"JDC" (space) message & send to 7575

سفر وسیلۂ ظفر

پچھلے ہفتے مجھے پنجاب کے تین اضلاع میں جانے اور مختلف لوگوں سے میل ملاقات کا موقع ملا۔ پہلے زمانے میں لوگ تحصیلِ علم کے لیے لمبے لمبے سفر کیا کرتے تھے۔ شیخ سعدی رہنے والے ایران کے تھے لیکن عشروں تک حالتِ سفر میں رہے۔ تب نہ موٹرویز تھیں اور نہ کاریں یا ہوائی جہاز۔ اب تو سفر بے حد آسان ہو گیا ہے‘ مسافتیں سکڑ گئی ہیں۔ ہزاروں لوگ اندرونِ ملک اور دوسرے ممالک کی جانب روزانہ سفر کرتے ہیں۔ دنیا خاصی سکڑ گئی ہے۔ سمارٹ فون کی وجہ سے بھی دنیا آپ کی ہتھیلی میں سمٹ گئی ہے‘ لیکن اس سمارٹ فون اور ٹی وی کی وجہ سے بہت ساری مثبت عادتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے‘ مثلاً پیدل چلنا کم ہو گیا ہے۔ لوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں یا قریب ترین مارکیٹ میں بھی کار اور موٹر سائیکل پر سوار ہو کر جاتے ہیں۔ بہرحال آج کے موضوع کا اصل مقصد سفر کے فوائد کو شمار کرنا نہیں بلکہ ان تاثرات کو سمیٹ کر یکجا کرنا ہے جو تین مختلف اضلاع میں پڑاؤ کے دوران اخذ کیے گئے۔
ایک زمانے میں اسلام آباد سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا سفر طویل ہوا کرتا تھا۔ اب موٹر وے نے اسے مختصر اور آرام دہ بنا دیا ہے۔ موٹر وے کا ایک انٹر چینج سیدھا ہمارے گاؤں کی زمین میں اُترتا ہے۔ ہمارے گاؤں میں اکثر لوگوں نے کینو کے باغات لگائے ہوئے ہیں۔ باغات کے مالکان سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ پچھلے سال حکومت نے کینو کی برآمد کی اجازت نہیں دی جس کی وجہ سے ہماری آمدنی محدود رہی۔ میں حیران تھا کہ حکومت نے کینو کی برآمد کو کیوں روکا جبکہ ایران اور افغانستان‘ دونوں ممالک میں ہمارے کینو اور مالٹے کی کافی ڈیمانڈ ہے۔ ایک زمیندار کا جواب تھا کہ پچھلا سارا سال تو حکومت کی توجہ ایک سیاسی جماعت کو محدود کرنے پر مرکوز رہی‘ وہ بھلا کوئی مثبت پالیسیاں کیسے بناتی۔ آپ اس رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ہماری حکومتوں کی بہت ساری انرجی اپنے سیاسی حریفوں کو پریشر میں رکھنے ہی پر صرف ہوتی رہتی ہے۔
ایک بات جو تینوں اضلاع میں محسوس کی گئی وہ عوام میں عدم وابستگی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ کبھی لوگ یہ سوچا کرتے تھے کہ غیرمقبول جماعت کو ووٹ نہ دے کر فارغ کر دیں گے۔ اب لوگوں میں یہ احساس عام ہے کہ ان کے ووٹ کی قوت کم ہو گئی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسی سوچ ہمارے قومی مفاد کے لیے سود مند نہیں‘ عوام کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ ووٹ کی قوت مکمل طور پر بحال ہو گی اور عوامی رائے کو عزت و توقیر ملے گی۔ سیاسی استحکام حاصل کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔
یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ کسان سارا سال بارش کے لیے دعائیں کرتے ہیں لیکن مارچ‘ اپریل کی بارشوں سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ مارچ‘ اپریل میں سورج خوب چمکے‘ دھوپ ہو اور موسم خشک رہے تاکہ گندم کی فصل سکون سے کٹ جائے۔ بھوسے اور دانوں کو علیحدہ کرنے کا عمل بھی خشک موسم میں بہتر رہتا ہے‘ ورنہ دونوں کو فنگس لگ سکتی ہے۔ کٹائی کے دنوں میں موسم ناساز گار ہونے کے باوجود گندم کی فصل اس سال خوب ہوئی ہے۔ جنوبی پنجاب میں فی ایکڑ پیداوار 60 من کے قریب رہی جو اچھی اوسط ہے لیکن کسان کے چہرے پر رونق میں نے نہیں دیکھی۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بعد میرا اگلا پڑاؤ خان پور‘ ضلع رحیم یار خان تھا۔ یہ ضلع پاکستان کے زرخیز ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ آم کے باغات عام ہیں۔ یہاں گندم اور کپاس‘ دونوں اچھی ہوتی ہیں لیکن چھوٹے کسان کو سستے داموں گندم بیچنا پڑی ہے۔ باردانہ وقت پر ملا اور نہ ہی پاسکو نے وقت پر خریداری شروع کی۔سنا ہے کہ حکومت کے پاس گندم کی خریداری کے لیے فنڈز نہیں ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چند ماہ پہلے عبوری حکومت کی درآمد شدہ گندم سے سرکاری گودام بھرے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم سعودی عرب جانے سے پہلے اعلان کرکے گئے تھے کہ ہم اس سال زیادہ گندم کسانوں سے خریدیں گے۔ مجھے یہ صرف بیان بازی لگتی ہے۔ اگر حکومت نے سرکاری ریٹ پر اب خریداری کی تو فائدہ بڑے زمیندار ہی کو ملے گا۔ آڑھتی کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ بڑے زمیندار اچھی قیمت کے انتظار میں گندم سٹور کر لیتے ہیں اور آڑھتی حضرات تو بینکوں سے قرض لے کر کسانوں سے کم قیمت پر گندم خرید رہے ہیں۔ دو چار ماہ میں گندم کی قیمت بڑھے گی اور بینک کا سود ادا کرنے کے بعد بھی منافع حاصل ہوگا۔ اس سارے منظر نامے میں نقصان صرف چھوٹے کسان کا ہوتا ہے۔ جسے فصل اگانے کے لیے بیج‘ کھاد اور ڈیزل کے لیے قرضے لینا پڑتے ہیں اور کٹائی کے فوراً بعد قرض کی ادائیگی کے لیے گندم بیچنا پڑتی ہے۔
گو کہ خان پور اور گردو نواح کا علاقہ کچے کے علاقے سے ذرا ہٹ کے ہے لیکن ہر متمول شخص نے اپنی حفاظت کیلئے اسلحہ رکھا ہوا ہے۔ صنعت اور تجارت میں اَپر پنجاب سے گئے ہوئے لوگوں کا حصہ وافر ہے۔ ان لوگوں کے لیے سفر یا نقل مکانی وسیلۂ ظفر رہی ہے۔ اس اَپر مڈل کلاس کا شکوہ ہے کہ حکومت نے اسلحہ لائسنس فیس یکدم پانچ گنا بڑھا دی ہے لہٰذا غیرقانونی اسلحہ کو فروغ ملے گا۔ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہوتا تھا مگر اب وہ ووٹ بینک تحریک انصاف کو شفٹ ہو گیا ہے۔ مجھے مسلم لیگ والے خاصی دفاعی پوزیشن پر نظر آئے اور میں یہ بات یقین سے اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ میرے میزبان مسلم لیگی ہی تھے۔
خان پور سے واپسی پر ہم نے فیصل آباد میں پڑاؤ کیا۔ دورانِ سفر پنجاب کا زرخیز علاقہ دیکھا جو ہماری زرعی خود کفالت کا ضامن رہا ہے۔ راستے میں اُچ شریف‘ ظاہر پیر اور ملتان کے سائن بورڈ آئے تو خواجہ فریدؒ کی لازوال صوفیانہ شاعری یاد آئی جو عشقِ الٰہی کے علاوہ انسان دوستی کی علامت ہے جنہیں بروقت وصالِ یار کی تاہنگ (شدید خواہش) رہتی تھی۔ خواجہ فریدؒ کی شاعری نے روہی کے وسیب کو امر کردیا ہے۔
موجودہ پنجاب حکومت کی مقبولیت صوبے میں واجبی سی ہے لیکن اکثر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ عثمان بزدار کے عہدِ حکومت سے خاصی بہتر ہے۔ فیصل آباد میں شب پاشی کے بعد اگلے روز صبح اسلام آباد روانہ ہونا تھا۔ فیصل آباد میں ہمارے میزبان سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں‘ وہ علی الصباح ڈیوٹی پر جانے کے لیے تیار تھے۔ کہنے لگے کہ ہسپتال میں حاضری بائیو میٹرک سے ہوتی ہے۔ یہ حکومتِ پنجاب کا اچھا اقدام ہے۔
واپس آئے تو باورچی نے بتایا کہ گھر میں آٹا ختم ہے‘ چنانچہ فوراً آٹا خریدنے گئے تو خوش گوار حیرت ہوئی کہ سفید آٹے کی قیمت میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ اس اقدام سے حکومت کے لیے خیر سگالی کے جذبات میں اضافہ ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں