لیڈروں سے مختلف تھی۔ وہ نہ تو فیوڈل لارڈ تھے اور نہ ہی کوئی بڑے صنعتکار۔ ان کی پہچان کرکٹ اور شاندار خیراتی کاموں کے حوالے سے تھی جس کی اولین مثال لاہور کا شوکت خانم کینسر ہسپتال ہے۔1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت نے عمران خان کی شہرت کو چار چاند لگا دیے۔ نوجوان ان کے سحر میں مبتلا ہوئے اور سیاست میں قدم رکھنے کے بعد انہوں نے روایتی سیاستدانوں کی کرپشن کو سب سے بڑا ایشو بنایا تو عوام نے ان کی آوازپر لبیک کہا۔ لوگ شاید خان صاحب کو مافوق الفطرت مخلوق سمجھنے لگے۔ انہیں خان میں پاکستان کا وہ مسیحا نظر آنے لگا جس کا ایک زمانے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ خان صاحب کے کسی سپورٹر یا فین کو اگر یہ کہا جائے کہ اس کا لیڈر گوشت پوست کا بنا ہوا عام انسان ہے‘ جس سے خطا بھی سرزد ہو سکتی ہے تو وہ لڑنے کو آ جاتا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں میں خان کی مقبولیت اور بھی زیادہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روایتی لیڈروں کی کرپشن اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
سطورِ بالا میں مذکور ہے کہ بین الاقوامی قانون ماضی کے مقابلے میں واضح طور پر بدلا ہے‘ خاص طور پر انسانی حقوق کے حوالے سے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں اقوام متحدہ نے انفرادی اور اجتماعی‘ دونوں حوالوں سے انسانی حقوق کی پامالی پر بیانات دیے ہیں۔ 2018ء میں یو این سیکرٹری جنرل نے کہا تھا کہ انہیں عدنان خاشقجی کی موت کا بے حد افسوس ہوا اور اس امر کی مکمل انکوائری ہونی چاہئے۔2022ء میں یو این سکیورٹی کونسل نے مطالبہ کیا کہ میانمار (برما) میں آنگ سان سو چی سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔2023ء میں اقوام متحدہ ہیومن رائٹس کی سپیشل نمائندہ نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کہا کہ (بھارتی) ریاست کو انسانی حقوق کا پاس کرنا چاہئے اور اگر یہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی دکھاتی ہے تو اس کا محاسبہ ہونا چاہئے۔ ان بیانات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان کے سابق وزیراعظم کی رہائی کا مطالبہ یو این کی روایات کے عین مطابق ہے۔
جیسا عرض کیا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اہم ترین نکتہ خان صاحب کی قید کو بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دینا ہے تو اس حوالے سے واضح رہے کہ یو این کے انسانی حقوق کے بارے میں طے شدہ اصولوں کے مطابق قانون کے سامنے سب مساوی ہیں۔ اس ضمن میں یو این کا 1976ء کا پروٹوکول اہم ہے۔ اسی پروٹوکول میں یہ شق موجود ہے کہ جب تک الزام واضح طور پر ثابت نہ ہو جائے‘ ملزم کو معصوم تصور کیا جانا چاہیے۔ اور یہ کہ ہر شخص کو اپنا قانونی دفاع کرنے کا حق حاصل ہے اور کیس سننے والی عدالت یا ٹربیونل آزاد اور غیر جانبدار ہو۔ یہ تمام اصول اقوام متحدہ کے عالمی ڈیکلریشن برائے انسانی حقوق کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب یو این کی رپورٹ سے زیادہ وہ قرار داد اہم ہے جو پاکستان کے بارے میں امریکی ایوانِ نمائندگان میں بھاری اکثریت سے پاس کی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس قرارداد کو امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا احترام سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہیں‘ اسی سے اقتصادی استحکام کا حصول ممکن ہوگا اور سکیورٹی خدشات دور ہوں گے۔ کانگریس کے ممبررچرڈ مکار مک (Richard McCormick)‘ جو ریاست جیارجیا سے تعلق رکھتے ہیں اور قرارداد کے محرک بھی تھے‘ کا کہنا تھا کہ '' یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان کے حالیہ انتخابات میں مداخلت کے الزامات کو سنجیدگی سے ڈیل کیا جا رہا ہے‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کا دورِ حکومت کوئی سنہری دور نہیں تھا‘ اندرونی اور بیرونی سطح پر کئی غلطیاں ہوئیں‘ جن سے قارئین خوب آگاہ ہیں۔ اپریل2022ء میں اپوزیشن نے عدم اعتماد کی قرارداد پاس کرکے تحریک انصاف اور اس کے بانی کو دوبارہ مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ پھر پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی عمران خان کی شہرت میں اضافے کا سبب بنی اور امریکہ‘ کینیڈا اور برطانیہ میں پی ٹی آئی کے لیے مزید ہمدردی کے جذبات واضح ہونے لگے۔ یہی صورتحال یورپ میں مقیم پاکستانیوں میں دیکھنے میں آئی۔ یہ لوگ جمہوری ماحول میں رہتے ہیں‘ جہاں اپوزیشن کو برداشت کیا جاتا ہے۔ اس سے ناک سے لکیریں نہیں نکلوائی جاتیں۔ پاکستان میںجو صورتحال کچھ عرصہ سے چل رہی ہے اس سے نہ صرف اوور سیز پاکستانی ناخوش ہیں بلکہ اس کی بازگشت اقوام متحدہ‘ امریکی ایوانِ نمائندگان اور مغربی میڈیا سے بھی آ رہی ہے۔ عالمی سطح پر یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ فروری 2024ء کے پاکستانی الیکشن دھاندلی زدہ تھے اور یہ کہ پی ٹی آئی کے بانی ایک سیاسی قیدی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مذکورہ بالا ادارے نے اپنے تازہ ترین ٹویٹ میں کہا ہے کہ جن لوگوں نے بانی پی ٹی آئی کو جیل میں ڈال رکھا ہے‘ ان کا محاسبہ ہونا چاہئے۔
واپس آتے ہیں امریکی قرارداد کی طرف۔ پاکستانی فارن آفس نے ردعمل کے طور پر کہا کہ پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا جمہوری پارلیمانی ملک ہے اور یہ کہ اپنے قومی مفاد میں پاکستان آئین کی پابندی‘ انسانی حقوق کے دفاع اور قانون کی حکمرانی کی پاسداری کرتا ہے۔ میرے خیال میں ریاستی ردعمل نپا تلا تھا اور اس سے زیادہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی ہماری قومی اسمبلی نے امریکی الزام‘ کہ الیکشن دھاندلی زدہ تھے‘ کی مذمت کو ضروری سمجھا۔ جب حکمران پارٹی یہ قرارداد پیش کر رہی تھی تو ایوان مچھلی منڈی بنا ہوا تھا۔ اپوزیشن اس قرارداد سے بالکل متفق نہیں تھی۔ اس قرارداد کو قومی اسمبلی میں پیش کرنا حکومت کا احمقانہ فیصلہ تھا۔
کرپشن سمیت تمام تر الزامات اور کیسز کے باوجود بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ عمران خان ایماندار اور مخلص لیڈر ہیں‘ انہوں نے ڈٹ کر تمام چیلنجز کا سامنا کیا۔ اگر ان کی غلطیوں کا ذکر کیا جائے تو بیرونِ ملک پاکستانی ان کی ذمہ داری دیگر افراد پر ڈال کر اپنے لیڈر کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔ امریکی کانگریس کی قرارداد‘ اقوام متحدہ رپورٹ اور مغربی میڈیا میں پاکستان کی موجودہ صورتحال پر تبصرے موجودہ حکومتی اتحاد کے لیے دردِ سر ہیں اور تحریک انصاف کے لیے باعثِ تقویت۔