امریکی صدر ڈونڈ ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب انہوں نے پہلی بار 2016ء میں صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تھا تب ریپبلکن پارٹی کی صفوں میں بھی ان کی کامیابی کی امید نہیں کی جا رہی تھی مگر ہیلری کلنٹن کے پاپولر ووٹ زیادہ ہونے کے باوجود الیکٹورل کالج کے ووٹوں میں اکثریت کی بنیاد پر ٹرمپ صدارتی انتخاب جیت گئے۔ انہیں یہ جیت ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں بہت کم مارجن سے حاصل ہوئی تھی۔ امریکہ کی جن چھ ریاستوں کے نتائج انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں‘ ٹرمپ ان میں سے صرف تین مشی گن‘ پنسلوینیا اور وسکونسن میں معمولی اکثریت سے جیت کر وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے تھے۔ 2018ء میں کانگرس کے مِڈٹرم انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پارٹی کے ہاتھ سے ایوان نمائندگان نکل گیا اور اسے سینیٹ میں بھی معمولی اکثریت حاصل تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلے امریکہ کے جتنے بھی صدر منتخب ہوئے ہیں‘ ملک کے سب سے اہم عہدے پر پہنچنے سے پہلے ان میں سے بیشتر کسی نہ کسی سرکاری عہدے پر فائز رہ کر امورِ مملکت یا سیاست کا تجربہ رکھتے تھے ‘ مگر ڈونلڈ ٹرمپ اس وادیٔ خار زار میں بالکل نووارد تھے اس لیے 2016ء کے صدارتی انتخاب میں ان کی کامیابی نے سب کو حیران کر دیا۔
2024ء کے انتخاب میں ان کی کامیابی اور بھی زیادہ حیرت کا باعث ہے کیونکہ اس سے قبل‘ گرور کلیولینڈ کے علاوہ‘ امریکی تاریخ میں کوئی صدر ایک دفعہ ہارنے کے بعد دوبارہ صدر منتخب نہیں ہوا تھا۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کو کئی ایک مقدمات کا بھی سامنا تھا۔ ایک مقدمے میں اُن کو سزا بھی سنا دی گئی تھی لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا کیونکہ جولائی 2024ء میں‘ جب ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں مصروف تھے‘ امریکی سپریم کورٹ نے صدارت کی مدت کے دوران کیے گئے اقدامات پر صدراتی استثنا کی بنا پر ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا۔ ایک اور مقدمے میں‘ جس کا تعلق 2020ء کے صدارتی انتخابات میں اپنی ہار کو تسلیم نہ کرنے اور انتخابی نتائج میں دھاندلی کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگانے سے تھا‘ ٹرمپ کو سزا یقینی تھی کیونکہ ان کے خلاف الزامات کی تحقیق کرنے والا پراسیکیوٹر جیک سمتھ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 2020ء کے انتخاب کے نتائج کو جھوٹ اور فراڈ کے ذریعے تبدیل کرکے خود کو کامیاب قرار دینے کی سازش میں ٹرمپ کے ملوث پائے جانے کے حق میں اتنے واضح اور مضبوط ثبوت موجود ہیں کہ ٹرمپ کو سزا ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ایک الزام‘ یعنی ریاست کے خلاف سازش پر جرمانے اور پانچ برس کی سزا ہو سکتی ہے۔ دوسرے الزام میں‘ جس میں کسی کو اسکے جائز حق سے محروم کرنے کی سازش شامل ہے‘ ٹرمپ کو جرمانے کیساتھ دس سال قید ہو سکتی ہے اور کارِ سرکار میں رکاوٹ پر جرمانے اور 20برس کی قید کی سزائیں‘ مگر نومبر 2024ء کے صدارتی انتخاب میں کامیابی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ان سزاؤں سے بچا لیا۔ امریکہ کے محکمہ انصاف نے بھی جیک سمتھ کی رپورٹ کی تائید کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحقیقات میں ایسے ناقابلِ تردید شواہد سامنے آئے ہیں جو ٹرمپ کے خلاف انتخابی نتائج کو فراڈ‘ جھوٹ اور عملے پر دباؤ کے ذریعے تبدیل کرنے کے الزام کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں لیکن انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کی وجہ سے اس مقدمہ کی مزید کارروائی کو موخر کر دیا گیا ہے۔ اسکے باوجود ٹرمپ نے 2024ء کے صدارتی انتخابات میں نہ صرف تمام سوِنگ سٹیٹس میں کملا ہیرس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے بلکہ الیکٹورل کالج کی سیٹوں پر بھی بھاری مارجن سے کامیابی حاصل کی اور اپنی پہلی ٹرم کے برعکس اس بار اپنی مدمقابل سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کیے۔
امریکہ اور باہر کی دنیا میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ آخر وہ کون سے محرکات اور تبدیلیاں ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی جارحانہ اور روایتی سیاست سے مختلف انداز اپنانے والے سیاسی رہنماؤں کو عوام میں پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ سیاست میں اس رحجان‘ جسے پاپولزم کہتے ہیں‘ کی ہر ملک میں الگ وجوہات ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کی صورت میں پاپولزم یا یوں کہیے کہ ''ٹرمپ ازم‘‘ کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں مگر تجزیہ کاروں کے مطابق سب سے زیادہ اہم معاشی مسائل ہیں۔ بیروزگاری‘ افراطِ زر میں اضافے اور معیارِ زندگی میں گراوٹ نے امریکہ کے نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں‘ خصوصاً صرف ہائی سکول تک تعلیم یافتہ‘ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کے مقابلے میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والی امیدوار نائب صدر کملا ہیرس کے پاس نوجوانوں کے روزگار اور بہتر زندگی کیلئے کوئی واضح پروگرام نہیں تھا۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کا فوکس زیادہ تر اُن مسائل پر تھا جو بیروزگاری اور مہنگائی سے متاثر ہونے والے امریکیوں کے بجائے پڑھے لکھے‘ بالائی متوسط طبقے‘ اشرافیہ اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے طبقات کیلئے دلچسپی کا باعث تھے۔ مثلاً جمہوریت‘ قانون کی حکمرانی‘ تحریر و تقریر کی آزادی‘ پرانی روایات اور اقدار کا احترام‘ خواتین کی آزادی خصوصاً اقساطِ حمل کی حمایت‘ یہ وہ اصول اور اقدار ہیں جن کا تعلق لبرل ڈیمو کریسی سے ہے۔ امریکہ کے مشہور اینکر پرسن فرید زکریا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور ان جیسے دیگر عالمی رہنما سیاست میں جس رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں وہ دراصل لبرل ڈیمو کریسی کے طویل دور کے خلاف ایک ردِعمل ہے کیونکہ لبرل ڈیمو کریسی نے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی نچلے طبقات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ اس کے مقابلے میں کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح تک ڈگریاں حاصل کرنے والے‘ تاجر‘ صنعتکار اور بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک‘ بینکاروں پر مشتمل اشرافیہ نے اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ ٹرمپ نے اس صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے نہ صرف لبرل ڈیمو کریسی کے اصولوں اور اقدار پر مبنی اداروں کو نشانہ بنایا ہے بلکہ امریکہ میں موجودہ حالات سے غیر مطمئن اور مستقبل کے بارے میں مایوس نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو یقین دلایا کہ وہ نہ صرف انہیں در پیش مسائل کی وجوہات سے واقف ہیں بلکہ انہیں دور کرنے کیلئے ان کے پاس نسخہ بھی موجود ہے اور یہ نسخہ امریکہ میں مقیم غیرقانونی تارکینِ وطن کے اخراج اور آئندہ غیر ملکیوں کیلئے امریکی شہریت کو مشکل بنانے اور دوسرے ممالک خصوصاً چین کی مصنوعات پر امریکی مارکیٹ کے دروازے بند کرنے پر مشتمل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ملک بدری تحریک شروع ہونے والی ہے اور اس کے لیے اگر فوج کو بھی استعمال کرنا پڑا تو دریغ نہیں کیا جائے گا۔
ٹرمپ امریکہ کی نوجوان نسل کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ان کو درپیش تمام مسائل کی وجہ امریکہ میں غیرقانونی تارکین وطن کی بلا روک ٹوک آمد اور مارکیٹ میں چین جیسی اُبھرتی ہوئی معیشت کی مصنوعات کی بھرمار ہے۔ ٹرمپ کے بیانیے کے مطابق تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد نے امریکیوں سے روزگار چھین لیا ہے اور چینی درآمدات کی بھرمار نے ان کی فیکٹریاں بند کر دی ہیں اور اس کی ذمہ داری وہ امریکی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ خصوصاً صدر جوبائیڈن کے گزشتہ چار سالہ دورِ حکومت پر ڈالتے ہیں۔ اپنے بیانیے کو مقبول بنانے کیلئے انہوں نے سوشل میڈیا کے استعمال پر زور دیا ہے جس کی طرف سابق صدر جوبائیڈن نے اپنے الوداعی پیغام میں اشارہ کیا تھا۔ اپنے خلاف مقدمات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دے کر ٹرمپ نے خود کو بے قصور اور سیاسی انتقام کا نشانہ ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2024ء کا انتخاب سوشل میڈیا کے ذریعے تارکین وطن اور اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں لوگوں تک غلط‘ گمراہ کن اور مسخ شدہ شکل میں اطلاعات پہنچا کر‘ امریکی نوجوانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل کرکے جیتا ہے اور یہی سیاسی انداز دنیا کے دیگر پاپولسٹ رہنماؤں کا ہے۔