"JDC" (space) message & send to 7575

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

سابق فارن سیکرٹری شہر یار خان کی رحلت ایک قومی سانحہ ہے۔ اُس محب وطن فرزندِ پاکستان کی وفات بھی یومِ پاکستان کے روز ہوئی۔ 1947ء میں تیرہ سالہ پرنس آف بھوپال پاکستان آیا اور مملکت کے اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچا ۔اردن‘ فرانس اور برطانیہ میں سفیر رہنے کے بعد چار سال تک فارن آفس کی سربراہی کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد روانڈا میں یو این سیکرٹری جنرل کے مندوبِ خاص رہنے کا شرف حاصل کیا۔ دو مرتبہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رہے۔ لمز یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔
اس ہمہ جہت شخصیت کے اور بھی متعدد دلچسپ پہلو تھے۔ انہیں موسیقی‘ ٹینس اور کرکٹ سے بے حد لگاؤ تھا۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ان کی جوانی کی تصویریں نظر آئیں تو لگا کہ انگریزی کا لفظ ہینڈ سم ایسے ہی لوگوں کے لیے بنا ہوگا۔ مگر اس سے اہم بات یہ ہے کہ اُن کا باطن اور بھی خوبصورت تھا۔ نام سے پہلے کبھی پرنس‘ نوابزادہ نہیں لکھا۔
بھوپال کا شمار انڈیا کی بڑی ریاستوں میں ہوتا تھا۔ چند خصوصیات اُسے دوسری ریاستوں سے ممتاز کرتی تھیں۔ حکمران فیملی مسلم تھی جس نے تقریباً ڈھائی سو سال یہاں حکومت کی۔ آبادی نوے فیصد ہندو تھی لیکن مذہبی رواداری قائم رہی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بھوپال پر تقریباً سو سال چار خواتین نے حکومت کی۔ شہر یار صاحب کی کتاب The Begums of Bhopal میں اُن کی شخصیات اور طرزِ حکمرانی پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ اُن کی والدہ بیگم عابدہ سلطان ریاست کی آخری حکمران تھیں۔ 1947ء میں اتنی بڑی ریاست کو خیرباد کہا‘ دو سوٹ کیس اٹھا کر کراچی آ گئیں اور وہیں مدفون ہیں۔ قائداعظم بیگم عابدہ سلطان کے پاکستان کے انتخاب پر خوش ہوئے ۔بھوپال کا حکمران خاندان ایک عرصے سے پاکستان کے بارے میں مثبت سوچ رکھتا تھا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ ریاست ِبھوپال سے علامہ اقبال کو کئی سال وظیفہ ملتا رہا۔ قائداعظم سے نواب حمید اللہ خان رابطے میں رہتے تھے۔
شہر یار صاحب سے میری پہلی ملاقات 1977ء میں ہوئی‘ جب وہ اُردن میں سفیر تھے اور میں دمشق میں سیکنڈ سیکرٹری۔ مجھے عمان سے ایک دوست نے بتایا کہ سفیر صاحب نے غلام فرید صابری قوال کو ایک ہفتہ کیلئے اُردن بلایا ہے۔ دمشق سے عمان کا سفر ڈھائی تین گھنٹے کا ہے۔ میں نے کار پکڑی اور عمان روانہ ہو گیا۔ شام کو سفیر صاحب کی رہائش گاہ پر ‘جسے عمومی طور پر پاکستان ہاؤس کہا جاتا ہے‘ صابری برادران کی پرفارمنس تھی۔ میں نے سوچا کہ شام کے فنکشن سے پہلے سفیر صاحب سے تعارفی ملاقات کر لی جائے؛ چنانچہ میں ایمبیسی پہنچ گیا۔ سفیر صاحب تپاک سے ملے اور اس بات پر خوش ہوئے کہ موسیقی اور گلوکاری کے ا ستعماع کیلئے بارڈر پار سے آیا ہوں۔ شام کو پا کستان ہاؤس پہنچا تو فرشی نشست کا بندوبست تھا کہ قوالی کی روایت یہی ہے۔ اُردن کے ولی عہد پرنس حسن اور شہزادی ثروت بھی تشریف فرما تھے۔ صابری برادران نے سماں باندھ دیا۔ پرنس حسن بن طلال نے لعل شہباز قلندر سننے کی فرمائش کی جو فوراً پوری ہوئی۔ قوالی میں وقفہ ہوا تو سفیر صاحب نے استفسار کیا کہ ٹینس کھیلتے ہو ؟میرا جواب اثبات میں پا کر کہنے لگے: تو پھر کل ہمارے ساتھ کھیلو‘ تم اپنا ایڈریس ایمبیسی ڈرائیور کو سمجھا دو‘ وہ کل تمہیں لے آئے گا؛ چنانچہ اگلے روز میں نے شہر یار خان اور ان کے صاحبزادوں فیض اور عمر کے ساتھ ٹینس کھیلی۔ ٹینس کے علاوہ کرکٹ بھی خوب کھیلتے تھے۔1980ء کے آخر میں الذوالفقار والوں نے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا اور اسے پہلے کابل اور پھر دمشق لے گئے۔ دمشق میں اُس وقت ہمارے سفیر جنرل سرفراز تھے اور وہ معاملے کو ٹھیک طرح ہینڈل نہیں کر پا رہے تھے ؛چنانچہ عمان سے شہر یار صاحب کو دمشق بھیجا گیا اور وہ طیارہ اور اس کے مسافروں کو بحفاظت رہا کرانے میں کامیاب رہے۔
شہر یار صاحب نے اعلیٰ تعلیم کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی تھی۔ 1957ء میں مقابلے کے امتحان کے بعد فارن سروس جوائن کی۔ قارئین کیلئے یہ امر دلچسپی کا باعث ہوگا کہ انٹرویو میں ان کے تین سو میں سے تین سو نمبر تھے اور یہ اعزاز بہت کم لوگوں کو حاصل ہوا ہے۔شہر یار صاحب کی یادداشت بلا کی تھی۔ جب سیکرٹری خارجہ تھے تو عمان او آئی سی کی ایک سربراہ کانفرنس کیلئے گئے ‘ساتھ منسٹری کے ایک سینئر افسر بھی تھے۔ فارن آفس میں ایسی کانفرنسوں کیلئے مفصل بریف تیار کیا جاتا ہے۔ جب ہوٹل سے کانفرنس کیلئے روانہ ہوئے تو افسر نے پوچھا :سر کانفرنس بریف آپ کے کمرے میں تھا۔ شہر یار صاحب بولے کہ وہ تو میں کمرے میں بھول آیا ہوں ؛چنانچہ افسر نے کہا کہ واپس ہوٹل جا کر لے آتے ہیں۔ شہر یار صاحب نے ا پنے سر کی طرف ہلکا سا اشارہ کیا اور کہا:Don't worry, it's all here.۔ کل ہی انڈیا میں ہمارے سابق ہائی کمشنر شاہد ملک نے ایک اور دلچسپ واقعہ سنایا :کہنے لگے کہ 1990ء کی دہائی میں بطور فارن سیکرٹری نیو دہلی آئے اور خواہش ظاہر کی کہ میں منجملہ دوسرے لوگوں کے‘ پریذیڈنٹ شنکر دیال شرما کو بھی ملنا چاہوں گا۔ شاہد ملک کا کہنا ہے کہ ہم نے نوٹ انڈین فارن آفس کو بھیج دیا اور فوراً ہی اطلاع آئی کہ صدر شنکر دیال شرما آج ہی اپنے آفس میں فارن سیکرٹری صاحب کو خوش آمدید کہیں گے؛ چنانچہ میں نے راشٹر پتی بھون پہنچ کر فارن سیکرٹری کا تعارف کرانا چاہا تو شرما صاحب بولے :میاں ہم تو اُن کے مہمان رہ چکے ہیں۔ شاہد صاحب دل ہی دل میں حیران ہو رہے تھے کہ صدر شرما تو کبھی پاکستان گئے نہیں تو مہمان کیسے رہے ہوں گے؟ کہتے ہیں کہ واپسی پر کار میں مَیں نے استفسار کیا تو کہنے لگے: 1947ء سے پہلے تحریک آزادی کے دنوں میں شرما صاحب بھوپال آئے‘ شہر میں دفعہ 144 نافذ تھی اور انہوں نے جلسہ عام میں تقریر شروع کر دی‘ بہت لوگ جمع ہو گئے‘ میری والدہ بھوپال کی حکمران تھیں‘ انہوں نے حکم دیا کہ شرما صاحب کو چند روز جیل میں بند کر دیا جائے اور ساتھ ہی شرما صاحب کے اندازِ گفتگو کو بھی سراہا کہ مہذب لوگ اشاروں کنایوں میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔
شہر یار صاحب لندن میں ہائی کمشنر تھے کہ ملکہ ترنم وہاں آئیں۔ ملکہ ترنم کی پرفارمنس تھی اور شہر یار خان سامعین میں سب سے آگے بیٹھے ہوئے تھے۔ نور جہاں سٹیج پر آئیں اور کہنے لگیں کہ میں اس صورت میں گاؤں گی اگر ہائی کمشنر صاحب طبلہ پر سنگت کریں۔ میڈیم کی ڈیمانڈ قبول کرتے ہوئے وہ سٹیج پر آئے اور تھوڑی دیر باقاعدہ طبلہ بجایا۔1998ء کی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں تھا‘ شہر یار صاحب 1994ء سے ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ وقت کراچی میں گزارتے تھے۔ مجھے پتا چلا کہ اپنے بیٹے عمر کے پاس اسلام آباد آئے ہوئے ہیں‘ میں نے فون کیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ کہنے لگے: خوشی سے آؤ۔ چنانچہ میں ایف سیون چلا گیا۔ وقت وافر تھا اور خان صاحب بھی اچھے موڈ میں تھے‘ میں نے اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہا کہ بطور فارن سیکرٹری مجھے ہمیشہ بہت اچھی سالانہ رپورٹ دیتے رہے۔ کہنے لگے: اس میں شکریہ کی کیا بات ہے‘ میں رپورٹ لکھتے وقت ہمیشہ یہ دیکھتا ہوں کہ اس افسر کے مثبت پہلو کیا ہیں۔ میں نے جب بھی تمہاری رپورٹ لکھی تو میری نظر تمہاری عربی دانی کی طرف گئی جس کیلئے تم نے یقینا بہت محنت کی ہو گی۔
شہر یار صاحب کو نہ میں نے کبھی پریشان دیکھا اور نہ ہی غصے کی حالت میں اور یہ بڑے لیڈر کی نشانی ہے۔بطور چیئرمین پی سی بی‘ اُن کے پہلے دور میں 2004ء میں انڈیا کی ٹیم پاکستان آئی۔ دوسرے دور میں 2016ء میں پاکستانی ٹیسٹ ٹیم دنیا بھر میں نمبر ون قرار دی گئی۔ 2007ء میں وہ مسقط آئے تو میں نے انہیں سفارتخانہ میں افسروں سے خطاب کی دعوت دی۔ اس خطاب میں انہوں نے کہا کہ 1947ء میں جو امیدیں عالمِ اسلام اور عوام نے پاکستان سے وابستہ کی تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں ۔یہ پہلی تلخ بات تھی جو میں نے ان سے سنی۔ حقیقت یہ ہے کہ شہر یار صاحب جیسی ہمہ جہت شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں