لیڈر ہو تو ایسا۔ حلف لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سننے والی ہے۔ سیاست میں تھوڑی سی بھی دلچسپی رکھنے والوں کو تقریر سننی چاہیے۔ جن مسائل سے امریکہ دوچار ہے اور جن کو اجاگر کرکے ٹرمپ کی فتح کی بنیاد بنی‘ وہ سب تقریر کا موضوع ہیں۔ پھر انداز ایسا کہ سامعین سے رشتہ جوڑ دے‘ یہ خداداد صلاحیت ہے۔ ہر انسان کے پاس نہیں ہوتی۔ اور تقریر کے فوراً بعد پے در پے آرڈر سائن کر دیے۔ یہ نہیں کہا جو ہمارے لیڈر یہاں کہتے ہیں کہ ہم کریں گے‘ ہمیں کرنا ہوگا‘ بلکہ حکمنامے پہلے سے تیار تھے اور سامعین کے سامنے ہی صدر ٹرمپ نے ان پر اپنے دستخط کیے۔
پاکستانی تاریخ میں ایک ہی ایسی مثال ملتی ہے جب نہایت ہی بحرانی کیفیت میں ذوالفقار علی بھٹو نے مسندِ اقتدار سنبھالا۔ فی البدیہہ تقریر تھی‘ نہایت ہی پُراثر۔ دورانِ تقریر انہوں نے کہا کہ سیاہ رات ختم ہو گئی ہے اور میں‘ جبکہ میری عمر لگ بھگ اکیس سال تھی‘ نے اپنے آپ کو اتنا خوش قسمت سمجھا کہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے ہیں اور سیاہ رات ختم ہو رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ جملہ ایک خواب ہی ثابت ہوا کیونکہ ختم ہونے کے بجائے سیاہ رات طوالت پکڑتی گئی اور پھر بھٹو نے بھی جمہوریت پر ایسے وار کیے کہ ان کے دورِ اقتدار میں جمہوریت کا تصور ہی مسخ ہو گیا۔ ان کا عجیب سا پرابلم تھا‘ معمولی تنقید بھی برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اور جس کسی نے تنقید کی جسارت کی ان کے غیظ و غضب کا نشانہ بنا۔ بھٹو کے کردار کا یہ زاویہ کبھی سمجھ نہ آیا کیونکہ سیاسی مخالفین کے خلاف بہت سے ان کے اقدامات سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ایسی سختی کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔
بہرحال یہ تو ضمناً بات ہو گئی‘ آج کے مسائل تو کچھ اور ہیں۔ اور آج جو دھڑکے لگے ہوئے ہیں وہ اور نوعیت کے ہیں۔ یہاں تو یہ فکر ہے کہ کسی پیرائے میں‘ کسی موڈ میں‘ آنے والے وقتوں میں ٹرمپ پاکستان کے سیاسی معاملات کے بارے میں کچھ نہ کہہ جائیں۔ امریکی ریڈار پر پاکستان نہیں۔ امریکی مفادات اور مسائل کے تناظر میں ہم نہ تین نہ تیرہ میں۔ لیکن جو حکمرانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ان کے دِلوں میں یہ ڈر موجود ہے کہ کسی موقع پر ٹرمپ یا ان کے سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو پاکستان کے بارے میں کچھ ناروا جملے نہ کہہ بیٹھیں۔ رچرڈ گرینل ایک تیسرے یا چوتھے درجے کا اہلکار ہے۔ اس نے ایک دو ٹویٹ پاکستان کے سیاسی حالات کے بارے میں کر ڈالے تو یہاں یوں لگا کہ کوئی طوفان آ گیا ہے۔ زلمے خلیل زاد کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں‘ وہ پاکستان کے بارے میں کچھ ٹویٹ کر ڈالتا ہے تو یہاں ہلکے سے جھٹکے لگنے لگتے ہیں۔ یہ ہماری حیثیت ہے۔ کسی بڑے اہلکار کا بیان آ جائے تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ یہاں حالت کیا ہو گی۔ چور کی داڑھی میں تنکا‘ ہماری قومی حالت اس وقت اس سے مماثلت رکھتی ہے۔ انتخابات ہوں اور پورے کے پورے اُڑا لیے جائیں‘ داڑھی میں تنکا تو پھر بہت نمایاں ہو جاتا ہے۔ احساسیت بھی بڑھ جاتی ہے اس ڈر سے کہ کوئی کچھ کہہ نہ دے۔ اسی وجہ سے اس وقت نئی امریکی انتظامیہ کے بارے میں ہماری سوچ ایک ہی ٹریک پر چل رہی ہے کہ کہیں کوئی مخالف ٹویٹ نہ آ جائے۔
پرابلم یہ ہے کہ امریکہ میں بیٹھے پاکستانی سیاسی طور پر بڑے ایکٹو ہو گئے ہیں۔ سیاسی معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مختلف ممبرانِ کانگریس کے ساتھ ان کے روابط ہیں۔ امریکی پاکستانیوں کی سیاسی حیثیت پہلے کی نسبت سے زیادہ ہو گئی ہے۔ وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ پاکستان کے بارے میں کوئی سیاسی قرارداد پاس کروا دیں۔ ایک دو مرتبہ ایسا ہو چکا ہے اور جب ہوا تو یہاں نزلہ زکام لگ گیا۔ وہاں کے پاکستانیوں کے سیاسی جذبات کیا ہیں‘ وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس لحاظ سے یہ خدشہ بجا ہے کہ امریکن پاکستانی ریپبلکن پارٹی اور کانگریس میں پاکستانی حکومتی حلقوں کے حوالے سے مخالف جذبات کو ہوا دیں گے۔ یہ پریشانی کا باعث ہمارے کرتے دھرتوں کیلئے بنا ہوا ہے۔ جب آپ بالکل ہی کمزور وکٹ پر کھیل رہے ہوں تو ہر چھوٹے دباؤ سے پریشانی پیدا ہو جاتی ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ اگر رچڑد گرینل اور زلمے خلیل زاد کے بیانات سامنے رکھے جائیں تو یہ خدشہ بے جا نہیں کہ مزید ایسے بیانات آ سکتے ہیں۔
ہمارا پرابلم یہ ہے کہ اپنے لیے ہم نے تمام سیاسی راستے بند کیے ہوئے ہیں۔ جہاں آئینی اور سیاسی شاہراہیں کھلی ہونی چاہئیں ہم نے اُن پر روڈ بلاک کیے ہوئے ہیں۔ انتخابات کرائے جاتے ہیں تو فارم 47 کی نذر ہو جاتے ہیں۔ عدلیہ کا آئینی کردار ہے تو وہ ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔ وحدتِ عدلیہ بھی ہمارے لیے قبول نہیں‘ اسی لیے اعلیٰ عدلیہ کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ سوائے خیبرپختونخوا کے باقی صوبوں اور وفاق میں وہ حکومتیں قائم ہیں جن کا مینڈیٹ مشکوک ہے۔ ٹرمپ کا اعتماد قابلِ دید ہے لیکن ان کا اعتماد ان کے مینڈیٹ کے مرہونِ منت ہے۔ جیتے ہیں تو بھاری ووٹوں کے ذریعے سے‘ رات کے اندھیروں میں کسی ہیرا پھیری کی وجہ سے نہیں۔
دوسرا المیہ ہمارا یہ ہے کہ جس بند گلی میں ہم نے اپنے آپ کو بند کر دیا ہے اس سے نکلنے کی کوئی تدبیر نہیں۔ ہمیشہ سے کسی بند گلی میں کوئی رہ سکتا ہے؟ لیکن یہاں سوچ یہی ہے کہ جیسا بھی ہے کام چلائے جاؤ‘ بعد میں دیکھا جائے گا۔ یعنی تکیہ اسی پر ہے کہ رام بھلی کرے گا۔ لیکن کوئی تو تدبیر ہو‘ آئندہ کیلئے کوئی روڈ میپ ہو۔ کہ اگر ابھی تمام سڑکیں بند ہیں اور ان پر بڑے بڑے پتھر رکھے ہوئے ہیں تو چھ ماہ یا سال میں یا دو سال میں یہ پتھر ہٹ جائیں گے اور سیاسی معاملات کا راستہ صاف ہو جائے گا۔ لیکن ایسی کوئی سوچ نہیں‘ کوئی عندیہ نہیں۔ یہ نہایت ہی مایوس کن صورتحال ہے۔
بظاہر مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان مذاکرات سے کیا نکل سکتا ہے۔ عقل یا کامن سینس کی بات کی جائے تو لچک دکھانا پڑتی ہے۔ لچک دکھانا پڑے تو قیدی نمبر فلاں جیل سے باہر آ جاتا ہے۔ لیکن یہ دھڑکا بھی لگا ہوا ہے کہ ایسا ہوتا ہے تو حالات کنٹرول میں رہیں گے یا بے قابو ہو جائیں گے؟ یعنی اربابِ اختیار وسوسوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ کہیں یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے۔ کوئی بتائے ایسے میں کیا ہو سکتا ہے؟
ایسا پاکستان جس کی حکمرانی اور سیاست وسوسوں اور تضادات میں گھری پڑی ہو اس میں ٹرمپ انتظامیہ کیا دلچسپی رکھ سکتی ہے؟ افغانستان میں کوئی امریکی جنگ تو جاری نہیں کہ ہماری چوکیداری کی ضرورت ہو۔ ٹرمپ ہی تو تھا جس نے کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی بیکار کی بات ہے اور امریکی فوجو ں کو وہاں سے نکلنا چاہیے۔ ٹرمپ کے سامنے بڑے مسئلے اپنے بارڈروں کی حفاظت اور چین کے ساتھ تجارتی ناہمواری کو ختم کرنا ہے۔ لیکن ایک بات جو ساری دنیا کو نظر آ رہی ہے وہ پاکستان کی سیاسی صورتحال ہے جس پر نئی امریکی انتظامیہ کے لوگ کچھ کہہ بیٹھے تو اندیشہ یہی ہے کہ ہمیں سخت قسم کا بخار ہو سکتا ہے۔
بس یہی پھر سمجھنا چاہیے کہ ہمارا صیاد کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔ اپنے سیاسی اور معاشی حالات میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اور عقل کی وہ شمع روشن نہیں ہو رہی جس سے اندھیرے میں ہمیں کوئی راستہ سوجھے۔ ہم انہی حالات میں پھنسے ہوئے ہیں اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سنگین قسم کی شورشیں جاری ہیں۔ حکمت کی ضرورت ہے اور حکمت ناپید ہے۔